پاکستانی سلور اسکرین کو اپنی رنگارنگ کردار نگاری سے جگمگانے والے مایہ ناز فن کار غلام محی الدین کا جنم 2اکتوبر 1950کو حیدرآباد دکن میں ہوا۔ ان کے والد غلام محمد انہیں ’’اظہر‘‘ کہہ کر پکارتے تھے ،جب کہ بیگم منور سلطانہ ’’گل‘‘ کہہ کر بلاتی ہیں۔ بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ غلام محی الدین کو ظفر شباب کی ’’ شکوہ‘‘ میں محمد علی ۔ دیبا اور نشو کے ساتھ مرکزی کردار میں سائین کیا۔ اس فلم میں انہوں نے اداکار محمد علی کے مقابل جس اعتماد سے اداکاری کی۔ اس سے غلام محی الدین کی فنی تربیت اور پختگی کا ناقدین نے اندازہ لگالیا تھا۔ شکوہ باکس آفس پر نہ چل سکی، لیکن ان کی اگلی ریلیز ایس سلیمان کی ’’اناڑی‘‘ جس میں وہ ندیم شبنم اور نجمہ کے مقابل ایک ڈاکٹر بابو کے سپورٹنگ رول میں جلوہ گر تھے، یہ فلم باکس آفس پر سپر ڈوپر ہٹ ہوگئی۔ پھر اناڑی کی ریلیز کے ایک ہفتے بعد ہی شباب صاحب کی شاہکار تخلیق ’’میرا نام ہے محبت‘‘ منظر عام پر آگئی، جس میں غلام محی الدین، بابرہ شریف کے ہیروتھے۔ گو یہ دونوں ہی فن کار اس وقت نوآموز تھے، لیکن اس فلم میں ان دونوں فن کاروں نے عمدہ پرفارمنس پیش کی، اسے ناقدینِ فن نے آئوٹ اسٹینڈنگ کارکردگی سے تعبیر کیا۔ یُوں گولڈن جوبلی فلم ’’میرا نام ہے محبت‘‘ نے نہ صرف بابرہ شریف بلکہ غلام محی الدین کو بھی بہترین اسٹینڈ فراہم کیا۔
اس فلم کے سیکنڈ ہاف میں بابرہ شریف کے ساتھ ساتھ غلام محی الدین کی سنجیدہ اور المیہ کردار نگاری نہایت عمدہ تھی، لیکن ’’میرا نام ہے محبت‘‘ کے بعد غلام محی الدین کی یکے بعد دیگرے جو 6فلمیں سامنے آئیں، ان میں سے کچھ ایوریج تھیں، تو کچھ فلاپ، جن میں شرارت، معصوم،انسان اورفرشتہ، موم کی گڑیا، آگ اور آنسو اور دیوار شامل تھیں۔ ’’ آگ اور آنسو‘‘ میں غلام محی الدین نے اپنی بھرپور فنی کارکردگی پیش کی، کیوں کہ اس فلم میں انہیں محمد علی کا ادا کردہ کردار ملا تھا،جو وہ کنیز میں کرچکے تھے۔ تاہم آگ اور آنسو کے بعد ان کی بلاک بسٹر فلم ’’آج اور کل‘‘ منظر عام پر آگئی۔اس فلم میں ان کا کردار ثانوی ساتھا، لیکن فلم کی ڈائمنڈ جوبلی لینڈ مارک کام یابی نے گلوکی باکس آفس پوزیشن کو سہارادیا ۔ 1976میں ان کی پرفارمنس سے آراستہ مزید جو فلمیں منظر عام پر آئیں۔ 1977میں غلام محی الدین کی پرفارمنس سے آراستہ فلم آمنا سامنا،جاسوس، شمع محبت، عشق عشق،جینے کی راہ، گونج، اپنے ہوئے پرائے اور سلاخیں منظر عام پر آئیں، جن میں سلاخیں اور شمع محبت گولڈن جوبلی ہٹ ثابت ہوئیں۔
