ضلع مٹیاری حیدرآباد کےشمال میں قومی شاہراہ (این ایچ 5)پر30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ایک عرصے تک یہ علاقہ ضلع حیدرآباد کا حصہ رہا ہے لیکن 2005میں سندھ کے وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم کے دور میں جب حیدرآباد ضلع کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا تومٹیاری شہر کو بھی حیدرآباد سے علیحدہ کرکے ایک الگ ضلع بنا دیا گیا جس میں ہالا ( بھٹ شاہ،) اور مٹیاری شامل تھے۔کچھ عرصے بعد سعید آباد کا نیا تعلقہ بنا کر اسے ضلع مٹیاری میں شامل کردیا گیا۔ اس ضلع کی سرحدیں شمال میں نواب شاہ، جنوب میں حیدرآباد، مشرق میں سانگھڑ اور ٹنڈو الہ یار اور مغرب میں دریائے سندھ سے ملتی ہیں، جس کے دوسرے کنارے پر جام شورو واقع ہے۔مٹیاری کا شمار سندھ کے قدیم علاقوں میں ہوتا ہے۔
محققین کے مطابق وادی سندھ کی تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے ۔ ماضی میں سندھ دھرتی ی وسعت ملتان تک تھی ، قیام پاکستان کے بعد ملتان شہر کوصوبہ پنجاب میں شامل کردیا گیا ۔یہ بات بھی ایک بین حقیقت ہے کہ سب سے پہلے سندھ دھرتی اسلام کی روشنی سے منور ہوئی جس کے باعث اسے باب الاسلام کہا جاتا ہے۔ کئی صدیوں تک نواب شاہ سے ٹھٹھہ تک کا علاقہ علم و ادب کا گہوارہ رہا جب کہ ٹھٹھہ، نصر پور اور مٹیاری کے شہر و قصبات اسلامی تعلیمات، شعر و ادب کے حوالے سے خصوصی مقام رکھتے تھے۔صوبہ سندھ کے وسط میں ہونے کی وجہ سے ضلع مٹیاری کو وادی مہران کا مرکزی شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہاں کی مردم خیز زمین نےعظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی سمیت بے شمار صوفیوں،، علما، فضلا، اور اولیائے کرام کو جنم دیا ہے۔
مٹیاری گوناگوں خصوصیات کا حامل ضلع ہے، اسے یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ17 جنوری 1843 کو مٹیاری کے قریب ’’میانی جو میدان ‘‘ میں میرپورخاص کےمانکانی تالپور حکمراں میر شیر محمد تالپور اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپہ سالار،جنرل سر چارلس جیمز نیپئر کے درمیان آخری جنگ لڑی گئی جس میں تالپوروں کی شکست کے بعد انگریز پورے سندھ پر قابض ہوگئے تھے۔ اس جنگ میںتالپور فوج کے سپہ سالار، جنرل ہوش محمدقمبرانی عرف ہوشو شیدی نے جام شہادت نوش کیا تھا۔آج جب اس جگہ کو دیکھا جاتا ہے تو ہمیں نہ صرف ہوش محمد شیدی کا مزارنظر آتا ہے بلکہ ان انگریز سپاہیوں کی یادگاریں بھی دکھائی دیتی ہیں جو اس جنگ میں مارے گئے تھے۔میانی کے مقام پر انگریز سپاہیوں کی ایک اجتماعی قبر ہے جس میںایک درجن کے قریب سپاہی دفن ہیں۔ اسی میدان میں ہوش محمد شیدی تاریخی نعرہ ’’مرسوں مرسوں ، سندھ نہ ڈیسوں‘‘ کا نعرہ لگاکربرطانوی لشکرکی صفوں میں گھس گئے تھے،اور آخری سانس تک لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ۔
