• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تین ماہ بیت چلے ہیں، کورونا وائرس کی یلغار تھمنے کو نہیں اور جنتا کو محض قیاس آرائیوں کی طفل تسلیاں۔ کوئی علاج ہے نہ بچ رہنے کا کوئی نسخہ، دُعائیں کام آ رہی ہیں نہ طبی ٹوٹکے۔ بس قدرت کے نسخہ انتخاب کی عمل داری ہے اور ماہرین بے بسی میں جزا و سزا کے غیریقینی حساب کےمعمے کا شکار۔ غریب کی مزدوری گئی تو قوت محنت کی عدم دستیابی پہ سرمائے کی زائد قدر بند ہونے پہ کارخانے چلیں بھی تو کس کے دم پہ۔ ایچ آئی وی، ہسپانوی فلو، ایبولا اور سارس آئے، لاکھوں جانوں کا نذرانہ لے، انسانی قوتِ مدافعت یا قدرت کے انتخاب کے ہاتھوں کہیں دب کے بیٹھ رہے یا ناپید۔ سائنس و تحقیق جو اُجرتی غلامی کی طرح منافع خوروں کی باندی بنی رہی ان وبائی امراض کا علاج پا نہ سکی۔ اب کوروناوائرس ہے اور منافع بخش فارماسوٹیکل کارپوریشنوں کی دائمی خودغرضی کی لاچاری! بڑے سے بڑا طُرم خان ہاتھ جوڑے کھڑا ہے اور صدر ٹرمپ سے لے کر وزیراعظم بورس جانسن تک سبھی عوامی تمسخر کے نشانے پہ۔ لاک ڈائون سے ہچکچاہٹ ایسی گلے پڑی ہے کہ فلپائن کے خونی صدر روڈریگو نے گھر سے باہر نکلنے والوں کے لیے گولی کا حکم دے دیا ہے۔ اور ہمارے کپتان ہیں کہ ابھی بھی لاک ڈائون پہ راضی نہیں۔ اب تک جو تجربات سامنے آئے ہیں اُن کے مطابق جن ملکوں نے گھربندی اور خلوت سے اجتناب کیا وہ ترقی یافتہ ترین ہو کر بھی آفت زدہ ہو گئے اور جن ملکوں نے آبادیوں کو مقید کر دیا اور ساتھ ہی طبی حفاظتی انتظامات (ٹیسٹنگ، قرنطینہ اور طبی امداد) کر لیے جیسے چین اور جنوبی کوریا، وہ پہلے رائونڈ میں سرخرو ہوئے۔ چین کے صوبہ ووہان میں لاک ڈائون ختم کر دیا گیا ہے اور زندگی کی گہماگہمی پلٹ آئی ہے لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ اس کی دوسری لہر آ سکتی ہے اور یہ شاید عام وبا تنفسی مرض کے طور پر آتی رہے گی۔

اس نظامِ تنفس کو جام کر دینے والی وبا کے بارے میں گزشتہ دہائی سے عالمی صحت کے ادارے دُہائیاں دیتے رہے، لیکن منڈی کے دھرم کے کان پہ جوں تک نہ رینگی۔ طبی تحقیق کے ادارے سرمایہ دار دُنیا میں طبی کاروبار کے فروغ میں مصروف رہے اور موذی بیماریوں کے علاج کے بجائے، اُن کے انتظام کے بندوبست میں ایک دوسرے پہ سبقت حاصل کرنے میں مگن۔ اب فقط انسانی سلامتی ہی نہیں، پرانا سرمایہ دارانہ نظامِ پیداوار بھی دائو پر ہے۔ جو ریاستیں منڈی کے دین پہ قائم ہوئیں، وہ آج جاں گسل حالت سے دوچار۔ سرمایہ دارانہ کاروبار، محنت کی عدم دستیابی کے ہاتھوں منجمد ہو کر رہ گئے تو پھر یہ ریاست ہی تھی جس نے آزاد منڈی کے چلن کو طاق میں رکھتے ہوئے ریاستی مدافعت کا گناہ کیا اور اس اُمید پہ کہ ریاستی امداد کے ٹیکے سے سرمایہ داری کے مرض کو افاقہ ہو جائے۔ لیکن اگر یہ موذی کورونا باز نہ آیا اور پلٹ پلٹ کر جھپٹتا رہا تو کیا ہوگا۔ بے دل اور انسان کُش ماہرین اگر رجوع کر بھی رہے ہیں تو اس امکان پہ کہ اگر کروڑوں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے بھی تو اربوں انسان پھر بھی قوتِ محنت سے سرمایہ دارانہ نظامِ پیداوار کی چکی میں سے وافر زائد قدر (جسے منافع کہا جاتا ہے) سے مفت خوروں کے مال و اسباب میں اضافہ کرتے رہیں گے۔ سرمایہ دارانہ دُنیا کے رہنمائوں کو اگر فکر ہے تو بس اتنی کہ اُن کا کاروبار چلتا رہے اور منڈیوں کی منافع خوری کے ذریعے وہ محنت کشوں کا خون چوستے رہیں۔ بہ امرِ مجبوری اس اعتراف کے باوجود کہ اب قبل از کورونا دُنیا نہیں رہے گی، اُن کے عالموں کا اصرار ہے کہ پرانا کرم خوردہ ورلڈ آرڈر معمولی تبدیلیوں کے ساتھ جاری رہے گا۔ اُن کے تئیں بیس تیس کروڑ لوگ اگر کرونا کا لقمہ اجل بن بھی گئے تو کیا؟ تو کیوں نہ گروہی قوتِ مدافعت کا سہارا لیا جائے۔ جو مرتا ہے مر جائے، جو بچ رہیں گے وہ چوتھی پیڑھی کے خودکار صنعتی نظام، انٹرنیٹ، روبوٹس اور مصنوعی ذہانت کے پھیلتے سلسلوں کے باعث پھر بھی کافی زیادہ ہوں گے۔ گویا انسانی نسل کشی سے آبادی میں کمی کی ضرورت پوری ہو سکے۔ کاسٹ، بینیفٹ تجزیہ بھی تو اسی انسان کشی کا زائچہ پیش کرتا ہے۔ہمارے خاندانی بزرگ غلام بھیک نیرنگ نے بھی کیا خوب لکھا تھا:

