اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پرپابندی کےلیےشہزاد رائےکی درخواست پر سماعت دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ سیکشن 89 کسی تشدد کی اجازت نہیں دیتا، آئین کے آرٹیکل 14 کی موجودگی میں بچے کو جسمانی سزا کی نیت اچھی نہیں ہو سکتی، اسلام نے بچوں پر تشدد سے منع کیا ہے۔ پارلیمنٹ میں بچوں پرتشدد سے متعلق بل پر بحث ہونے دیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں پاکستانی گلوکار و سماجی کارکن شہزاد رائے کی جانب سے بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا کے خلاف دائر درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سماعت کی۔
اس دوران چیف جسٹس کا ریمارکس دیتے ہوئے کہنا تھا کہ اچھے استاد کو کبھی طالب علم کو مارنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، اگر آج متحرک میڈیا نہ ہوتا تو ہمیں ان باتوں کا بھی پتہ نہ چلتا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں موجود وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ عدالت پاکستان پینل کوڈ کی سیکشن نواسی کو آئین سے متصادم قرار دے، مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔
شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ نے بل کی منظوری دے دی، معاملہ پارلیمنٹ کو بھجوانا ہے، اعتراض کیا گیا کہ یہ کام وزارت انسانی حقوق کا نہیں، وزارت داخلہ کاہے ۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ہیومن رائٹس کا معاملہ اور وفاقی حکومت کا کام ہے۔
وزیربرائےانسانی حقوق شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ نے اعتراض کیا کہ یہ آپ کا دائرہ کار نہیں، وزارت داخلہ نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بل بھجوایا جائے، ہم تو اسکول میں بچوں کو جسمانی سزاؤں کے خلاف اس پٹیشن کو سپورٹ کرتے ہیں۔
شیریں مزاری کا مزید کہا تھا کہ وزارت انسانی حقوق کے پاس اب بھی شکایات آرہی ہیں۔