تاریخی روایات کے مطابق مٹیاری شہر کی بنیاد ’’سیدوں‘‘نے رکھی تھی جن کے آباء و اجداد آٹھویں صدی ہجری میں ہرات سے ہجرت کرکے یہاں آئے تھے۔ ان کی آمد سے قبل یہ ایک چھوٹا سا گائوں تھا جس میں ’’چانگ‘‘ قبیلے کے افراد رہائش پذیر تھے۔ 1400ء میں سید امیر حیدر شاہ ،منگول شہنشاہ تیمور لنگ کے ہمراہ ہرات سے سندھ تشریف لائے۔ سید امیر حیدر شاہ نسلاً عرب تھے اور ان کا سلسلہ نسب رسول اکرمؐ سے ملتا تھا۔ سندھ میں اس وقت شاہ محمد ہالو کی حکومت تھی جو ہالا میں اپنے قبیلے کا سردار تھا، جس کے نام سے ہالا شہر موسوم تھا۔ اس نے سید امیر حیدر شاہ کی پاکیزہ شخصیت سے متاثر ہوکر اپنی صاحبزادی کا نکاح ان سے کردیا۔ شادی کے بعدسید امیر حیدر شاہ کو ان کے والد نے ہرات طلب کرلیا اوروہ والدکے حکم کی بجاآوری میں وطن روانہ ہوگئے جب کہ ان کی اہلیہ ہالا میں ہی رہ گئیں۔ ان کے بطن سے ایک بیٹے نے جنم لیا جس کا نام سید امیر علی شاہ رکھا گیا۔
سید امیر علی شاہ جب بڑے ہوئے تو والدہ کی ہدایت پر اپنے والد سے ملنے اپنے آبائی وطن ہرات گئے جہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ ان کے والد اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ یہ خبر سن کر وہ اپنے چچا کے ساتھ باپ کی چھوڑی ہوئی دولت لے کر واپس اپنی ماں کے پاس ہالا آگئے، لیکن ان کا دل ہالا میں نہیں لگا اور انہوں نے اپنی والدہ کے ساتھ ایک قریبی علاقے میں رہائش اختیار کرلی جو اس وقت تک گمنام تھا۔کیونکہ سید امیر علی شاہ ہرات سے اپنے باپ کی چھوڑی ہوئی کافی دولت لے کر آئے تھے، اس سے انہوں نے اراضی کا بہت بڑا رقبہ خریدااور وہاں ایک شہر کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے اپنی والدہ کے ساتھاس علاقے میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ یہاںآنے سے قبل وہ کچھ عرصہ ضلع سانگھڑ کے قصبےشہدادپور کے قریب ’’مٹالو‘‘ کے علاقے میں رہے جس کے بعد وہ پورا علاقہ مٹیاری کے نام سے معروف ہوگیا۔ مٹیاری میں رہائش اختیار کرنے کے بعد انہوں نے ہالا میں مقیم اپنے ننھیال میں ایک خاتون سے شادی کرلی۔
دوسری روایت کے مطابق مٹیاری شہر’’ حسن شاہ ‘‘نامی ایک بزرگ نے آباد کیا تھاجنہیں مقامی لوگ ’’آری ‘‘ کے نام سے بھی پکارتے تھے۔ آپ اپنے نام کی طرح نہایت حسین ووجمیل تھے ، اس لیے نقاب لگا کر لوگوں سے ملتے تھے۔ لوگ انہیں ’’سید آری‘‘ کہتے تھے۔ آپ اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے عرب سے سندھ تشریف لائے، تو انہیں مٹیاری کا علاقہ بہت پسند آیاجو اس وقت تک ایک گم نام شہر تھا۔سید حسن شاہ نے یہیں سکونت اختیار کرلی۔ سید حسن شاہ تبلیغ دین کے ساتھ رفاہ عامہ کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ۔یہ علاقہ اس وقت دوسرے شہروں کی جانب جانے والے راستے پر واقع تھا۔ حسن(آری) شاہ یہاں سے گزرنے والے مسافروں کی پیاس بجھانے کے لیے پانی کے مٹکے بھر وا کر رکھتے تھے۔ سندھی زبان میں مٹکے کو’’مٹ‘‘کہا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ قصبہ ’’مٹ آری‘‘ یعنی آری کا مٹ کہلانے لگا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ مٹ آری ، مختصر ہوکر ’’مٹیاری ‘‘ بن گیا۔
