• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کے فن کاروں پر حملے، آسمانِ شہرت کی بلندیوں پر جگمانے والے زمین پر رہنے پر مجبور ہوگئے۔ ہر وقت مصروف رہنے والے گھروں میں مقید ہوگئے۔ فن کار برادری کے لیے مصروفیت کی وجہ سے فیملی کو وقت دینا مشکل ہوا کرتا تھا۔ کورونا وائرس نے روشنیوں میں رہنے والے فن کاروں کو ان کی اپنی فیملی کے ساتھ رہنے پر مجبورکر دیا۔ بیرون ملک شوز اور فلموں کی وجہ سےجانے والے بھی اپنے ملک میں قیام کرنے پر اُداس ہیں۔ ڈراموں اور فلموں کی دِن رات شوٹنگز کا راگ اَلاپنے والے آج کل خاموش ہیں۔ کوئی فن کار کہتا تھا کہ میری تین فلموں نے باکس آفس پر ریکارڈ توڑ بزنس کیا۔ کوئی یہ کہتا تھا کہ میں سپراسٹار ہوں، میری مرضی فون اُٹھائوں یا نہیں اُٹھائوں۔ میرا جسم میری مرضی، ماروی سرمد اور خلیل الرحمٰن قمر کے جھگڑے، میڈیا کی زینت بنے رہے۔ ٹی وی چینلز پر کئی روز تک ان دونوں شخصیات کی گفتگو کو حد سے زیادہ اہمیت دی گئی۔ 

ایسا محسوس ہو رہا تھا، جیسے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ان دونوں کا ہے۔ قدرت نے جب اپنا جلال دکھایا تو سب غائب ہوگئے۔ شوبزنس کی رنگ برساتی دُنیا، اچانک بے رَنگ ہوگئی۔ ساری رونقیں اور سرگرمیاں رُک گئیں۔ ڈراموں اورفلموں کی شوٹنگز پر جمود طاری ہوگیا۔ اب کسی فن کار کے پاس کبھی جھوٹی کبھی سچی مصروفیت کا بہانہ نہیں رہا۔ کورونا وائرس نے سب کچھ روک دیا، کورونا وائرس نے تمام فن کاروں کی زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔ کورونا کے بعد کیا ہوگا؟ فن کاروں کی عام رائے یہ ہے کہ مشکلات، بے روزگاری اور مسائل میں زبردست اضافہ ہو گا۔ اس وقت ہمارے پاس توبہ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہم سب کو توبہ کا راستہ اپنانا ہوگا۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے شادی ہال، ثقافتی مراکز، تعلیمی ادارے، بڑے بڑے شاپنگ مالز اور سڑکوں پر سنّاٹوں کا راج ہے۔ ہر طرف ویرانی ہی ویرانی ہے۔ اگر ان ویرانیوں اور پریشانیوں کو رونقوں، خوشیوں، مسرتوں، محبتوں اور چاہتوں میں بدلنا ہے، تو سب کو رَبّ کے سامنے توبہ اور وہ بھی سچی توبہ کرنی ہوگی۔ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے بعد بھی ہم نے سبق نہیں سیکھا تو ہمارا بہت بُرا حال ہوگا۔

کورونا وائرس کی وباء نے زندگی کو مکمل طور پر روک دیا ہے۔ اس خطرناک اور جان لیوا وائرس کی وجہ سے فن کاروں کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ان کے رویّوں میں بھی غیرمعمولی تبدیلی آئی ہے۔ فن کار برادری قوم کی ہمت اور حوصلہ بڑھانے کے لیے سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں۔ کوئی فن کار اپنے مداحوں کو توبہ کا دَرس دے رہا ہے، تو کوئی گھر کی چھت پر اذان دے رہا ہے۔ سب سے مقبولیت عاطف اسلم کی دی گئی اذان کو حاصل ہوئی۔ استاد راحت فتح علی خان نے لاک ڈاؤن اور کورونا سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر البم کی تیاریاں شروع کردیں۔ پاکستانی کی پہلی اوپیرا سنگر سائرہ پیٹر سمیت کئی فن کاروں نے کورونا کے متاثرین میں راشن تقسیم کرنا شروع کردیا۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکار اور مصور جمال شاہ نے فن کاروں کی مدد کے لیے ’’آرٹ ایڈ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کرلیا، جس کے تحت وہ اسلام آباد کے ضرورت مند فن کاروں کی مدد کررہے ہیں۔ 

