• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سحرش بخاری

 نپولین نے دعویٰ کیا تھا کہ "اگر آپ مجھے تعلیم یافتہ مائیں دیں گے تو میں آپ کو ایک اچھی نسل دوں گا" ، اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت کے لئے لازم و ملزوم ہے کہ اب وہ خود کو اس طرز و بناوٹ سے ترتیب دے ۔عورت کو اگلی نسل کی پرورش کے لئے فرسٹ پرسن کی حیثیت سے دنیا کا حصہ بننے کی ضرورت ہے۔ 

لیکن ہمارے معاشرے میں اصل بات یہ ہے کہ عورت پیدائشی طور پر جانتی ہے کہ وہ لڑکی ہے اور لڑکی ہوتے ہوئے، جو کام اس سے منسلک ہیں وہ خوش اسلوبی سے سر انجام دے اور جو کام لڑکی کی حیثیت سے اس سے منسلک نہیں ایسا کوئی بھی کام نہیں کر سکتی ہے ، اور اسے ہمیشہ ایک بہن ، بیٹی، بیوی اور ماں ہونے کی وجہ سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے ، نہ تو مرد اور عورت کے مابین تقابل کیا جاسکتا ہے ، نہ ہی کوئی برتری اور نہ ہی کمتری۔ اس معاشرتی مسئلے کا علاج عورت کو معاشرے کا حصہ بننے کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔ ایک انسان ہونے کے ناطے ، صنفی امتیاز رکھنے کی بجائے آج کی خواتین کو انسانی حقوق حاصل کرنے چاہیے۔ مرد غالب معاشرے کے بارے میں بات کرنے کے علاوہ، خواتین کو اپنے معیارات کو پورا کرنے کی ضرورت ہے جو وہ فطری طور پر رکھتیں ہیں۔

یہ نظریہ بہت ہی جامع ہے ، اگر ہم خاص طور پر حقوق نسواں اور عورت مارچ پر تنقید کی مثال لیں تو آج کی عورت کو مرد سے برتر ہونے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ انسان ہونے کے ناطے اپنے فطری حقوق حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ، لڑکی کو اکثر اس کے خوابوں کے لئے منہ بند کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے ،کیوں کہ اس کے خواب ایک صنفِ نازک کی حیثیت کے مطابق نہیں ہیں۔ یہ معاشرہ عورت کے معاملے میں بچگانہ سوچ رکھتا ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مردوں کے اس معاشرے میں مرد کی عزت کا دارومدار عورت کے دوپٹے پر ہی کیوں ہے ۔ مرد کی ماتحت عورت اگر کچھ ایسا کرے جو ایک عورت ہوتے ہوئے کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے تو بےشک وہ عورت عزت دار کہلانے کے لائق نہیں۔ تو مرد کے عمل کا ذمے دار کون ؟

اس معاشرے میں یہ روایت قائم کی گئی ہے کہ عورت کو مرد کی انا کو تکلیف نہیں پہنچانی چاہئے ، اگر مرد کی انا کو تکلیف پہنچتی ہے تو اس کا نتیجہ تیزاب گردی، عصمت دری کے واقعات ، ترمیم شدہ تصاویر وغیرہ ہوگا۔ ایک ماں ہمیشہ اپنی بیٹی کو یہ تعلیم دیتی ہے کہ آپ کے بھائی ، باپ کا فخر آپ کے اعمال پر منحصر ہے ۔ اگر آپ گھر میں بیٹھتے ہیں تو معاشرہ آپ کے والد اور بھائی پر تنقید نہیں کرے گا۔

. اس کی بجائے کیوں ہم اپنی لڑکیوں کو پورے حالات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہ نہیں کرتے ؟ کہ کسی بھی رکاوٹ کی صورت میں آپ یہ کر سکتی ہیں اور یہ اس لئے کہ آپ کے والد اور آپ کا بھائی ہمیشہ آپ کو سپورٹ کریں گے اور آپ جو کچھ کرنا چاہتی ہیں وہ کر سکتیں ہیں اور کرنا بھی چاہیے۔ اس سے ہر لڑکی آسانی سے جان سکتی ہے کہ اس کے والد اور بھائی کا فخر اس کے فعل پر کس طرح منحصر ہے۔ 

ہمارے معاشرے میں برابری کی مکمل حمایت کیوں نہیں ہے ، کیوں ہر لڑکی کو ہی اپنے گھر کی عزت برقرار رکھنے کے لئے مناسب طریقے سے کام کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے؟ کیوں اس عمل میں لڑکے کی تربیت ضروری نہیں سمجھی جاتی؟ .اور اگر اکیلی عورت پورے گھر کی عظمت کا وزن اُٹھاسکتی ہے .... تو دنیا کی سب سے مضبوط مخلوق واحد عورت ہے ، کیوں کہ مرد کی بقا اس کی عورت کے عمل پر منحصر ہے۔

لہٰذا تمام دقیانوسی تصورات سے نمٹنے کے لیے یہ سب آگاہی اور شعور اہم ہیں جو تمام نظریات کا متضاد جواب دے رہے ہیں جیسے "لوگ کیا کہیں گے" ان تمام دقیانوسی تصورات کو ختم کرنے کے لیئے، ہمیں ذہنی پسماندگی کو کسی بھی قیمت پر ترقی کی طرف گامزن کرنے کی ضرورت ہے ۔ معاشرے کو بہتر بنانے کے لئے بیداری اور خواندگی کی شرح کو ایک ساتھ لے کر چلنے اور اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے ،تاکہ عورت اپنے آپ کو ،اپنی اہمیت کو،اپنے وجود کی زمہ داریوں کو سمجھ سکے، کیوں کہ ہر نئی نسل ایک عورت کے ہاتھ میں ہے .اور اگر ان ہاتھوں کو صحیح طریقے سے تربیت نہیں دی گئی تو ہم ایک مثالی نسل کی تشکیل نہیں دے پائیں گے۔ عورت کو اپنی اہمیت اور حقوق سمجھنے ہوں گے۔

عورت ہی تربیت یافتہ معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہے ۔ اپنی نئی نسل کو بہتر بنانے کے لئے ، معاشرے میں اپنا کردار خوش اسلوبی سے نبھا سکتی ہے۔

تازہ ترین