’’شیکسپیر ‘‘سے ’’شیلے ‘‘ تک
’’ہومر ‘‘ سے ہم تک سب سمجھتے رہے،
عورت معشوق ہے ،صرف ’’شاہ لطیف ‘‘ کو معلوم تھا ،
عورت عاشق ہے
ایک شخص نے پوچھا’’شاہ لطیف کون تھا؟‘‘
میں نے کہا ’’دنیا کا پہلا فیمینسٹ شاعر‘‘
اس نے پوچھا ’’کس طرح۔۔۔!؟‘‘
میں نے کہا ’’اس طرح کہ :وہ جانتا تھا کہ عورت کیا چاہتی ہے؟
اس سوال کا جواب ارسطو بھی نہ دے پایا،
اس لیے علامہ اقبال نے کہا تھا:
’’ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا
پھر بھی یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں‘‘
دنیا کے سارے دانشور اور شاعر کہتے رہے کہ
’’عورت ایک مسئلہ ہے‘‘
اس حقیقت کا ادراک صرف شاہ لطیف کو تھا کہ
’’عورت مسئلہ نہیں،عورت محبت ہے!‘‘،مگر وہ محبت نہیں
جو مرد کرتا ہے!
عورت کے لیے محبت جذبہ ہے، روح کی آزادی ہے
مرد کی محبت مقابلہ ہے۔عورت کی محبت عاجزی ہے۔مرد کی محبت ایک پل ہے،عورت کی محبت پوری زندگی ہے،مرد کی محبت ایک افسانہ ہے،عورت کی محبت ایک حقیقت ہے!
سارے شعراء شیکسپئر سے لرکر شیلےاور ہومر سے لے کر ہم تم تک
سب یہ سمجھتے رہے کہ عورت معشوق ہے،
صرف شاہ لطیف کو معلوم تھا کہ عورت عاشق ہے
اس لیے شاہ لطیف نے لکھا:
’’عورت عشق کی استاد ہے‘‘
شاہ عبدالطیف کو علم تھا کہ،عورت کو محبت چاہیے،
عورت روح کے چمن میں ،
اڑتی ہوئی تتلی ہے، جو پیار کی پیاسی ہے
مرد کے لیے محبت بھوک اور عورت کے لیے پیار
ایک پیاس ہے!
صرف لطیف جانتا تھا
عورت کے ہونٹ ساحل ہیں
اور اس کا وجود ایک سمندر ہے
آنکھوں سے بہتے ہوئے
اشکوں جیسا سمندرجو نمکین بھی ہے
اورحسین بھی ہے!!
جس میں تلاطم ہے، جس میں غم ہے
جس میں رنج نہیں، صرف اور صرف الم