دوسری جانب کچھ فن کار بھی کورونا کی لپیٹ میں آگئے، جنون گروپ کے سلمان احمد پر کورونا نے حملہ کردیا، وہ اس وقت امریکا میں ہیں اور وہاں سے سوشل میڈیا کے بدولت سب سے رابطے میں ہیں۔ علی ظفر نے کورونا کے خاتمے اور بچائو کے لیے گیت گائے، وہ سب سے زیادہ فعال نظر آئے۔ ماہرہ خان نے اپنے مداحوں کو سوشل میڈیا پر مصروف رکھا۔ وہ مختلف شعرأ کی غزلیں بھی پوسٹ کرتی رہیں۔ عدنان صدیقی نے اپنے ہاتھوں سے کورونا کِٹ تیار کیں۔مایا علی،مہوش حیات اور عائشہ عمر نے کورونا کی وبا کے خاتمے کے لیے خصوصی دعائیں کیں۔ بالی وڈ نے تو دو بڑی فلموں کا اعلان بھی کر دیا۔ پہلی فلم ’’کورونا پیار ہے‘‘ اور دُوسری کا نام ’’ڈیڈلی کورونا‘‘ رکھا گیا ہے۔ ان فلموں کی رجسٹریشن بھی کروا لی گئی ہے۔ ماضی میں بھی وبائی امراض پر کچھ فلمیں بن چکی ہیں، جنہیں بے حد پسند بھی کیا گیا۔ اِن دنوں اکثر فن کار، نامور لکھاری گلزار کی مشہور غزل؎

’’بے وجہ گھر سے نکلنے کی ضرورت کیا ہے

موت سے آنکھیں ملانے کی ضرورت کیا ہے

سب کو معلوم ہے باہر کی ہوا قاتل ہے

یونہی قاتل سے اُلجھنے کی ضرورت کیا ہے‘‘

رنگین اور چمکتی دمکتی دُنیا کے سینئر اور نئی نسل کے مشہور فن کار کورونا وائرس سے کتنے متاثر ہوئے ہیں۔ اُن کی زندگیوں میں کیا غیرمعمولی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان کے رویے کتنے بدل گئے ہیں۔ اس بارے میں ہم نے چند مشہور فن کاروں سے گفتگو کی۔ نئی نسل کے مقبول اداکار احسن خان نے بتایا کہ پُوری دُنیا لاک ڈائون میں ہے۔ کسی خاص طبقے کا اس سے تعلق نہیں ہے۔ ہماری زندگیوں میں ایک بہت بڑا چیلنج سامنے آیا ہے، جو اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔ دُنیا بھر کے انسانوں نے کبھی ایسی خطرناک اور جان لیوا وباء کا سامنا نہیں کیا تھا۔ ذاتی طور پر ایسا محسوس کر رہا ہوں کہ رَبُّ العزت نے ہمیں کچھ دکھایا ہے۔ میرا رَبّ فرماتا ہے کہ میں بندوں کو آزماتا ہوں۔ کورونا ہم سب کی آزمائش ہے۔ ہم اس پریشانی سے کس طرح نکلتے ہیں۔ یہ ہم سب پر منحصر ہے، جہاں تک شوبزنس کی سرگرمیوں کا تعلق ہے، تو اس سلسلے میں بتا دوں کہ تمام ڈراموں اور فلموں کی شوٹنگز کا سلسلہ تھم گیا ہے۔ 

عید کی درجنوں فلموں کی شوٹنگز ہنگامی بنیاد پر کی جا رہی تھی، وہ سب ملتوی ہوگئیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ مستقبل قریب میں سینما گھروں کا کیا بنے گا۔ کچھ ٹیلی ویژن ڈرامے جوپہلے سے مکمل تھے، وہ آن ایئر ہیں اور فرصت میں ناظرین انہیں دیکھ رہے ہیں۔ ٹی وی شوز وغیرہ کی ریکارڈنگ کم ہو رہی ہے۔ سماجی دُوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے دو تین اسلامی شوز ریکارڈ کروائے ہیں۔ اس پرتمام احتیاطی تدابیر کا سامنا کیا گیا۔ دُوسری جانب سوشل میڈیا کے ذریعے بھی لوگوں میں آگہی کا کام کررہے ہیں۔ فی الحال تو ایسا محسوس ہو رہا ہے، جیسے سب کچھ رُک گیا ہو۔ دُنیا میں ہر چیز تھمی ہوئی ہے۔ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ چند مہینوں میں حالات معمول پر آجائیں گے۔ ہمارے رَبّ کی آزمائش پر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمیں اب دُوسروں کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے۔ ہم ماضی میں کیا کرتے رہے اور مستقبل میں کیا تبدیلی لائیں گے۔ ان چیزوں پر غور کرنا نہایت ضروری ہوگا۔ دُنیا کی رونقوں کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی۔سب سے درخواست کروں گا کہ اپنے اردگرد کے لوگوں کا خیال رکھیں۔ اُن سب باتوں کے باوجود ہم سب کو جائزہ لینا ہوگا کہ ہم کہاں پر غلط تھے۔‘‘

