فرحت سلیم
سنتے تھے کہ گزرے وقتوں میں ذہنی تناؤ اور اس کی وجہ سے ہونے والی بیماریاں زیادہ تر بزرگوں کو ہوا کرتی تھیں، لیکن وقت کے ساتھ اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔ آج کے دور میں بڑوں سے زیادہ نوجوان ذہنی تناؤ کا شکار نظر آتے ہیں، کبھی پڑھائی تو کبھی دفتری معاملات کی وجہ سے، یہ تناؤدن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
زمانۂ طالب علمی میں تو دوستوں یا اساتذہ کی رہنمائی میں ڈپریشن ، پریشانی اور مشکل وقت کسی طرح کٹ ہی جاتا ہے، لیکن جب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نوجوان عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں، توان کے لیے یہ ’’دنیا‘‘ انتہائی پُر خطراورکانٹوں بھری ہوتی ہے، نئی نئی ملازمت کے دوران کئی مواقع ایسے آتے ہیں، جب انہیں تنقید اورمایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے،نتیجتاًوہ اداسی، مایوسی اور بیزاری میں مبتلا ہو نے لگتےہیں، جو آہستہ آہستہ ان کےمزاج کا حصہ بن جاتی ہے۔ چند سال قبل اس حوالے سے امریکی سائیکالوجی ا یسوسی ایشن (اے پی اے) کےتحت ہونے والےایک سروے کے مطابق دفاتر میں عموماً نوجوان کام کی زیادتی کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں، جس کی وجہ سےان میںغصہ، چڑچڑا پن، گھبراہٹ، ڈپریشن اور بے چینی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ، آپ میں سے بہت سے نوجوان دفتری معاملات یا کام کی وجہ سے ذہنی تناؤ کا شکار ہوں اور انہیں نہیں سمجھ میں آرہا ہو کہ وہ کیسے ان حالات کا سامنا کریں، مگر یاد رکھیے مسلسل دباؤ کی وجہ سے آپ کی صحت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ہم آپ کو ذہنی تناؤ سے چھٹکاراحاصل کرنے کے چند اصول بتاتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ،یہ اصول آپ کے کام کو منظم کرنےاور ذہنی دباؤ کو کم کرنے میں معاون ثابت ہو ں۔
ضروری کام پہلے مکمل کریں
یاد رکھیے،چاہے دفتر ی کام ہو یا تعلیم ٹائم مینجمنٹ انتہائی اہم ہوتی ہے، بہت سے نوجوان ناکامی کا سامنا صرف اس لیے کرتے ہیں کہ، وہ وقت پر کام مکمل نہیں کر پاتے، پھر ناکامی کی صورت میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ آپ اہم ترین کاموں کی ایک فہرست تیار کرلیں ، جو کام بہت ضروری ہو اسے سب سے پہلے مکمل کریں، پھر درجہ بہ درجہ باقی کاموں کو مکمل کرتے جائیں، ایک بار جب آپ وہ کام مکمل کرلیں تو اس دن میں کام یابی تو حاصل ہو ہی جائے گی، ساتھ ہی ساتھ آپ مزید کام کرنے کے لیے بھی وقت نکال سکیں گے۔
کام کو خود پر سوار مت کریں
کیا آپ کو معلوم ہے کہ، کوئی بھی کام یا پریشانی اس وقت تک ذہنی تناؤ کا باعث نہیں بنتی جب تک کہ ہم اسے خود پر سوار نہ کرلیں،زیادہ تر دباؤ ہمارا خود ساختہ ہوتا ہے، درحقیقت ہم خود سے اتنے بلند عزائم یا معیار اپنے لیے طے کرلیتے ہیں، جن کا حصول لگ بھگ ناممکن ہوتا ہے، یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بلند عمارت پر چڑھنے کے لیے ایک ایک سیڑھی چڑھنی پڑھتی ہے، کوئی بھی ایک قدم میں منزل پر نہیں پہنچ جاتا، اس لیے پہلےکسی ایک پراجیکٹ پر توجہ مرکوز رکھیں، اسے مکمل کریں ، ناکامی کی صورت میں دل برداشتہ نہ ہوں کیوں کہ، ناکام وہی ہوتا ہے ، جو کام کرتا ہے۔اگر کام کی فکر اپنے اوپر سوار کرلیں گے تو کام یابی حاصل نہیں کر سکتے۔
اپنے لیے کچھ وقت نکالیں
اپنے لیے کچھ فارغ وقت نکالنا بہت ضروری ہوتا ہے، درحقیقت اس سے آپ کو دوبارہ تازہ دم ہونے میں مدد ملتی ہے، ہمارے ہاں یہ عام تاثر ہے کہ بنا وقفہ لیے صرف کام کرتے رہنے سے کام اچھا ہوتا ہے اور جلدی ختم ہوجائے گا، حالاں کہ ایسا نہیں ہے، کام کے دوران کچھ دیر کا وقفہ لینے سے آپ کی انرجی بحال ہوتی ہے اور آپ زیادہ بہتر اور اسمارٹ طریقے سے ٹاسک پورا کرپاتے ہیں۔کام کے دوران وقفہ لینا بالخصوص ان افراد کے لیے زیادہ ضروری ہے جو کوئی کریٹیو کام کرتے ہیں۔