1978 کا سال غلام محی الدین کی فنی زندگی کا ایک غیر معمولی سال تھا کہ اس سال سنگیتا کی کلاسیک تخلیق’’ مٹھی بھر چاول‘‘ میں انہوں نےایک سکھ کے کردار کو اپنی چال ڈھال، باڈی لینگویج اور لب و لہجہ سے ناقابل فراموش بنادیا۔ فلم میں اگر ایک جانب سنگیتا کی کردار نگاری ناقابل فراموش تھی۔اسی سال ملٹی کاسٹ فلم ’’آواز‘‘ جو باکس آفس پر پلاٹینیم جوبلی ہٹ ثابت ہوئی۔ اس میں گلو ایک مکمل منفی کردار میں نظر آئے ۔ 1979میں غلام محی الدین نے نقش قدم، ترانہ اور کس نام سے پکاروں میں عمدہ کردار نگاری پیش کی۔ 1980میں ہدایت کار الطاف حسین نے انہیں اپنی پنجابی فلم’’ قاتل تے فرشتہ‘‘میں ممتاز کے مقابل ہیرو کے طور پر پیش کیا۔اسی سال ایس اے حافظ کی ایک اور سپر ایکشن مووی ’’ آتش‘‘ میں غلام محی الدین نہایت پاور فل رول میں ناقابل فراموش پرفارمنس کے ساتھ سامنے آئے۔
اس فلم میں بھی فائیٹ کے مناظر فلم بند کرواتے ہوئے گلو نے ایک بہادر اور نڈر فن کار ہونے کا ثبوت دیا۔ آتش، ڈائریکشن، اسکرپٹ،کردار نگاری اور موسیقی کے اعتبار سے ایک اعلیٰ معیار کی حامل فلم تھی، جس نے 40ہفتوں سے زائدچل کر بہترین بزنس حاصل کیا۔اس کے برعکس جمشید نقوی کی ’’ پیاری‘‘ جس میں غلام محی الدین نے بچوں کے کھلونے بیچنے والے کا رول کیا تھا۔ گو آتش کے مقابلے میں نسبتاً کمزور فلم تھی، مگر شبنم کے کردار کی خواتین میں پذیرائی اور مقبولیت کے سبب ’’ پیاری‘‘ نے تیز رفتار کام یابی حاصل کرکے شان دار گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ 1982کی ریلیز ہدایت کار ایم اے رشید کی پلاٹینیم جوبلی ہٹ میوزیکل ڈراما مووی ’’ نصیب‘‘ میں غلام محی الدین ایک فرض شناس پولیس آفیسر کے روپ میں اسامنے آئے۔
1984میں ہدایت کار محمد جاوید فاضل کی اعلیٰ معیار کی منفرد تخلیق ’’ لازوال‘‘ کی ہائی لائٹس تو بلاشبہ ندیم شبنم اور آغا طالش کی پرفارمنس تھی، لیکن غلام محی الدین نے ندیم کے مقابل اپنے کردار میں دبنگ پرفارمنس پیش کی۔ 1984 ہی کی ریلیز ایس اے حافظ کی ’’آندھی اور طوفان‘‘ جوکہ غلام محی الدین کی ذاتی پروڈکشن تھی۔ عمدہ ڈائریکشن سے سجی مضبوط اسکرپٹ پرمبنی ایک معیاری ایکشن فلم تھی۔1985میں ان کی فنی زندگی کی ایک غیر معمولی پنجابی فلم ہدایت کار دائودبٹ کی ’’وڈیرا‘‘ منظر عام پر آئی، جس میں انہوں نے پنجابی سینما کو ہیرو شپ میں اداکاری کے جداگانہ رنگوں سے سجایا۔ 1991میں محمد جاوید فاضل کی ’’ ضد‘‘ منظر عام پر آئی، تو ایک بار پھر کراچی سے خیبر تک غلام محی الدین کی فنی عظمت کا ڈنکا بج گیا۔