فلموں اور ڈراموں کےشہرت یافتہ فن کار فیصل قریشی نے بتایا کہ موجودہ حالات دیکھتے ہوئے ہماری فن کار برادری کی کوشش تو یہی ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے ہم اُداس لوگوں کو خوشیاں فراہم کرتے رہیں۔ سوشل میڈیا، انسٹا گرام اور یوٹیوب کے ذریعے اپنے مداحوں سے رابطہ میں ہیں۔ ہم چھوٹی چھوٹی دل چسپ چیزیں شیئر کر رہے ہیں۔ ہماری ان سرگرمیوں کی وجہ سے کسی اُداس چہرے پر خوشی اور ہلکی سی مسکراہٹ بھی آ جائے تو ہمیں خوشی ہوگی۔ سب فن کار ہی اپنی اپنی جگہ کوششیں کررہے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ ضروری پیغام بھی دے رہے ہیں کہ موجودہ مشکل حالات میں اپنی فیملی کے ساتھ اپنے گھروں پر رہنا ہے اور ان سب کا خیال رکھنا ہے۔ ہم فن کاروں کو اپنی فیملی کے لیے مشکل ہی سے وقت ملتا ہے۔ اب ایسا وقت آگیا ہے کہ ہم سب گھروں پر ہیں۔ ہم اپنے ماضی کے بارے میں کم اور مستقبل کے بارے میں زیادہ سوچ رہے ہیں، کیوں کہ آنے والے دِنوں میں یہ دُنیا اتنی آسان نہیں ہوگی اور یہ بات ہم سب کی سمجھ میں آجانی چاہیے۔ 

مشکلات کا سامنا ہم سب کو ہی کرنا پڑے گا، لیکن ہم سب فن کاروں کو اپنے ان ساتھی ہنرمندوں اور روزانہ اُجرت پر کام کرنے والوں کی فکر ہے۔ وہ کورونا کی تباہی سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ ان کی ہم سب فن کار اپنی اپنی حیثیت میں مدد کر رہے ہیں۔ ہمیں وقت ملا ہے کہ ہم سوچیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ کس طرح سے ہم وہ ماضی کی خوشیاں اور رونقیں دیکھ سکیں گے۔ وہ پہلے والی زندگی کب لوٹے گی۔ ہمیں ایک قوم بن کر سوچنا ہوگا۔ جب ہماری سوچ اورجذبے ایک ہو جائیں گے تو ساری صورت حال پر قابو پانے میں آسانی ہو جائے گی۔

پاکستان ٹیلی ویژن کے منجھے ہوئے سینئر اداکار توقیر ناصر نے بتایا کہ موجودہ حالات میں سب سے پہلے قومی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔ وفاق اور صوبوں کے درمیان رابطوں کا فقدان نہیں ہونا چاہیے۔ ایک قوم بن کر اتنے بڑے بحران اور جان لیوا وباء کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ تب ہی صورت حال بہتر ہو سکتی ہے۔ ہماری حکومت کو بھی چیزیں منظّم کرنے میں دُشواری ہو رہی ہے۔ پہلے یہ اعلان کر دیا کہ کورونا سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے۔ لاک ڈائون شروع ہوا تو عوام ڈرے نہیں اورسڑکوں پر نِکل آئے اور اب بھی بہت سارے لوگ سڑکوں پر گھوم رہے ہیں۔ خُدارا… ایسا نہ کریں اور پُوری قوم متحد ہو جائے۔ لوگوں کو ایک پیغام جانا چاہیے کہ ہم اس خطرناک بیماری سے ڈر رہے ہیں اور اس سے بچنے کے لیے گھروں پر رہیں۔ 

اپنی حفاظت کے لیے اپنے گھر والوں کی زندگیوں کی خاطر گھروں پر رہنا ہوگا تا کہ یہ وباء زیادہ نہ پھیلے۔ پُوری قوم کی بقا کی خاطر احتیاط کریں۔ میں نے اپنی تمام سرگرمیاں معطل کر دی ہیں۔ کسی سے ملنا جُلنا نہیں۔ فیملی کے ساتھ گھر پر ہوں اور اپنے ماضی کے ڈرامے دیکھ رہا ہوں۔ ہم نے ایک خُوب صورت دور گزارا ہے۔ ہمارے ڈراموں میں پورا خاندان دکھایا جاتا ہے۔ رشتوں کی قدر سکھائی جاتی تھی۔ گفتگو کے آداب دکھائے جاتے تھے۔ آج بھی 25 برس پُرانے ٹیلی ویژن ڈرامے دیکھ لیں، ان کی خُوب صورتی اور دل کشی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ ہم آج کل جو ڈرامے پیش کر رہے ہیں۔ ان میں کوئی روحی بانو پیدا نہیں ہو سکی۔ بس ڈراما ایک ٹرک کی طرح ہو گیا ہے اور اس میں ہر طرح کا سامان لوڈ کیا جا رہا ہے اور ٹرک چلتا جا رہا ہے۔