جائے ماندن ہمیں حاصل ہے نہ پائے رفتن

کچھ مصیبت سی مصیبت ہے خدا خیر کرے

رہنماؤں کو نہیں خود بھی پتا رستے کا

راہ رو پیکر ِحیرت ہے خدا خیر کرے

عالمی سامراج اور ملٹی نیشنل کارپوریشنز جو بھی چاہیں، پرانا امپیریل یک قطبی نظام چلنے سے رہا۔ ریاست کی منڈی کے چلن میں مداخلت سے ہی وقت افاقہ مل رہا ہے۔ اب کم از کم سماجی شعبوں، عوامی صحت و تعلیم، انسانی سلامتی کو نجی کاروباروں کے رحم و کرم پہ نہیں چھوڑا جا سکے گا۔ نہ ہی سرمایہ داری کا بے لگام دھندہ چل سکے گا۔ بنیادی انسانی حقوق کے دائرہ کو سماجی، معاشی، طبی، درس، پُرلطف ماحول اور انسانی بقا اور ترقی کے وسیع دائروں تک پھیلائے بنا چارہ نہیں۔ لیکن سرمایہ دار طبقے اور سرمایہ دارانہ نظامِ پیداوار کو باہمی جمہوری شراکتی نظام سے بدلے بنا اور ریاستوں کے طاغوتی اور استحصالی نظام کی طبقاتی کایا پلٹ اور باہمی جمہوری شراکت بِنا انسانیت کی بقا ممکن نہیں۔ ترقی پذیر ملکوں میں تو یہ اور بھی آسان ہوگا۔ بیرونی قرض سے خلاصی حاصل کی جائے گی۔ کمیاب ذرائع کو ترقی دینے پہ زور کے ساتھ ساتھ مفلوک الحال لوگوں کی زندگیوں میں بنیادی تبدیلیوں کے لیے فاقہ کش باہر نکلیں گے۔ ہمارے وزیراعظم بھی آج کل دہاڑی دار مزدوروں اور غریبوں کے غم میں اتنے نڈھال ہیں کہ اُن کو فکر پڑی بھی ہے تو سرمایہ کی معیشت کا پہیہ چالو کرنے کی۔ کچھ غریبوں کو اگر ملنا بھی ہے تو چار ماہ کیلئے تین ہزار روپے ماہوار۔ کوئی ہے اُن کا معاشی ماہر یا ترجمان جو ہمیں بتلائے کہ ایک خاندان کا ایک ماہ کا راشن کس دُکان سے تین ہزار روپے میں ملتا ہے۔ عمران خان آئی ایم ایف کے پروگرام کو بھول جائیں، اسے کورونا کھا گیا۔ اب وہ مالی خسارے کو بھی بھول جائیں۔ طلب میں کمی مہنگائی میں کمی کا باعث ہوگی۔ درآمدات کم یا بند ہو گئی ہیں تو چالو کھاتے کا خسارہ بھی خود سے کم ہو جائے گا۔ رہا قرضوں کی اقساط تو اُن سے لمبی چھوٹ مل سکتی ہے۔اگر انسانیت ہے تو ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو کم از کم 17ہزار روپے ماہوار وظیفے کا بندوبست کرنا چاہیے: ایک ماہ میں 255ارب روپے اور چار ماہ میں 1020 ارب روپے، جو وزیراعظم کے کل پیکیج سے کم ہے۔ پھر آپ کو لاک ڈائون کے دوران فاقہ کشوں کے ممکنہ بلووں کی فکر نہیں رہے گی۔ رہا صحتِ عام اور تعلیم کا نظام تو اسے منافع خوروں کے حوالے کرنے کی بجائے شوکت خانم اسپتال کی طرز پہ عوامی کنٹرول میں چلائیں۔ لیکن اُن مافیائوں کا کیا کریں جو آپ کو گھیرے ہوئے ہیں اور وہ اشرافیہ کی تمام جماعتوں پہ قابض ہیں۔ کب تک رہ دکھلائو گے؟

تازہ ترین