وقت ضائع کرنے والے کاموں کا جائزہ لیجیے
اگر آپ کام کو وقت پر مکمل نہیں کر پا رہے تو جائزہ لیں کہ کہیں آپ فضول کاموں میں اپنا وقت تو ضائع نہیں کر رہے؟ جیسے دفتری اوقات میں سوشل میڈیا کا بے جا استعمال بھی کام میں حائل ہو سکتا ہے، ان تمام باتوں کا جائزہ صرف آپ خودہی لے سکتے ہیں۔
اپنی معمولات میں تبدیلی لاکر یا حقیقی مسئلے کی شناخت کے لیے نئے حل آزما کر قابو پاسکتے ہیں، یہ ایسا طریقہ کار ہے کہ اس کے لیے بہت زیادہ وقت بھی درکار نہیں ہوتا، مگر نتائج ضرور مثبت نکلتے ہیں۔
ترجیحات
یاد رکھیں، اگر آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ باس ہر وقت یا ہر کام پر آپ کی ستائش کرے گا تو یہ سوائے خام خیالی کے اور کچھ نہیں ہے۔بہت سے باس کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ، اپنے ماتحت کی زیادہ تعریف کرنے سے وہ بے پروا اور کام کی طرف سے غفلت برتنے لگتا ہے، اس لیے وہ ہر کام پر آپ کی پزیرائی ہر گز نہیں کریں گے۔اس لیے، باس کو خوش کرنے اور خود کو پرفیکٹ ثابت کرنے سے بہتر ہے کہ اپنی ترجیحات بدلیں، توانائی اور پوری توجہ صرف کام اور صحت پر مرکوز رکھیں، ضروری نہیں ہے کہ آپ ہر کام میں ماہر ہوں، اس لیے کبھی کبھار کچھ کاموں کو انکار بھی کرنا پڑتا ہے۔
تفریح بھی ضروری ہے
کام کھیل کی طرح پرلطف بھی ثابت ہوسکتا ہے، درحقیقت ہم لوگ کام میں اس قدر محو ہو جاتے ہیںکہ، اپنے لیے وقت ہی نہیں نکال پاتے، ہم یہ تک بھول جاتے ہیں کہ ہم جو کر رہے ہیں اس سے کیسے لطف اندوز ہوں، یہاں تک کہ جب ہم اچھے طریقے سے بھی کام پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہوں تو بھی اس عنصر کو فراموش کردیتے ہیں، ہمیشہ خود سے پوچھیں اپنے کام کے دوران میں کس طرح زیادہ وقت لطف اندوز ہوتے ہوئے گزار سکتا ہوں، اس سے کام کا معیار اور آپ کی کارکردگی دونوں میں اضافہ ہوگا۔
وقت نہیں نتائج پر دھیان دیں
کچھ افراد گھنٹوں کسی کام میں مشغول رہنے کے بعد بھی اسے مکمل نہیں کر پاتے، ایسا اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ، لگاتار کام کرنے سے ان کی انرجی ضائع ہوتی ہے، جب کہ یکسوئی بھی قائم نہیں رہ پاتی۔ یاد رکھیں! ہماری کام یابی کا انحصاراس بات پر نہیں ہوتا کہ ہم ایک کام میں کتنی دیر صرف کر رہے ہیں بلکہ اس بات پر ہوتا ہے کہ یکسوئی سے کر رہے ہیں یا نہیں۔
بہت سے افراد خود پر بے کار کاموں کا بوجھ لادے رکھتے ہیں، جن کو پورا بھی نہیں کرپاتے، آپ کو ایسے طریقہ کار ڈھونڈنے ہوتے ہیں ،جو کم وقت میںزیادہ فائدہ دیں اور اس کے لیے ایک طریقہ اپنی اہلیت کی جانچ کرنا ہے، سننے میں عجیب ضرور لگے گا مگر جب آپ اپنے کام کی حقیقی پیمائش کریں گے، تو اس سے آپ کو اپنے کام میں واضح فرق نظر آنے لگے گا۔
دوسروں کی مدد لینا
کوئی بھی انسان عقل کل ہوتا ہے اور نہ ہی ہر کام میں ماہر اس لیے زندگی کے ہر قدم پر ہمیں بہت سے لوگوں کی رہنمائی اور مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔ فارغ التحصیل ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ پر سیکھنےکے دروازے بند ہو گئے ہیں۔
دفتر میں بھی بہت سے افراد ہم سے تجربہ کار اور ماہر ہوتے ہیں، جیسے ہمارے سینئرز ، تو اگر کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی تو ان سے مدد لی جاسکتی ہے۔اس بات کو جانیے کہ، کن کاموں میں دوسروں کی مدد کی ضرورت ہوسکتی ہے، جو لوگ ہر کام خود کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ نہ صرف حد سے زیادہ بوجھ اور تناؤ کا شکار ہوجاتے ہیں بلکہ یہ عمل ان کے ساتھیوں کی دل شکنی کا بھی سبب بنتا ہے، انہیں اہم فرائض میں شریک کرکے خود پر بوجھ کم کرنے کے ساتھ ان کے اندر بھی نیا جوش پیدا کیا سکتا ہے۔