• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حال ہی میں مجھے اپنی پلٹن 16آزادکشمیر رجمنٹ کے یوم ِ تاسیس اور حا ضر سروس و ریٹائرڈ افراد کے ساتھ مل بیٹھنے کی تقریب میں بڑی مدت کے بعد شرکت کا اِتفاق ہوا ۔ اس پلٹن کے ساتھ میں نے 1972 سے1975تک وادیِٴ لیپا کے محاذ پر اپنی عسکری زندگی کے سنہری لمحات گزارے تھے۔ یہ خصوصی تقریب جسے ہم دربار کہتے ہیں بہت ہی پروقار اور ولولہ انگیز تھی۔ اس موقع پرمجھے شہداء کے لواحقین کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے تحائف دینے کا اعزاز ملا۔ ابھی تک اِس مایہ ناز پلٹن کے 101 فرزند ملک پر قربان ہو چکے ہیں اور خاصی تعداد میں ان کے لواحقین اس تقریب میں شریک تھے۔میں اس تقریب کے ان واقعات اور لمحات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں جس سے وقت کے پہیئے کو الٹا چکر ملا اور میرا بڑھاپا واپس جوانی میں لوٹ آیا۔ میری آنکھیں اس وقت نم تھیں جب میرا سامنا ایک شہید کے والد سے ہوا جس نے اپنے بڑے بیٹے کی شہادت کے بعد چھوٹے بیٹے کو بھی اسی پلٹن کے حوالے کر دیا۔ یہ بزرگ جب اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ میرے سامنے آئے تو میں نے ان کو مبارکباد دی اورکہاکہ ان کے اس بیٹے کا نام”شیر“ ہے جس پر انہوں نے کہا میں شہید بیٹے سپاہی جاوید کو پیارسے ٹائیگر کہہ کر پکارتا تھا، جب یہ دوسرا پیدا ہوا تو اس کا نام ’شیر‘ رکھ دیا۔ اب یہ شیر بھی وطنِ عزیز کے حوالے ہے۔ یوں تو بہت سارے ایسے قصے تھے جو میرے سامنے آئے لیکن اگر ان سب کا ذکر شروع کر دوں تو شایدمجھے کتاب لکھنی پڑ جائے اس لئے میں صرف یہ کہوں گا کہ اس طرح کی جانفشانی اور قربانی کی بھرپور داستانوں سے ہماری پوری فوج مالامال ہے اور فوج کے علاوہ پاکستانی قوم بھی اپنی مسّلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے ۔ یقیناً جذبہ ٴ حبُ الوطنی اور ایثار میں ہماری قوم کا کوئی ثانی نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم نے کوئی جنگ بھی زمین پر نہیں ہاری اگر ہاری ہے تو ذہنوں میں! یہاں سید ضمیر جعفری کا یہ قطعہ جوسکوتِ ڈھاکا کے وقت لکھا پیشِ خدمت ہے۔ #
یہ جانباز لشکر نہ کھاتا شکست
مگر تھا قیادت کا کردار پست
عزائم تو بیدار سینوں میں تھے
مگر سانپ بھی آستینوں میں تھے
قارئینِ کرام! تاریخ گواہ ہے کہ ماسوائے اندرونی خلفشار کے ہم نے جتنی جنگیں لڑی ہیں ان سب کی بنیادی وجہ تنازعہٴ کشمیر ہی تھا۔1948ءء میں لشکر کشی کے سہارے ہم سرینگر ائیرپورٹ تک تو پہنچے مگر جہاز میں سوار ہونے سے محروم رہے۔ 1965ءء میں جبرالٹر کے چھاتے سے کشمیر میں اُترے اور اُترتے ہی چلے گئے۔ 1971ءء میں براستہ درونگلی نالہ تھن پیر پر جا بیٹھے اور پونچھ کو دیکھتے ہی رہے اور اسی اثناء میں مشرقی پاکستان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 1999ءء میں توہم نے کمال منصوبہ بندی کے ذریعے کارگل کے پہاڑوں پر نمائشی جنگ کا مظاہرہ کیا۔ ان معرکوں میں ہم نے بے تحاشا جانی اور مالی قربانیاں دی ہیں اور اب 65 سال گذرنے کے بعد ہم(MFN) کاتمغہ ہی حاصل کر سکے ! میں ذاتی طورپر جنگ کا مخالف اور امن کا حامی ہوں لیکن قوم کو جنگوں میں جھونکنے اور پھر ان کی قربانیوں کو ضائع کرنے کا سخت مخالف ہوں۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے ایسی جامع اور دوررس پالیسی اپنائیں جس سے ہماری اجتماعی قومی قربانیاں جن کا ذکر سید ضمیر جعفری نے اپنی طویل نظم ’گنر شیرخاں‘ کے عنوان سے کیا ہے ضائع نہ ہو پائیں۔ اس نظم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
جواں خون جب موج میں آگیا
تو وہ گاوٴں سے فوج میں آ گیا
وطن کے لئے دکھ اٹھانے کا ظرف
کفن باندھ کر مسکرانے کا ظرف
اگر تجھ کو رن سے پکارے وطن
تری زندگی میں نہ ہارے وطن
شہادت سعادت پرانی تری
وطن کی امانت جوانی تری
اسی جادئہ زندگی پر رواں!
اسی روح بے باک کا ترجماں!
گنر شیر خاں!..... شیر نر شیرخاں!
تازہ ترین