سندھ میں قبائلی تنازعات کی تاریخ خاصی قدیم ہے ۔ان کے خاتمے کے لیے کسی بھی دور حکومت میں دوررس اقدامات نہیں کیے گئے ۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ سندھ میں سرداری نظا م قائم ہے اوراسے مستحکم بنانے کے لیے قبائلی تنازعات بہت ضروری ہیںیہی وجہ ہے کہ مختلف قبائل سے تعلق رکھنے والے 12،13 سال کےنو عمر بچے بھی کلاشنکوف سمیت دیگر مہلک ہتھیار اٹھائے پھرتے ہیں اور ذرا سی بات پر مرنے مارنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔شکار پورسندھ کا حساس ضلع ہے جہاں اکثر و بیشتر قبائلی تنازعات کا سامنا رہتا ہے ۔
مختلف قبائل کے درمیان معمولی چپقلش سے شروع ہونے والے تنازعےمیں اب تک ہونے والے درجنوں مسلح تصادم میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ سندھ کی تاریخ کا ایک ہولناک قبائلی تنازع جتوئی اور مہر قبائل کے درمیان کچے کی صرف ایک ایکڑ زمین پر شروع ہوا تھا جس میں 300 سے زائد افراد مارے گئے۔ 15 سال تک چلنے والا تنازع 2007ء میں ڈاکٹر ابراھیم جتوئی اور غوث بخش مہر میں صلح کے نتیجے میں ختم ہوا۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ شکارپور میں جرائم پیشہ افراد کا حوصلہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے پولیس کو دھمکی آمیز پیغامات بھیجتے ہیں ۔
جیسا کہ ہم نے مندرجہ بالا سطور میں ذکر کیا ہے کہ بعض اوقات معمولی نوعیت کا واقعہ بھی خون ریزتصادم میں بدل جاتا ہے، اور اس جنگ و جدل کے دوران ان گنت زندگیاں موت کے گھاٹ اتر جاتی ہیں۔ ایسا ہی ایک خوں ریز واقعہ شکارپورکی تحصیل خانپور کے قریب پیش آیا جہاں معمولی سی بات پر شروع ہونے والے جھگڑے نے خاتون سمیت تین افراد کی زندگیاں نگل لیں۔نمائندہ جنگ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق تھانہ خانپور کی حدود گاؤں غلام محمد بروہی میں بروہی برادری کے دوگروپوں کے درمیان تیز آواز میں گانا بجانے پرجھگڑا شروع ہوا جو بعد میں مسلح تصادم میں تبدیل ہوگیا۔ تصادم کے دوران دونوں فریقین نےآتشیں ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال کیا۔
گولیاں لگنےسے محمد حیات بروہی گروہ کی ایک خاتون 45سالہ بخت بی بی زوجہ جان محمد بروہی، دوسرے گروہ راوت بروہی کے دو سگے بھائی 55سالہ قطب الدین اور 50سالہ راوت عرف ڈاڈو ولدشیر خان بروہی موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ فائرنگ کے تبادلے میں مقتولہ خاتون کے سُسر محمد حیات بروہی اور دیور دودا خان بروہی شدید زخمی ہوگئے۔ دو طرفہ فائرنگ کے باعث پورا علاقہ میدان جنگ کا منظر پیش کررہا تھا اس دوران پورے علاقے میں خوف وہراس پھیل گیا۔واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر صورت حال پر قابو پایا اور لاشوں اور زخمیوں کو اپنی تحویل میں لے کر خانپور اسپتال پہنچایا گیا۔ لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرانے کے بعد انہیں ورثاء کے حوالے کردیا گیا جبکہ زخمیو ں کی حالت تشویش ناک ہونے کے باعث انہیں سول اسپتال شکارپور منتقل کردیا گیا۔مقتولین کی لاشیں گھروں پر پہنچنے کے بعد علاقے میں کہرام برپا ہوگیا۔ ایس ایچ او تھانہ خانپور سید شاہ جہاں شاہ کی قیادت میں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے دونوں متحارب گروپوں کے افراد کو گرفتار کرکے نامعلوم جگہ منتقل کردیا جہاں ان سے تفتیش کی جارہی ہے۔