بلوچستان کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے سینئر اداکار، ایوب کھوسہ نے کورونا وائرس اور فن کاروں کی سرگرمیوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 20 مارچ تک میں کراچی میں تھا۔ اُس وقت تک کورونا کا شور مچنا شروع ہوگیا تھا۔ تمام ایئرپورٹس، ریلوے اسٹیشنز اور پبلک ٹرانسپورٹ بند کی جارہی تھی۔ لاک ڈائون اور کرفیو کی اطلاعات بھی آنے لگیں، تو میں نے سیدھا کراچی سے بلوچستان اپنے گائوں کا رُخ کیا، کیوں کہ میری فیملی پہلے ہی سے گائوں گئی ہوئی تھی۔ کراچی اور بلوچستان میں میرے گھر ہیں۔ میں دونوں جگہ رہتا ہوں۔ گائوں پہنچا تو وہ گھر سے نکلنے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ زمینوں کی دیکھ بھال کرتا رہا۔

البتہ گائوں کے لوگوں سے ملنے جُلنے میں احتیاطی تدابیر کو سامنے رکھا۔ ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے پرہیز کیا۔ گپ شپ اور بیٹھکیں بالکل نہیں ہوئیں۔ پندرہ روز تک گھر پر اُکتا گیا، تو سوچا دوستوں کی طرف مورو سندھ چلا جاتا ہوں۔ ہمارے ساتھی اداکار قیصر خان نظامانی کو فون کر کے کراچی سے مورو بلالیا اور میں بھی کوئٹہ سے مورو پہنچ گیا۔ دو دوست فیروز جمالی اور فدا حسین بھی ساتھ تھے۔ مورو سے ہم دوستوں نے گورکھ ہل کا پروگرام بنایا۔ وہاں اسلام آباد اور مری جیسا موسم تھا۔ خوب انجوائے کیا۔ اس کے بعد رنّی کوٹ چلے گئے۔ اس کا قلعہ دیوار چین کی طرح بہت مقبول ہے۔ اس کی دیواریں بہت مشہور ہیں۔ وہاں ہم چاروں دوستوں نے کورونا وائرس کا خوف کم کیا۔ اس کے بعد میں واپس گاؤں آگیا اور شوبزنس کی دُنیا کے بارے میں سوچنے لگا۔ شوبز بالکل خاموش ہوگیا ہے۔ بڑے بڑے سپراسٹارز جو بہت زیادہ دولت کماتے ہیں۔ 

ان کے لیے تو کورونا وائرس کی وجہ سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ البتہ کم معاوضہ پر کام کرنے والے فن کار اور ہنرمند بہت پریشان ہیں۔ ان کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہے۔ مجھے سندھ اور بلوچستان کے ان فن کاروں کے بارے میں بہت تشویش ہے۔ کلچر ڈیپارٹمنٹ کو ایسے فن کاروں کی گھر جا کر خود مدد کرنی چاہیے۔ ان کے پاس تمام ریکارڈ موجود ہے۔ ایسے فن کاروں کو ضروری اشیاء اور مالی امداد کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ اداکار ایوب کھوسہ نے مزید بتایا کہ فن کاروں کی حکومتی سطح پر کوئی سرپرستی نہیں ہے۔ ہمارے ٹیلی ویژن چینلز بھی فن کاروں کی مدد کے لیے کام کر سکتے ہیں۔ ایسے اینکرز جن کی تنخواہیں لاکھوں روپوں میں ہیں، وہ ایک ماہ کی تنخواہ اگر کورونا وائرس کے متاثرین غریب فن کاروں کے لیے مختص کر دیں، تو بہت اچھا ہو جائے۔ ہم سب حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ آرٹس کونسل کراچی اور کلچر ڈیپارٹمنٹ روزانہ اُجرت پر کام کرنے والے فن کاروں سے خود رابطہ کر کے خاموشی سے ان کی مدد کریں۔ پُوری دُنیا میں فن کاروں کی بے انتہا عزت کی جاتی ہے، لیکن پاکستان میں فن کاروں کو ان کا حق نہیں دیا جاتا۔ فن کار کسی بھی ملک کے لیے سفیر کی طرح ہوتے ہیں۔ دُنیا کے کونے کونے میں اپنے ملک کی ثقافت کا پرچار کرتے ہیں۔ ان پر توجہ دینا چاہیے۔