جاوید فاضل نے غلام محی الدین کو عالم کے سفاک رول میں پیش کرتے ہوئے ان کے گیٹ اپ پرخصوصی محنت کی ۔ آنکھوں میں کتھئی لینز، بالوں میں جیل، انگلیوں میں دبا ہوا قیمتی سگار اور چہرے پر بے پناہ رعونت ان چیزوں کے ساتھ گلو نے اس کردار کی ادائیگی میں اپنی تمام تر صلاحیتوں اظہار کیا اور اس کردار کوامر کردیا۔ فلم ’’ضد‘‘ میں غلام محی الدین کے علاوہ بابرہ شریف کی پرفارمنس بھی نہایتا آئوٹ اسٹینڈنگ تھی، مگر افسوس کہ یہ شان دار معیار کی حامل فلم باکس آفس پر بہت نرم گئی اور محض سلور جوبلی مناسکی۔ ہدایت کار سعید رضوی کی فکشن ہارر تخلیق ’’سرکٹا انسان‘‘ میں گلو کو ایک تجرباتی نوعیت کے کردار میں پیش کیا گیا۔ ایک ایسا انسان جو اپنا کٹا ہوا سر ہتھیلی پر رکھ کر راتوں میں شہر میں نکلتا ہے۔ اس تجرباتی کردار کی ادائیگی بھی گلو نے بہ خوبی کی۔
2013میں ریوائیول آف سینما کے تسلسل میں بننے والی ہدایت کار اسماعیل جیلانی کی نہایت معیاری اور بامقصد فلم ’’ چنبیلی‘‘ میں غلام محی الدین ایک سنجیدہ، دیانت دار اور پروقار سیاست داں کے متاثر کن کردار میں سامنے آئے اور بہت اعلیٰ پرفارمنس دیں۔ ایک ایسا سیاست داں جوعوام کی فلاح اور بہتری چاہتا ہے، لیکن ایک کرپٹ سیاست داں ’’سلمان پیرذادہ‘‘ انہیں اپنی کریشن کی راہ کا کانٹا سمجھتے ہوئے قتل کروادیتا ہے، چنبیلی کو جیو فلمز نے ریلیز کیا تھا۔ 2014کی ریلیز ہدایت کار شہزاد غفور کی فلم ’’ دی سسٹم‘‘ میں وہ ایک پولیس آفیسر کے گیٹ رول میں نظر آئے۔ ہدایت کار جمشید جان محمد کی ’’سوال سات سوکروڑ ڈالر کا‘‘ میں وہ اپنے بیٹے علی محی الدین کے شانہ بشانہ پرفارم کرتے دکھائی دیے۔ جب کہ 2018میں ہدایت کار عزیز چندانی کی عالمی معیار کی حامل شاہ کار اینیمیٹڈ فلم ’’ڈونکی کنگ‘‘ میں غلام محی الدین نے ’’شیر‘‘ کے کردار کے لیے اپنی آواز ڈب کروائی۔
یُوں انہوں نے اپنے کیریئر کی اب تک کی آخری فلم میں بہ طور اداکار نہیں بلکہ بہ طورصداکار حصہ لیا ۔ اس شاہ کار فلم کو بھی جیو فلمز نے ریلیز کیا تھا اور اس فلم کی مثالی تشہیر کی تھی،جس کی وجہ سےفلم نے ریکارڈ بزنس کیا۔ غلام محی الدین نے 7نگارایوارڈ حاصل کیے۔ ان کی ایوارڈز یافتہ فلموں میں، میرا نام ہے محبت، مٹھی بھرچاول،لازوال،وڈیرا،ضد،سرکٹا انسان اورقرض شامل ہیں، جب کہ حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں 2011میں تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