• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا کا حملہ اچانک نہیں تھا۔ جانوروں سے انسانوں کو لگنے والی بیماریوں پر تحقیق کرنے والے سائنسدان کئی سال سے خبردار کررہے تھے۔ دنیا بھر کے سائنسدان، محقق، 60بین الاقوامی تجربہ گاہیں جانوروں سے انسانوں کو براہِ راست منتقل ہونیوالے وائرس پر دس سال سے تحقیق کرتے کرتے ایک خطرناک وائرس کا سراغ لگانے والے تھے۔ کورونا وائرس 2009میں قائم ہونے والے تحقیقی ادارے Predictکی کامیابیوں سے خوف زدہ ہوکر چمگادڑوں کی گود میں چھپ کر بیٹھ گیا تھا۔ ستمبر 2019میں جونہی Predict کو رقوم کی فراہمی بند کی گئی، سائنسدانوں اور محققوں کو فارغ کردیا گیا تو وائرس شیر ہوگیا اور وہ دسمبر 2019 میں بنی نوع انسان پر پوری قوت سے حملہ آور ہو گیا۔ سپرطاقت امریکہ سمیت سارے ترقی یافتہ ملکوں کے صحت کے نظام دم توڑ چکے ہیں۔

میں بھی اسی تصور میں تھا۔ آپ بھی یقیناً یہی سوچ رہے تھے کہ یہ حملہ اچانک ہوا ہے۔ دنیا کو اس کیلئے تیار نہیں کیا گیا تھا لیکن اب جب میں نے ایک خبر میں یہ دیکھا کہ اس وبا کے حملے سے صرف 3ماہ پہلے ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے وائرسوں کی تلاش اور پہلے سے خبردار کرنے پر دس سال سے مامور پریڈکٹ پروگرام بند کردیا تھا پھر میں نے تحقیق کی تو یہ پتا چلا کہ سائنسدان، معالجین اور صحت عامہ سے متعلق ماہرین تو ایسے کسی خوفناک وائرس کے لیے برسوں سے حکمرانوں کو خبردار کررہے تھے لیکن عالمی سیاستدانوں کے نزدیک صحت اولین ترجیحات میں نہیں ہے۔ پریڈکٹ نے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نمونے جمع کر لیے تھے۔ افریقی اور ایشیائی ملکوں میں پانچ ہزار سے زیادہ ہیلتھ ورکرز کو وائرسوں سے نبرد آزمائی کی تربیت بھی دی۔ 25اکتوبر 2019کو نیویارک ٹائمز میں ڈونالڈ جی میکنیل نے ان حقائق کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سائنسدان اگلے ’ایبولا‘ کا سراغ لگانے والے تھے۔ وارننگ دی گئی کہ دنیا میں ایبولا اور (Middle East Respiratery Syndrome) MERS جیسی مہلک بیماری بالکل ہی غیرمتوقع طور پر کسی بھی مقام سے پیدا ہو سکتی ہے۔ سائنسدانوں کا زور اس نکتے پر تھا کہ اب جرثومے مختلف جانوروں میں چھپے ہوئے ہیں اور وہ براہِ راست انسانوں کو منتقل ہو سکتے ہیں۔

30اکتوبر 2013کو یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے تحقیقی جرنل ’نیچر‘ میں اس تجزیے کا حوالہ دیا گیا جو چمگادڑوں پر کیا گیا۔ اس دریافت کے بعد وبائوں پر قابو پانے اور اس کی ویکسین تیار کرنے کی امید تھی۔ اس تحقیق میں ووہان انسٹیٹیوٹ آف وائرولوجی کے زینگلی شی بھی شامل تھے۔ انہوں نے بڑی خوشی سے اعلان کیا تھا کہ ’’ہم اس گم شدہ کڑی پر دس سال سے کام کررہے تھے۔ بالآخر ہم نے اسے پا لیا‘‘۔ خیال رہے کہ یہ وبا ووہان سے ہی شروع ہوئی۔

26فروری 2018کو امریکہ کے ایک معتبر جریدے نے ’ٹرمپ بمقابلہ ایکس بیماری‘ کے زیر عنوان خبردار کیا کہ عالمی ادارۂ صحت نے آٹھ خوفناک بیماریوں کی فہرست جاری کی ہے۔ امریکہ نے پہلے عالمی سطح پر وبائیں روکنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے لیکن اب امریکہ پیچھے رہتا جارہا ہے۔ ستمبر 2019میں پریڈکٹ کی فنڈنگ روکنے کے اقدام سے امریکہ 2003میں واپس چلا جائیگا۔ اس سے بھی بہت پہلے گزشتہ صدی میں مئی 1989میں نوبیل انعام یافتہ جوشوا لیڈر برگ نے دوسرے نوبل انعام یافتگان کو واشنگٹن میں جمع کیا۔ امریکی انتظامیہ اور عالمی حکمرانوں کو خبردار کیا کہ جدید ادویات اور صحت کے بہترین نظاموں کی وجہ سے یہ غلط فہمی عام ہو گئی ہے کہ اب وائرس ختم ہو گئے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ عالمگیر سطح پر حیوانات اور انسانوں میں جگہ بنارہے ہیں۔ اب چونکہ فضائی سفر بڑھ رہا ہے۔ اس لئے خطرہ ہے کہ کسی بھی دور افتادہ مقام پر پھوٹنے والی وبا بہت جلد دنیا کے بڑے شہروں کو لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ ہوا بھی یہی۔

