• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاک ڈاؤن کا عرصہ بڑھا دیا گیا لیکن یہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ابھی مزید چلے گا اللّٰہ سے دعا ہے کہ خیر و خوبی کے ساتھ ہم اس وباء کو مزید پھیلنے سے روک سکیں اور اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔

عجیب بیماری ہے کہ جس کا علاج تنہائی ہے وہی خواتین جنہیں ہر وقت " وقت کی کمی " کی شکایت رہتی تھی گھروں میں بیٹھ بیٹھ کر بیزار ہو چکی ہیں ۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ پوری دنیا ایک خوف کے عالم میں گھروں میں محصور ہو گی بظاہر لوگ ہنس بھی رہے ہیں مذاق بھی کررہے ہیں سوشل میڈیا پر طرح طرح کے لطیفے اور مزے مزے کے مذاق دیکھنے کو مل رہے ہیں لیکن اندر سے ہر انسان خوفزدہ ہے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس وباء کا انجام کیا ہوگا۔

سپر پاور کہلانے والے بڑے بڑے بت دھڑام سے زمیں بوس ہو چکے ہیں اس وباء کے آگے سب نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اللہ نے بتادیا ہے کہ سپر پاور صرف ایک ہے اور وہ ہے اللّٰہ کی ذات۔

کل تک جن چیزوں پر فخر اور غرور کیا جاتا تھا آج ایک ننھے جرثومے نے سب کو صفر کر کے رکھ دیا اب کینیڈین نیشنل ہو یا گرین کارڈ ہولڈر ، برطانیہ کا پاسپورٹ ہو یا آسٹریلیا کی شہریت سب بےکار ۔ ساری نیوکلیئر پاورز ابھی تک اس وباء کی ویکسین تیار نہیں کرپائیں صرف اللّٰہ سے رحم کی امید ہے کچھ پتہ نہیں کہ یہ کب تک چلے گا اور اس کا انجام کیا ہوگا۔

ایک ایسی بیماری جس سے بچاؤ کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ ایک دوسرے سے سماجی رابطوں کو محدود کر دیا جائے بلکہ نہ ہی ملا جائے تو اپنے لیئے بھی بہتر ہے اور دوسروں کے لئے بھی بہتر ہے ۔

گھروں سے نوکروں کو ہٹا دیا گیا ہے خواتین گھر کے کام اپنے ہاتھوں سے کرنے پرمجبور ہیں، تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے بچے بھی گھروں میں قید ہیں، مائیں پریشان ہیں کام معمول سے زیادہ بڑھ گیا ہے، گھر کی صفائی ستھرائی سے لے کر برتن دھونے تک کی ذمہ داری اُن پر آگئی ہے۔ مرد دفاتر نہیں جا پا رہے اور جن دفاتر میں آن لائن کام کیا جاسکتا ہے وہاں آن لائن کام ہورہا ہے، معیشت کا برا حال ہے، کاروبار بند ہیں ، دیہاڑی دار مزدور سب سے زیادہ پریشان ہیں ،ایک طرف لوگوں کو کھانا نہیں مل رہا اور دوسری طرف پورے شہر میں بھیک مانگنے والوں کا ہجوم ہے جن میں سے زیادہ تر ہاتھ میں بیلچے تھامے مزدور بن کر بھیک مانگ رہے ہیں ، بھکاری عورتوں کی بھی بہتات ہے حکومت اور متمول حضرات پوری کوشش کررہے ہیں کہ غریبوں تک راشن پہنچ سکے لیکن منصفانہ تقسیم نہیں ہو پا رہی کچھ لوگوں نے بے تحاشہ راشن جمع کرلیا جو وہ دکانوں پر بیچتے پکڑے بھی گئے ایسے میں ان سفید پوش لوگوں کا خیال آتا ہے جو اپنی عزت نفس کی خاطر کسی سےکہہ بھی نہیں سکتے اور نہایت مشکل اٹھا رہے ہیں ۔ 

 بس اللّٰہ سے دعا ہے کہ یا اللہ تعالیٰ تو رحم فرمادے ، ہمارے گناہوں کو معاف کر دے ، ہمیں اس وباء سے بچالے میرے مولا ، ہماری مسجدوں کو پھر سے آباد کردے ، ہماری محفلوں کی رونق لوٹادے ، ہمارے ملک میں زندگی اور گہما گہمی دوبارہ شروع ہو جائے۔ آمین ثم آمین

ہمارے ملک میں آج کل جو ہو رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے تو اللّٰہ سے دعا مانگتے ہوئے بھی شرم آتی ہے ہم وہ قوم ہیں جو اس نازک وقت میں بھی مذہب اور سیاست کے چکروں میں الجھی ہوئی ہے ۔ عجیب و غریب سوالات اور بے تکی لاجک سننے کو ملتی رہتی ہیں مثلاً کرونا پاکستان میں کیسے اگیا؟ یعنی پوری دنیا جس بیماری کی لپیٹ میں ہے وہ پاکستان نہیں آسکتی تھی اور اگر آئی ہے تو اس کے پیچھے ضرور کوئی نہ کوئی سازش ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ اس وقت بھی فرقے واریت کی باتیں ہورہی ہیں کون کس کو سپورٹ کر رہا ہے اسکی ڈی پیز لگائی جارہی ہیں۔

اف نادانو! اب تو ہوش میں آجاؤ عقل کے ناخن لو اس وقت اتحاد کی ضرورت ہے مذہب میں بھی، سیاست میں بھی اور گھروں میں بھی۔ہر وقت کے لڑائی جھگڑے ختم کریں، مرد اپنی آنکھوں سے خواتین کو دن رات کام کرتے دیکھ رہے ہوں گے اب تو ان کی قدر کرلیں، ورنہ وہ نہیں آپ تنہا ہوجائیں گے۔

آج ہی ایک امریکی ماہر نفسیات ہیری اسٹاک سالیوان کا قول نظر سے گزرا۔ وہ فرماتے ہیں کہ" انسان کا سب سےبڑا نفسیاتی مسئلہ احساس تنہائی ہے جو اینزاییٹی اور ڈپریشن سے بھی بڑا مسئلہ ہے"اور انسان کو تو ویسے بھی سوشل اینیمل (سماجی جانور) کہا جاتا ہے ہم ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے الحمدللہ ثم الحمدللہ کہ ہم اپنے پرسکون گھروں میں اپنے پیاروں کے ساتھ ہیں لیکن ہمارے اور بھی کتنے پیارے رشتے دار، بہن بھائی، والدین، دوست احباب ہم سے دور ہیں جن سے ملنے کو ہمارا دل تڑپ رہا ہے بقول شاعر:

بھیڑ کے خوف سے پھر گھر کی طرف لوٹ آیا

گھر سے جب شہر میں تنہائی کے ڈر سے نکلا

تازہ ترین