مسافر جیسے ہی مٹیاری کے بس اڈے پر اترتا ہے تو اسے دکانوں اور ہوٹلوں کے ساتھ ایک چھوٹی مگر انتہائی پروقار مسجد دکھائی دیتی ہے،مقامی لوگ اسے ’’اڈّے والی مسجد‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔اس مسجد کو مٹیاری کی ایک درویش صفت شخصیت ، جناب صوفی احمد راشدی کے والد نے تعمیر کرایا تھا۔ مٹیاری کے باسیوں کا کہنا ہے کہ صوفی راشد کے والدمحترم جب فریضہ حج کی ادائیگی اور اس کے بعدمقاماتِ مقدسہ کی زیارت سے واپس مٹیاری آئے تو کربلا ئے معلیٰ میں موجود ایک مسجد کا نقشہ بھی اپنے ہمراہ لائے تھے اور اسی نقشے کے مطابق اس کی تعمیر کرائی۔ یہ مسجد ہو بہوکربلا کی مسجد کی طرح ہے۔ اسٹاپ سے جب تھوڑا آگے بڑھیں گے تو مٹیاری شہر کا سب سے قدیم ہائی اسکول آتا ہے۔
اس میں مٹیاری ، ہالا اور سعیدآباد کی کئی نامور شخصیات نے تعلیم حاصل کی ۔ یہاں اسکول کی چاروں طرف کی دیواروں پرشاہ عبداللطیف بھٹائی کے اشعار لکھے نظر آتے ہیں جو مٹیاری کے شہریوں کی شاہ عبداللطیف بھٹائی سے دلی عقیدت کا ثبوت ہے۔اسکول سے ذرا آگے شاہی بازار واقع ہے ۔مٹیاری کے اس بازار میں وادیٔ مہران کی قدیم و جدید تہذب کے نہایت شان دار اور خوب صورت شاہ کارموجود ہیں۔ضلع مٹیاری میں بے شمار تاریخی آثار واقع ہیں۔ تعلقہ ہالا میں خداآباد کے مقام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں مغلیہ عہد کی قبریں، مقابر اور ایک قدیم کنواں موجود ہے۔
یہ شہر علم و ہنر کا مرکز رہا ہے۔ مورخین کے مطابق ماضی میں ہندوستان میں برسراقتدار برطانوی حکمراں مسلمانوں کےآپس کے جھگڑوں اور شرعی مسائل نمٹانے کے لئے مٹیاری کے دارالفتاویٰ سے فتوےلے کر ان کے قضیے نمٹایا کرتے تھے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن شریف کا پہلی مرتبہ سندھی زبان میں ترجمہ کرنے والے عالم ،اخوندعبدالعزیز کا تعلق مٹیاری شہرسے تھا جب کہ تحریک خلافت پر جان قربان کرنے والے پہلے شہید محمد رحیم قاضی بھی اسی شہر کے باسی تھے۔
مٹیاری شہرپاکستان میں گھریلو دست کاری ، صنعت و حرفت کا بڑا مرکزہے۔ یہاں آج بھی ہاتھ کی کھڈیوں سے کپڑا بننے کا رواج ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہےکہ بہترین اجرک کھڈی کے کپڑے سے تیار ہوتی ہے۔یہ شہر گھریلو دست کاریوں میں سندھی کڑھائی والے گلے، سندھی ٹوپیاں لوئی (گرم چادریں)اور بیڑی سازی ، کاشی اور اجرک کے حوالے سے معروف ہے۔ یہاں کپڑے کی ہر دکان پرہاتھ سے بنی ہوئی اجرک فروخت ہوتی ہے، جو 100روپے سے 5000روپے میں باآسانی مل جاتی ہے۔رلّی بھی سندھی ثقافت اور گھریلو دست کاری کاایک حسین شاہ کار ہے۔ یہ مختلف رنگ دار کپڑوں کے ٹکڑوں سے تیارکی جاتی ہے۔ مٹیاری کا علاقہ زراعت کے حوالے سے بھی نمایا مقام رکھتا ہے۔ یہ ضلع کپاس، گنا، کیلا، گندم، آم اور پیاز کی کاشت کے لیے مشہور ہے۔
اجرک کے بعد مٹیاری ضلع کی خصوصی سوغات ’’ماوا‘‘ ہے جو انتہائی خوش ذائقہ مٹھائی ہوتی ہے۔یہ خصوصی مٹھائی صرف مٹیاری ہی میں بنتی اور فروخت ہوتی ہے۔ یہ خالص دودھ سے تیار کی جاتی ہے اور صرف سفید اور کلیجی رنگوں میں ہی تیار کی جاتی ہے۔ مٹیاری کے ہر ہوٹل اور چائے خانے میں یہ موجود ہوتی ہے اور گاہکوں کی فرمائش پر چائے کے ساتھ اسےپیش کیا جاتا ہے۔مٹیاری کی آئس کریم بھی بہت مشہور ہےاور مقامی لوگ دوسرے شہروں سے آنے والے اپنے مہمانوں کو خصوصی طور پر ماوا اور آئس کریم کھلاتے ہیں۔