پاکستان میں جب بھی تبدیلی کی بات ہوتی ہے تو سب سوچنے لگ جاتے ہیں کہ تبدیلی کیسی ہوگی۔ اپنے ملک میں تبدیلی کی تاریخ دیکھیں تو عوام کے حصہ میں کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ ہاں! ایک بات ضرور ثابت ہوئی ہے کہ تبدیلی کے نعرے بلند کرنے والے لوگ اور سرکاری ملازمین کی قسمت ضرور تبدیل ہو جاتی ہے۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد تبدیلی کا نعرہ بلند کرنے والے حکمران بن گئے مگر تبدیلی ہوتی نظر نہ آئی، پھر ایک دم تبدیلی کی ایسی ہوا چلی کہ تبدیلی نظر آ رہی ہے بلکہ تاریخ بھی رقم ہونے جا رہی ہے۔ اب جب کبھی تاریخ لکھی جائے گی تو لکھا جائے گا کہ یہ واقعہ کورونا کے حملے سے پہلے کا ہے اور اس کے بعد دنیا ہی بدل گئی، ابھی تو بدلنے والی دنیا کے بارے میں سوچا اور اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے تاہم اس کورونا وائرس نے سیاسی اور سماجی تبدیلی کی شروعات تو کر دی ہیں۔ تبدیلی کے نتیجہ میں ایک نامعلوم سا خوف ہر سو پھیل گیا ہے جس کے بعد یقین اور امید کے درمیان فاصلہ مزید بڑھ گیا ہے۔
میں نے پہلی بار کورونا وائرس کا ذکر سنا تو اس وقت میں کینیڈا میں تھا۔ کینیڈا میں بہت سارے چینی تارکین وطن رہتے ہیں اور ان کے اپنے بازار ہیں جہاں ان کی معاشرت علیحدہ سی نظر آتی ہے۔ اس وقت چین نے سفارتخانوں کے ذریعے اپنے لوگوں کو مطلع کرنے کا عمل شروع کر دیا تھا۔ اسی دوران معلوم ہوا کہ جس شہر میں کورونا وائرس حملہ آور ہوا ہے اس شہر میں کچھ عرصہ پہلے امریکی اور چینی افواج نے مشترکہ مشقیں کی تھیں اور اس کے فوراً بعد وہاں پر امریکی سفارتخانہ بند کر دیا گیا اور تمام عملہ واپس بلا لیا گیا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ جو فوجی اس مشق میں شامل تھے ان میں سے کچھ کو افغانستان روانہ کر دیا گیا اور وہ کسی نامعلوم بیماری کا شکار ہو گئے۔
اب مجھے کچھ دنوں بعد واپس پاکستان جانا تھا، میں نے اپنی بکنگ کروائی لیکن میری بیٹی پاکستان جانے کی مخالفت کر رہی تھی۔ وہ عالمی حالات سے خاصی باخبر رہتی ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ پاکستان نے کورونا کے مسئلے میں چین کی بہت ہی مدد کی ہے مگر یہ وبا قابو میں نہیں آ رہی، اس نے مجھے خصوصی طور پر ماسک استعمال کرنے کی ترکیب سمجھائی۔
خیر میں پاکستان واپس آیا اور پاکستان واپس آتے ہی ایئر پورٹ پر کورونا چیک سے واسطہ پڑ گیا۔ بس یہ تبدیلی نظر آئی اور کچھ نہیں، باقی سب کچھ حسبِ معمول تھا۔ سابق وزیراعظم کی صحت کی خبریں گردش کر رہی تھیں، میری دوست شانتی دیوی جو سائوتھ افریقہ میں رہتی ہے اور خطہ کی سیاست پر نظر رکھتی ہے، کی میل آئی اور پوچھا کہ کیا کسی مجرم کی صحت کی وجہ سے ضمانت کی گنجائش ہے؟ اس کا سوال حیران کن تھا، تحقیق کا کوئی سرا ہاتھ نہ آیا۔ خیر گول مول بات کی، ہمارے ہاں غیر معمولی حالات کی وجہ سے کچھ بھی ہو سکتا ہے اور بعد میں ایسا ہی ہوا۔ عدل وانصاف کی تاریخ میں ایک نیا باب لکھا گیا۔ شانتی دیوی کی جوابی میل آئی۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ لندن میں علاج کے علاوہ کچھ دیگر سرگرمیوں میں بھی مشغول ہیں۔ پھر اخباروں میں آیا کہ برطانیہ سرکار کے اہم لوگوں سے دونوں بھائیوں کی ملاقات ہوئی اور پاکستان سے اہم لوگ بھی ان امور میں شامل تھے۔
