ملک میں معاشی بدحالی اور ہوشربا مہنگائی کا ہر طرف شور ہے۔ عوام کی بڑی تعداد خط افلاس سے نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہے۔بلیک مارکیٹر اور ذخیرہ اندوز زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کےہوس میں گندم کی بوریاں نامعلوم مقامات پر ذخیرہ کررہے ہیں ۔ حکومت کی عدم توجہی کے باعث عوام کی زندگی عذاب بنتی جارہی ہے۔ بجلی ، گیس کی لوڈشیڈنگ اور ان کے نرخوں میں ہوش ربا اضافہ، نہری پانی کی قلت، جعلی زرعی ادویات، نقلی کھاد و بیج کے خلاف کارروائی کا نہ ہوناایسے مسائل ہیں جنہوں نے عوام کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ کچھ عرصے قبل انتہائی اعلی حکومتی سطح پر گندم کا مصنوعی بحران پیدا کرکے آٹے کی قیمت میں دوگنی قیمت سے زائد اضافہ کیا گیا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق بحران پیدا کرنے میں کئی اعلیٰ حکومتی شخصیات کا ہاتھ تھا لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی انہیں احتساب کے دائرے میں لایا گیا ۔ محکمہ خوراک کی عدم دلچسپی،گندم کی نئی فصل تیار ہونے کے باوجود واضح پالیسی اور نرخ سمیت خریداری مراکز نہ کھولے جانےاور چکی مالکان کو گندم کا مقررہ کوٹے کی عدم فراہمی کے باعث آٹے کا ایسا سنگین بحران پیدا ہوا کہ ملک بھر میں قحط کی سی صورت حال پیدا ہوگئی تھی۔ چند روز قبل تحقیقاتی اداروں کی جانب سے شکر کا بحران پیدا کرنے والے منافع خوروں کے ناجائز گوداموں پر چھاپہ مارا گیا جس کے دوران شکر کےبھاری ذخائربرآمد ہوئے ۔ کہا جاتا کہ شکر کے بحران میںحکومت کی ’’چند منظور نظر‘‘ شخصیات ملوث تھیں لیکن اس بحران کا سارا الزام حزب اختلاف کے رہنماؤں کی شوگر ملوںپر عائد کیا گیا جو ایک سال سے زائدعرصے سے بندش کا شکار ہیں۔
پولیس سمیت دیگر اداروں کا کارروائی سے گریز کیوں؟
ٹنڈو غلام علی میں شکر کے خفیہ گوداموں پر چھاپوں کی خبروں کے بعد ضلع بدین کی ماضی میں امیر ترین تصور کی جانے والی یونین کونسل نیو دمبالو میں بھی سرکردہ شخصیات کی جانب سے چینی کی ذخیرہ اندوزی کا انکشاف ہوا ہے۔بااثر ذخیرہ اندوزوں نے چینی کی سیکڑوں بوریاں اعلانیہ طور پر شہر سے دیہات میں اپنے عزیزوں کے گھروں میںمنتقل کرائیں۔شکر کی بوریوں کی منتقلی کی وڈیو وائرل ہونے کے باوجود مقامی انتظامیہ کی جانب سےکوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پولیس نےعوام کی جانب سے اطلاع ملنےپر مذکورہ جگہ کا معائنہ کرنےکے باوجود چشم پوشی اختیار کرلی اور کسی بھی کارروائی سے گریز کیا۔جب اس سلسلے میں متعلقہ پولیس افسران سے بات کی گئی تو انہوں نے بغیر مجسٹریٹ کے کارروائی سے معذوری کا اظہار کیا۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ ماتلی انتظامیہ اور اسسٹنٹ مختار کار کو ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کاروائی کے لیےبطور ثبوت وڈیو تک فراہم کی گئیں ،لیکن انہوں نے بھی کوئی نوٹس نہیں لیا۔دوسری جانب شکر کے ذخائر کی منتقلی کی ویڈیو وائرل ہونےپر ذخیرہ اندوزوں اور بلیک مارکیٹنگ کرنے والے عناصر اور ان کے سہولت کاروں نے نہ صرف بلیک مارکیٹنگ مافیا کا دفاع کیا بلکہ ان کی جانب سے ویڈیو وائرل کرنے والوں کے ساتھ میڈیا کو بھی مقدمات بنوانےاور سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔
نمائندہ جنگ نے اس سلسلے میں اسسٹنٹ کمشنر ماتلی سے رابطہ کی کوشش کی لیکن ناکامی ہوئی۔مختار کار ماتلی امیر حسن چانڈیو نے رابطہ کرنے پر جنگ کو بتایا کہ چینی کے ذخائر کے حوالے سے کارروائی کا اختیار اسسٹنٹ کمشنر ماتلی کے پاس ہےاور وہی ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا ختیار رکھتے ہیں۔ عوامی حلقوں نےاعلیٰ حکومتی شخصیات سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عوام کوگندم، شکر اور دیگر اشیائے خورونوش کے مصنوعی بحران سے بچانے کے لیے ذخیرہ اندوزوں اور بلیک مارکیٹنگ مافیا اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت ترین اقدامات کریں۔