• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب کوئی عظیم الجثہ ستارہ دھماکہ سے مرنے کے بعد سپرنووا میں تبدیل ہوتا ہے تو اس کا آخر ایک نئی ابتدا کا باعث ہوتا ہے۔ اس وقت ستارے کا ملبہ دور دراز افلاک میں بکھر جاتا ہے لیکن اس کا سلوہے سے بناہوا قلب باقی رہ جاتا ہے۔ اس قلب میں دو سورج کی مقدار( mass )ٹھونسی ہوئی ہوتی ہے۔جو اپنے اندرونی دبائو سے سکڑ کر ایک گولہ بن جاتا ہے، جس کا قطر قریباً نیویارک کے مین ہٹن جزیرہ کی لمبائی کے برابرہوتا ہے۔یہ اندرونی دبائو اتنا شدیدہوتا ہے کہ مائونٹ ایوریسٹ سکڑ کر شکر کا ایک کیوب بن جائے گا۔ جوایٹم کے الیکٹرون اور پروٹون کو نیوٹرون میں بدل دیتا ہے۔ 

ماہرین فلکیات نیوٹرون ستارہ کی پیدائش کے اس پہلے لمحہ کی بابت تک ہی جانتے ہیں۔حقیقتاًان انتہائی ٹھوس قلبوںمیں بعد میں کیا ہوتا ہے وہ ابھی تک ایک سر بستہ راز ہی ہے۔کچھ تحقیق کرنے والوں کا خیال ہے کہ اس کے مرکز تک نیوٹرون ہی ہوتے ہوں گے۔ جب کہ کچھ دوسرے تحقیق کرنے والوں کے اندازہ کے مطابق اتنا شدید دبائو مادّے کو یا توغیر معلوم ذرات یا اس کوکچل کرکسی غیرمعلوم حالت میں تبدیل کرسکتا ہے۔کئی عشروں کے ان اندازوں کے بعد اب تحقیق کرنے والے اس خفیہ راز کومعلوم کرنے کےقریب ہیں ،جس کے لئے انٹر نیشنل اسپیس اسٹیشن میں ایک آلہ لگایا گیا ہے۔جس کو نیوٹرون اسٹار انٹیرئیر کمپوزیشن ایکسپلورر (NICER) کا نام د یا گیا ہے۔

2019دسمبر میں ناسا کی اسپیس آبزرویٹری نے ماہرین فلکیات کو نیوٹرون ستارہ کی مقدار کانصف قطر اور انتہائی درست پیمائش کے ساتھ اس کے مقناطیسی میدان کی بابت غیر معمولی دریافت کا موقع فراہم کیا تھا۔ چند ماہ بعد NICER کی ٹیم کچھ دوسرے ستاروں کی بابت نئی معلومات فراہم کرے گی۔ دوسراڈیٹا گریوی ٹیشنل آبزرویٹریز فراہم کریںگی جو نیوٹرون ستاروں کے پیچیدہ کچلنے کامشاہدہ کرسکتی ہیں ان تمام آبزرویٹریز کے اجتماعی مشاہدوں سے تحقیق کارنیوٹرون اسٹار کے اندرون سے یقینی واقفیت حاصل کرلیں گے۔اس شعبہ سے متعلق تحقیق کاروں کے خیال میں یہ نتائج کائنات کی حیران کردہ اشیاء کی بابت اہم موڑ ثابت ہوگا۔ یہ نیوٹرون ستارہ کی طبیعیات کے سنہری دور کا آغاز ہوگا۔ یہ بات جرمنی میں فرینکفرٹ کی گوئٹے یونیورسٹی کے نظریاتی طبیعیات کے ماہر جیورگن شیفنر بائیلش نے کہی تھی۔