واقعے کےسلسلے میں ایس ایچ او خانپور نے نمائندہ جنگ کو بتایا کہ ایک ہی برادری کے دو گروپوں میں معمولی بات پر تکرار بڑھ کر جنگ و جدل میں بدل گئی۔ بروہی برادری کے دو گروہوں کے درمیان تصادم کے دوران خاتون سمیت تین افراد جاں بحق جبکہ دو شدید زخمی ہوگئے ۔ پولیس نے بروقت کارروائی کرکے صورت حال پرقابو پایاورنہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات علاقے میں خوف وہراس کا سبب بن رہے ہیں، اس لئے واقعے میں ملوث افراد کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔گروہی تصادم کےواقعےکی میڈیا میں خبریں آنے کے بعد آئی جی سندھ مشتاق احمدمہر نے سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ایس ایس پی شکارپور کامران نواز سے واقعے کی مکمل تفصیلات طلب کرنے کے بعد ملوث افراد کو گرفتار کرکے علاقے میں امن وامان کی صورتحال بحال کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔اس سلسلے میں ایس ایس پی شکارپور کامران نواز کا کہنا تھا کہ معمولی بات پر تین انسانی جانوں کے ضائع ہونے پر افسوس ہے۔
دونوں گروہوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کو مدِنظر رکھتے ہوئے وہاں پولیس پکٹ قائم کردی گئی ہےجس کے بعد حالات مکمل طور سے کنٹرول میں ہیں۔کسی کو بھی قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی اجازت نہیں دی جائےگی۔ انہوں نے کہا کہ واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کرنے کے احکامات جاری کردیئے ہیں۔دونوں گروہوں کے کچھ افراد کو گرفتار کیاگیا ہے جبکہ واقعے میں ملوث دیگر ملزمان بھی جلد ہی قانون کی گرفت میں ہوں گے۔
دوسری جانب اعلیٰ حکام نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے غفلت برتنے پرڈی ایس پی خانپور ممتاز علی کھوڑو کا خانپور سے تبادلہ کرکےسلطان کوٹ میں تعینات کردیا ہے جب کہ ان کی جگہ غلام رسول پنہور کو ڈی ایس پی خانپور مقرر کیا گیا ہے۔واقعے کی تحقیقات کے لیے مقتول بھائیوں کے بھتیجے عنایت حسین بروہی کی مدعیت میں مقدمہ نمبر 35/2020 کے تحت عنایت اللہ بروہی،غلام سرور بروہی،ظفراللہ بروہی،غلام محمدبروہی،امان اللہ،دودو بروہی اور علی اکبر بروہی سمیت تیرہ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ جبکہ مقتولہ خاتون کے دیور امان اللہ بروہی کی مدعیت میں گناہ نمبر 36/2020 کے تحت الہیار بروہی،راشد علی،لونگ خان اورعنایت حسین بروہی سمیت آٹھ افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ دو الگ الگ مقدمات کے درج ہونے کے بعدپولیس نے کارروائی کرتے ہوئےامان اللہ،علی گل،علی احمد،محمد حیات،دودو بروہی،راشد علی اور عنایت حسین بروہی کو گرفتار کرلیا اور واقعے کے دوسرے روز گرفتار ملزمان کوسول جج خانپور سعید احمد شیخ کی عدالت میں پیش کیا۔عدالت نے انہیں تین روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ۔
ہمارے معاشرے میں آج کل عدم برداشت کے باعث معمولی باتوں پرشروع ہونے والے اس طرح کے واقعات رونما ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔لیکن ایسے واقعات میں انسانی زندگیاں ضائع ہونے کی اصل وجہ پابندی کے باوجود اسلحے کی کھلی چھوٹ ہے۔پولیس حکام سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہئے کہ اس طرح کے قبائلی جھگڑوں میں استعمال ہونے والے جدید اسلحے کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات کرکے مزید زندگیاں ضائع ہونے سے بچائی جائیں۔