دُوسری جانب آرٹس کونسل کراچی کے صدر محمد احمد شاہ نے بتایا کہ جب سے کورونا وائرس کی وباء چلی ہے، ہم نے اپنے تمام ممبران کوپیغام دیا تھا کہ اگر کسی ضرورت مند فن کار، شاعر، اَدیب، مصوّر، گلوکار اور دیگر فنون سے وابستہ شخصیات کو راشن کی ضرورت ہے، تو وہ آرٹس کونسل سے رابطہ کریں۔ ہم سے دو ہزار ممبران سے رابطہ کیا۔ اب تک ہم ایک ہزار ممبران کو راشن تقسیم کر چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ممبر اپنا کارڈ دکھاتا ہے اور راشن لے جاتا ہے۔ آرٹس کونسل کا ایک ایک ممبر میری لیے فیملی کی طرح ہے۔ میں اپنے ممبران سے رابطے میں رہتا ہوں۔ کورونا وائرس کے باوجود ہم سوشل میڈیا کے ذریعے سب سے جڑے ہوئے ہیں۔ آرٹس کونسل سال میں 1500 پروگرام ہوا کرتے ہیں، فی الحال وہ سلسلہ تھم گیا ہے۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وباء پوری دُنیا کا مسئلہ ہے۔ 

پھر سے زندگی شروع ہوگی اور رونقیں بحال ہوں گی۔‘‘ فلموں اور ڈراموں کے معروف ہیرو دانش تیمور نے بتایا کہ کورونا وائرس نے جس طرح عام لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے، اسی طرح فن کاروں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے، لیکن اتنی زیادہ پریشانی نہیں ہوئی، جتنی روزانہ مزدوری کرنے والوں کو ہوئی ہے۔ روزانہ اُجرت پر کام کرنے والوں کا بہت نقصان ہوا ہے۔ لاک ڈائون کی وجہ سے میرا لائیو شو اور ڈراموں کی شوٹنگز ملتوی کر دی گئی ہیں۔ لاک ڈائون حکومتی فیصلہ تھا اور وہ ہم سب کے فائدے کے لیے تھا۔ اس سے کافی فرق پڑا ہے۔ ہمارے ملک پاکستان میں جرمنی، اٹلی اور امریکا والی صورتِ حال نہیں ہے۔ پھر بھی کورونا کی وجہ سے جو اَموات ہمارے ملک میں ہو رہی ہیں۔ اس کا بے حد افسوس ہے۔ ہم سب توبہ، دُعا اور احتیاط کےسوا کچھ نہیں کر سکتے۔ میرے رَبّ نے چاہا تو سب رونقیں جلد بحال ہو جائیں گی۔ سب کچھ پھر سے کھل جائے گا۔ میری بیگم عائزہ اور میں شوبزنس میں بہت مصروف رہتے ہیں۔ اب سارا دن گھر میں بچوں کے ساتھ گزار رہے ہیں۔ مجھے کہانیاں لکھنے کا بے حد شوق ہے۔ لاک ڈائون کی وجہ سے میں نے

اپنی کچھ اُدھوری کہانیوں کو مکمل کر لیا ہے۔ چار کہانیاں جلد ٹیلی ویژن پر پیش ہوں گی۔ عائزہ اور میں ہر وقت دُعا کرتے رہتے ہیں کہ یہ جان لیوا وائرس کا جلد خاتمہ ہو اور دُنیا میں افراتفری ختم ہو۔‘‘ صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکار طلعت حسین نے کورونا سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کے بارے میں بتایا کہ اس وائرس کو امریکا نے بنایا تھا اورچائنا میں پھیلانے کی کوشش کی۔ چائنا نے اس پر قابو پا لیا اور اب وہ امریکا کے گلے پڑ گیا ہے۔ اس وائرس سے فن کار بھی اتنے ہی پریشان ہیں، جتنے عام لوگ ہیں۔ ہمیں اپنے رویوں اور سوچنے کے طریقوں میں تبدیلی لانے کے لیے قدرت نے موقع دیا ہے۔ شوبزنس کی دُنیا اُداس ہوگئی ہے۔ سب تشویش میں مبتلا ہیں۔ اُوپر والا سب پر رحم کرے۔

تازہ ترین
تازہ ترین