اسپیس ایکس نو فالکن راکٹ سے 2017ءمیں لانچ کردہ 62ملین ڈالر کی نائیسر ( NICER )ٹیلی اسکوپ اسپیس اسٹیشن کے باہر لگی ہوئی ہے جو پلسرpulsar سے آنے والی ایکسریز کو جمع کرکے چکرکھاتے ہوئے نیوٹرون ستارہ چارج ذرات اور انتہائی توانائی کے کالم کا ایسے اخراج کرتے ہیں جیسے کسی لائٹ ہائوس سے روشنی کی شعاعوں کی بوچھار نکلتی ہے۔ یہ ایکسریز پلسر کی سطح کے ہاٹ اسپاٹ سے نکلتی ہیںجہاں ایک انتہائی طاقتور مقناطیسی میدان بیرونی چارجڈ ذرات کو پھاڑ کر مخالف مقناطیسی قطب کی طرف پھینکتا ہے۔

نائیسر کے56 سونے کے ملمع شدہ ٹیلی اسکوپ ایکسریز کوجمع کرکے 100نینو سیکنڈ کے فرق سے اوقات کوریکارڈ کرتے ہیں۔ اتنی درستی سے اوقات رجسٹر کرنے کے سبب ریسرچ کرنے والے نیوٹر و ن ستارہ کی سطح کے ہا ٹ اسپاٹ کو نہایت درستی سے معلوم کرسکتے ہیں، کیوں کہ نیوٹرون ستارہ ایک سیکنڈ میں1000مرتبہ کوڑے کھاتا نظرآتاہے۔ ہاٹ اسپاٹ سطح پر ناچنے کے سبب واضح ہوجاتے ہیں۔لیکن نیوٹرون ستارہ اپنے مکان وزمان (space and time) کو اس قدر قوت سے مروڑتا ہے کہ نائیسران ہاٹ اسپاٹ کی روشنی کو بھی مارک کرلیتا ہے جو زمین کے سامنے کی طرف نہیں ہوتے۔آئین اسٹائن کی جرنل تھیوری آف ریلیٹیویٹی سے ستارہ کی مقدار اور نصف قطر کے تناسب کو روشنی کے مڑنے سے کیلکولیٹ کرسکتے ہیں۔ یہ اور اسی طرح کی دوسری آبزرویشنز کے وسائل سے ماہرین فلکیات درستی سے متوفی ستاروں کی مقداروں اور نصف قطر معلوم کرسکتے ہیںیہ دونوں خصوصیات یہ معلوم کرنے میں مدد گار ہوتی ہیں کہ ستاروں کے مغز میں کیا ہورہاہے۔

نیوٹرون ستارے مزید گہرائی میں جانے پر بہت گنجلک ہوجاتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ ہائیڈروجن اور ہیلیئم کے پتلے بیرونی خول کے نیچے ستارے کے ملبے سے بنا ہوا ایک یا دو سینٹی میٹر موٹا خول ہے، جس میں ایٹم کے مرکزے اور فری الیکٹرون گھوم رہے ہیں۔ تحقیق کاروں کے مطابق اس کے بعد کی سطح میںآیونائزڈ عناصر کاجال ہے۔ اس کے بعد اتناکثیر دبائو ہے کہ تمام الیکٹرون پروٹون سے مل کر نیوٹرون بناتے ہیں۔ بعدازاں کیا ہے اس کی بابت کچھ بھی واضح نہیں ہے۔

طبیعیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر پارٹیکل ایکسیلیٹر( particle accelerater)کی موجودگی کے سبب وہ کچھ کچھ جانتے ہیں۔ یہ نیویارک میںبروکلین نیشنل لیباریٹری اور سرن((CERN کے لارج ہیڈرون کولائیڈر جو سوئٹزرلینڈ کے شہرجینیوا میں بنائے گئے ہیں۔ ان میں تحقیق کاروں نے سونے اورسیسہ کے ہیوی آیون کو آپس میں ٹکراکر لمحے کے لیے قلیل سا ڈینس میٹیریل(dense material)بناکر دیکھا ہے۔ لیکن یہ تجربات اربوںڈگری نہیں بلکہ کھربوں ڈگری کے فلیش مارتے ہیں جن میں پروٹون اور نیوٹرون آپس میں حل ہوکر کوارک اور گلیون کا ایک سوپ بناتے ہیں۔اس کے بعد کیا ہوتا ہے ،اس کی بابت مختلف خیالات ہیں۔ مثلاً کوارک(quark) اور گلیو ن آزاد ہیں یا بے انتہا توانائی والے ہائپرون (hyperons) کی تخلیق کا باعث ہوتی ہے۔نیوٹرون کی طرح یہ ذرات بھی تین کوارک رکھتے ہیں۔لیکن نیوٹرون کے کوارک بنیادی اور کم ترین توانائی کے کوارک ہوتے ہیں جن کو اپ اینڈ ڈائون کوارک کہا جاتا ہے۔جب کہ ہائپرون کے تین میں سے ایک اجنبی کوارک ہوتا ہے۔ اس کا بھی امکان ہے کہ نیوٹرون ستارہ کا مرکزبوس آئن اسٹائین کنڈنسیٹ ہوسکتا ہے۔

نائیسر نے سب سے پہلے ایک پلسر کی طرف توجہ دی جو زمین سے 00 11نوری سال دور برج حوت میں واقع ہے اور جو ایک سیکنڈ میں200مرتبہ اپنے مرکز پرگھومتا ہے۔اس کے مشاہدے کے لیےدو گروپ مقرر تھے ایک یونیورسٹی آف ایمسٹرڈم میں اور دوسرا یونیورسٹی آف میری لینڈ کالج پارک میں۔ان دونوںگروپوں نے علیحدہ علیحد ہ آٹھ سوپچاس گھنٹے اس کا مشاہدہ کیا تھا ،تاکہ دونوں ایک دوسرے کو چیک کرسکیں۔چوں کہ ہاٹ اسپاٹ کی روشنیوں کے خم بہت گنجلک ہوتے ہیں۔ اس لیےدونوں گروپوں کو سپر کمپیوٹر کی مدد لینی پڑی تھی ،تا کہ وہ ان روشنیوں کے مختلف اجتماعی ماڈل میں سے اس کا انتخاب کرسکیں جو ڈیٹا میں سب سے بہتر فٹ ہوتا ہے۔ان دونوں کے نتائج یکساں تھے۔یعنی اس کی مقدار سورج کی مقدار کے مقابلے میں ایک اعشاریہ تین سے ایک اعشاریہ چار گنا تھی جب کہ اس کا نصف قطر اندازا ًصرف31کلومیٹر تھا۔ گو کہ یہ نتائج حتمی نہیں لیکن یہ اس کی پیشگوئی کرنے میں معاون ہوسکتے ہیں کہ نیوٹرون ستاروںکے اندر کیا ہے۔

تحقیق کاروں کو ہاٹ اسپاٹ کی اشکال اور مقامات پر بہت تعجب ہوا تھا۔ نیوٹرون ستارہ کے مقناطیسی میدان کی لائنیں ایسی نظر آتی تھیں جیسے کسی مقناطیس کے گرد ہوتا ہے۔یعنی دائرہ نما اشکال کی شمالی اور جنوبی اطراف ستارے کے مخالف اطراف میں تھیں۔اس کے خلاف ایمسٹرڈیم کے سپر کمپیوٹر نے اس کے دونوں ہاٹ اسپاٹ جنوبی نصف کرہ میں بتائے تھے۔میری لینڈ کی ٹیم کی تجویز کے مطابق دو بیضوی اشکال کے جنوبی کرہ میں اور ایک دائرہ نما گھومتے ہوئے جنوبی قطب پر۔ماہرین ابھی اس پر مزید تحقیقات کررہے ہیں ۔

تازہ ترین
تازہ ترین