ستمبر 2019میںGlobal Preparedness Monitoring Board نے 48صفحات پر مشتمل اپنی سالانہ رپورٹ کا عنوان ہی یہ رکھا A World at Risk۔ اس تفصیلی رپورٹ میں ان خطرات سے آگاہ کیا گیا تھا جن کا سامنا اب دنیا کررہی ہے۔ واضح طور پر کہا گیا کہ دنیا جانتی ہے کہ ایک تباہ کن وبا آرہی ہے لیکن کسی کو بھی اس سلسلے میں کچھ کرنے میں دلچسپی نہیں ہے۔ لاکھوں ہلاکتوں کا امکان بتایا گیا اور یہ بھی کہ عالمی معیشت کا 5فیصد مکمل صفایا ہو جائے گا۔ عالمی قیادتیں اس تفصیلی رپورٹ پر بھی حرکت میں نہیں آئیں۔ اب اپنی لاپروائی کا خمیازہ بھگتا جارہا ہے۔

ستمبر 2019میں پریڈکٹ پروگرام بند کرنے پر امریکی موقف بالکل ہی رسمی تھا۔ جس میں ان سنگین خطرات کا کوئی ادراک نہیں ملتا۔ یو ایس ایڈ کی ایک ترجمان نے کہا کہ یہ پروگرام امریکہ کی صحت سلامتی کے اقدامات کا صرف 20فیصد تھا۔ وبائیں پھیلانے کی روک تھام کیلئے ایک نیا پروگرام اس سال کے آخر میں جاری کیا جائیگا، اسکی نوبت ہی نہیں آئی۔ اس سے پہلے ہی یہ وبا 82ہزار انسانوں کو کھا گئی اور کئی لاکھ اس میں مبتلا ہو گئے۔ 2ملین ڈالر بچاکر اربوں ڈالر خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔

اس پروگرام کی بندش پر صحتِ عامہ کے ماہرین نے سخت تنقید کی اور کہا کہ اب جب یہ کام دوبارہ شروع ہوگا تو اس میں تحقیق کا معیار وہ نہیں رہےگا اور بہت دیر ہو چکی ہوگی۔ جنگلی حیات سے پیدا ہونیوالی بیماریوں پر کام کرنیوالی این جی او Eco Health Alliance کے صدر پیٹر ڈیس زک زیادہ کھل کر بولتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کووڈ 19ووہان کی جانور مارکیٹ میں برائے فروخت چمگادڑ سے شروع ہوئی۔ جنگلی حیات میں 17لاکھ پُر اسرار کورونا وائرس موجود ہیں۔ جو جانوروں سے انسانوں کو براہِ راست منتقل ہو کر نئی وبائیں شروع کررہے ہیں۔ انکی جلد تشخیص دنیا کو ہلاکتوں اور معیشت کو تباہی سے بچا سکتی ہے۔ یہ پروگرام بند کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔

پریڈکٹ 2009ءمیں متعدی وبائوں کے لیے پہلے سے تیاری کرنے اور خبردار کرنے کا پروگرام تھا۔ جارج بش اور اوباما نے اس کی سرپرستی کی مگر ٹرمپ نے اسے ختم کردیا۔ پھر ٹرمپ کے دَور میں ہی امریکہ اس کی لپیٹ میں آگیا۔ یہ پروگرام اگر جاری رہتا تو دنیا بھی اس سے محفوظ رہتی اور امریکہ بھی۔ ایک ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ اس پروگرام کے آغاز کے وقت یہ سوچا گیا تھا کہ ایسی کسی وبا کی صورت میں افریقہ، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں کو زیادہ خطرہ ہے مگر اسکے برعکس ہوا۔ یورپ امریکہ اس سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اموات کی تعداد سن کر کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔ یہ تو تحقیق سے علم ہوگا کہ ان ملکوں میں خود اعتمادی حد سے زیادہ تھی یا ان کے صحت کے نظام ناقص تھے۔ ماہرین کا اصرار تھا کہ اس پروگرام کو مزید 20سال جاری رہنا چاہئے تھا۔

اس تحقیق پر بڑے فخر سے کہا گیا تھا کہ یہ وبائوں کے دَور کے خاتمے کا آغاز ہے۔ کورونا نے کتنی فلک بوس قیادتوں کو زمیں بوس کردیا ہے۔ اب سب سے زیادہ ترجیح دنیا صحت عامہ کو دے گی۔ پاکستان میں بھی ہمیں ’ایک صحت‘ کے فلسفے کی آگاہی پیدا کرنا ہوگی کہ صرف انسان کی صحت کا خیال ہی نہ رکھا جائے بلکہ وہ جس ماحول میں رہتا ہے اسکا علاج بھی کیا جائے۔ اور جن چوپایوں، مال مویشی اور پرندوں سے انسان قریب رہتا ہے انکی صحت پر بھی نظر رکھی جائے۔

تازہ ترین