احسن نواز
ردیف اور قافیہ دراصل شعری اصطلاحات کے اجزاء ہیں۔ ان کے بغیرصنفِ نظم کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا،جس طرح شاعری میں بحر اور زمیں خاص اہمیت کی حامل ہیں بالکل اسی طرح ردیف اور قافیہ اصنافِ نظم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیں۔ ان کے بغیر اصنافِ نظم میں ترنم بھی پیدا نہیں ہوتا۔
قافیہ لفظ قفو سے ہے ،جس کے معنی پیروی کرنے اور پیچھے آنے والے کے ہیں۔اردو ادب میں قافیہ ایسے الفاظ کو کہا جاتا ہے جو اشعار میں الفاظ کے ساتھ غیر مسلسل طورپر آخر میں بار بار آتے ہیں۔یہ الفاظ بعض وقت غیر ضروری معلوم ہوتے ہیں مگر ہٹا دیئے جانے پر بھی خلا پیدا کر جاتے ہیں۔اس لیے ترنم اور تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے قافیہ کا استعمال لازم و ملزوم تصور کیا جاتا ہے۔قوافی کو عرفِ عام میں ہم قافیہ الفاظ کہا جاتا ہے،اس کی ایک خوبصورت مثال ملاحظہ فرمائیں؛
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
مندرجہ بالا شعر میں ۔ہوا۔ اور ۔دوا۔ قوافی ہیں۔
ردیف کےمعنی گھڑ سوار کے پیچھے بیٹھنے والے کے ہیں۔ شعری اصطلاح میں ردیف سے مراد قافیہ کے بعد آنے والے وہ الفاظ ہیں جو مکرر آتے ہوں۔ اور یکساں بھی ہوں، مگر ردیف پر مصرعے میں آئے، یہ بھی لازم نہیں ہوتا۔ یہ بعض وقت غزل کے مصرعہِ ثانی میں تکرار سے بھی آتا ہے۔اس کی ایک اور تعریف یوں بھی کی جاتی ہے کہ قافیہ کے بعد جو الفاظ مسلسل تکرار سے آئیں، ردیف کہلاتےہیں۔ ایک مثال ملاحظہ فرمائیں؛
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہین ہر پیکرِ تصویر کا
اس شعر میں دونوں مصرعوں میں موجود ۔ کا۔ ردیف کہلاتا ہے۔ردیف اختیاری ہوتا ہے، تاہم مطلع کے دونوں مصرعوں میں اگر ردیف بھی شامل ہو تو وہ ہر شعر کے دوسرے مصرعے میں اسی املاء میں (حرف بہ حرف) شامل ہو گا۔ مناسب تر ہے کہ ردیف کو بجا اہمیت دینے کے ساتھ ساتھ قافیے کی توسیع سمجھا جائے۔
رنج کی جب گفتگو ہونے لگی
آپ سے تم، تم سے تو ہونے لگی
اس میں ’’ہونے لگی‘‘ ردیف ہے، استاد داغؔ نے ہر شعر میں اس کا اہتمام کیا ہے۔ قوافی ہیں: گفتگو، تم سے تو، دو بدو، کو بکو، روبرو، آرزو، جستجو، آبرو؛ ان سب میں صرف ایک حرف آخری واو ( واوِ معروف) حرفِ قافیہ ہے۔ گویا اس غزل کے لئے تین باتیں طے ہو گئیں: غزل کا ہر شعر ’’فاعلاتن فاعلاتن فاعلن‘‘ پر پورا اترے گا؛ حرفِ قافیہ واوِمعروف ہو گا، یعنی اس سے پہلا حرف جو بھی ہو اُس پر، پیش (ضمہ) ہو گا؛ ردیف ’’ہونے لگی‘‘ کو ہر بیت کے آخر میں شامل کیا جائے گا۔
ایک مکتبِ فکر کا کہنا ہے کہ حرفِ قافیہ کو قطعی ہونا چاہئے یعنی قریب المخارج اصوات کی بھی گنجائش نہیں، تاہم بہت قریب المخارج حروف قافیہ میں ایک دوسرے کے مقابل لائے جاتے ہیں۔ ت کے ساتھ، تھ کا قافیہ بہت عام ہے۔ غلام محمد قاصر کا یہ شعر:
اکیلا دن ہے کوئی اور نہ تنہا رات ہوتی ہے
میں جس پل سے گزرتا ہوں محبت ساتھ ہوتی ہے