• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ایک بی ایس سی رجسٹرڈ نرس ہوں اور آجکل روٹیشن پر میری ڈیوٹی ICU میں بھی لگتی ہے ۔ کرونا سے مجھے بھی اسی طرح ڈر لگتا ہے جیسے عام لڑکیوں کو لیکن ایک فرق ہے کہ میری ہم عمر ساری لڑکیاں گھروں میں بیٹھ گئی ہیں اور شاید اب وہ اپنے بچوں کو زیادہ وقت بھی دے رہی ہونگی لیکن میرے ساتھ اور مجھ جیسی باقی لیڈی نرسز کے ساتھ اُلٹا ہو گیا ہے ۔

دو رات پہلے جب میرے ICU میں نرسنگ اسٹنٹ اور ایک جوان عورت کی تیز بخار اور سانس کی تکلیف میں باوجود Ventilator پر ہونے کے موت ہو گئی تو میں خوب ہی روئی ۔ خوب خوب روئی جیسے میں خود مرگئی ہوں اور اپنی موت پر خود ہی رو رہی ہوں ۔میں ان دونوں تین دفعہ رات کی ڈیوٹی کر چکی ہوں اور سب کہتے ہیں کہ انکو کرونا انفیکشن ہونے کا شک تھا ۔ اگر یہی سچ ہے تو میں کرونا کا پکا انفیکشن لے چکی ہوں ۔ ٹیسٹ کروانے کا کوئی بندوبست نہیں ۔ بس ڈر کے مارے گھر نہیں جا رہی کہ گھر پہنچنے پر جب میرا دو سال کا اکلوتا بیٹا بھاگ کے مجھ سے لپٹے گا تو کیا کرونگی ۔

تین دن سے ہاسپیٹل میں ہوں ۔ میاں سے کپڑے منگوالئے ہیں اور وہ بھی دور سے ہی لئے تاکہ میاں اور بیٹا محفوظ رہیں ۔کبھی خیال آتا ہے کہ کیوں بنی نرس ۔ کتنے مزے میں ہیں وہ لڑکیاں جو بی اے کرکے شادی کرتی ہیں اور میاں کی خدمت کرکے خوش رہتی ہیں ۔ خوب فیشن کرتی ہیں ۔ گھومتی پھرتی ہیں اور اپنے بچوں کو بھی توجہ سے پالتی ہیں ۔دوسری طرف مجھ جیسی نرسز ہیں جن سے نہ گھر والے راضی ہوتے ہیں نہ لوگ وہ عزت دیتے ہیں جس کے خواب ہم سب نے ڈاکٹر بننے سے پہلے دیکھے تھے ۔ 

خود کیلئے وقت کہاں سے لائیں کہ ہم تو اپنے بچوں کو بھی وقت نہیں دے سکتیں ۔اب کرونا نے قیامت ڈھائی ھے تو وہ لوگ جو ہمیں قصائی اور برا کہتے تھے ہمیں قوم کے سپاہی کہہ رہے ہیں ۔ ہمیں کسی سے بھی کوئی گلہ نہیں مگر جس طرح قوم اپنے فوجی سپاہیوں کو بندوق دے کر سرحد پر حفاظت کیلئے کھڑا کرتے ہیں پلیز ہمیں بھی کچھ حفاظتی چیزوں کا بندوبست تو کردیں ۔ 

ہم تو ایسے بے یارومددگار سپاہی ہیں کہ جو دشمن کے وار سے خود کو بھی نہیں بچا پارہے ۔ نہ کوئی مورچہ ہے نہ کوئی بندوق ۔ لگتا ھے غازی بنیں نہ بنیں شہید پکے ھونگے ۔اللہ بھلا کرے کافروں کا جنہوں نے اسمارٹ فون اور واٹس ایپ کی سہولت مہیا کررکھی ہے ورنہ تو تین دن سے اپنے بچے کو بھی نہ دیکھ پاتی ۔ میرا بیٹا پوچھتا ہے مما گھر کب آو گی تو دوسری طرف منہ کر لیتی ہوں کہ آنسو نہ دیکھ لے ۔ بس کرونا نہ ہوا تو 15 دن بعد ضرور گھر جاونگی۔ 

اس یقین کے ساتھ ڈیوٹی کر رہی ہوں کہ میرے ڈر کے بھاگ جانے سے اگر کسی مریض کو طبی امداد نہ ملی تو میری اس ڈگری کا کیا فائدہ ۔ مزید یہاں ہاسپیٹل میں پڑے رہنے کا ایک ذاتی فائدہ بھی ضرور ھے کہ اگر مجھے کرونا انفیکشن ہو چکا ہے تو میرے دور رہنے سے میرا بیٹا اور میاں بھی تو محفوظ ہیں ۔بیٹے کو گلے لگانے کو بہت دل چاہتا ھے مگر ICU میں پڑے لوگوں کو بھی نہیں چھوڑ سکتی کیونکہ اب تو آپ سب لوگ ہمیں قوم کے سپاہی کہنے لگے ہیں ۔ اب ہم سب نے لڑناہے یا مرنا ہے،نہ رہی تو فیصلہ آپ ہی کر لینا کہ میں ماں اچھی تھی یا نرس سپاہی ۔

(فیس بک سے لی گئی ایک تحریر)

تازہ ترین