اس سال کے شروع میں ہی میری ڈاکٹر بیٹی نے فیصلہ صادر کر دیا تھا کہ عمرہ کرنا ہے اور فروری میں اس کو فراغت ہے، میں زیادہ سنجیدہ نہ تھا میری دوسری بیٹی جو کینیڈا میں رہتی ہے اس نے بھی کچھ ایسی ہی سوچ کا اظہار کیا، پھر فروری کے شروع میں میری بیٹی نے مجھے بتایا کہ ہم فروری کے تیسرے ہفتے عمرہ کیلئے جا رہے ہیں۔ اس دوران چین میں کورونا بہت زیادہ تباہی مچا چکا تھا اور مجھے اسی کی تشویش تھی۔ہماری پرواز لاہور سے مدینہ کیلئے تھی، ہم صبح روانہ ہوئے اور دوپہر مدینہ میں اتر گئے۔ ہوٹل میں سامان رکھا، اسی ہوٹل میں دوسری بیٹی کا قیام تھا۔ پہلے نماز عصر ادا کی اور کچھ آرام کا سوچا۔مدینہ میں بہت رش تھا، حاضری کیلئے جانا تھا، میری بیوی کا اصرار تھا کہ ماسک لگا کر جانا۔ میں پریشان تھا کہ اس کو ماسک کا خیال کیسے آیا اور پھرسوچا اسے تو معلوم ہے کہ ہم ایک چہرے پر کتنے چہرے سجا کر رکھتے ہیں۔ مجھے دربارِ رسالتؐ میں شرمندگی سے بچانے کیلئے ماسک کی ترکیب بتائی ہے۔ خیر میں نے ماسک لگا لیا اور مسجد نبوی کیلئے روانہ ہو گیا۔ اف اتنا رش، خیر کافی کوشش کے بعد روضہ رسولؐ کے نزدیک پہنچ گیا مگر آگے بندش تھی اور راستہ بند تھا۔ روضہ رسولؐ کا گنبد نظروں کے سامنے تھا، نماز ادا کی اور بیٹھ کر گنبد کو تکتا رہا، نہ دعا کر سکا اور نہ ہی واپسی کا سوچا۔ دوگھنٹے کے بعد رش میں کمی ہوئی تو راستہ کھلنے لگا۔ میں شرمندہ شرمندہ صورت سے روانہ ہوا اس کے بعد کا معلوم نہیں کہ کب روضہ رسولؐ کے سامنے سے گزرا۔ جب ہوش آیا میں مسجد نبوی سے باہر کھڑا تھا اور میرا فون بج رہا تھا۔ دوسری طرف میری بیٹی کہہ رہی تھی بابا آپ کہاں ہیں؟ میرا جواب تھا مجھے معلوم نہیں۔ وہ بولی، آپ گیٹ نمبر 15کے سامنے آ جائیں۔مدینہ کی حاضری کے بعد مکہ روانگی تھی، ہمارا ٹیکسی ڈرائیور پاکستانی تھا، اس نے تیز رفتاری کے ساتھ ساڑھے تین گھنٹے میں کلاک ٹاور کے ہوٹل میں اتار دیا۔ سامان کمرہ میں رکھا اور کھڑکی سے باہر دیکھا۔ میرے مولا! یہ کیا، سامنے دور نیچے بیت اللہ نظر آ رہا تھا اور ہم سب کی زبانوں پر جاری تھا لبیک اللھم لبیک۔ عجب نظارہ تھا جس کا بیان مشکل ہے بیت اللہ میں بہت رش تھا، عمرہ رات کو کیا اور دیر تک اللہ کے گھر کو تکتا رہا، دعا کی حاجت ہی نہ ہوئی۔
29فروری کو واپسی تھی، پی آئی اے کی پرواز میں تاخیر تھی اور کورونا وائرس نے تمام دنیا کو پریشان کر رکھا تھا۔ لاہور اترنے کے بعد دوبارہ کورونا چیک ہوا اور اگلے دن خبر آگئی کہ عمرہ پر پابندی لگ گئی ہے۔ پاکستان میں بھی کورونا نازل ہو چکا تھا۔ دنیا بھر میں شور شرابا تھا، پہلے پہل احتیاط کے طور پر دوستوں سے بات کی مگر تشویش سب کو تھی۔ پھر کپتان وزیراعظم نے اعلان کیا کہ لاک ڈائون ہو گا اور ساتھ کرفیو سی کیفیت شروع ہو گئی۔ اب ایک بے بسی اور خوف کا عالم ہے اور نجانے یہ آسیب کب تک ہمارے ساتھ رہے گا۔