جب سے دنیا ایک کھلی ڈلی جیل بنی ہے میں میانوالی میں ہوں۔ سو جیل کے اِسی حصے کے معاملات پر غور کرتا رہا۔ کورونا سےخوفزدہ لوگ چھپ چھپ کر کراچی سےمیانوالی آتے رہے۔ کراچی میں میانوالی کے کئی لاکھ لوگ آباد ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر ٹریلوں میں بیٹھ کر آئے۔ ایک ایک ٹریلے میں چالیس چالیس لوگ مگر میانوالی پولیس نےفرنٹ لائن فورس کا کردار ادا کرتے ہوئے ان تمام لوگوں کو پکڑ کر چیک کیا کہ کہیں ان میں کورونا کے مریض تو نہیں آگئے۔ جن جن قرنطینہ میں کورونا کے مریض تھے وہاں بھی پولیس نے بڑی جانفشانی سے ڈیوٹی کی۔ انہیں کھانا بھی پولیس نے فراہم کیا۔ میانوالی پولیس نے اپنی تنخواہوں سے فنڈ جمع کر کے تقریباً پانچ سو خاندانوں کو راشن فراہم کیا۔ تمام تھانوں میں چوبیس گھنٹوں میں تین دفعہ جراثیم کش اسپرے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ حوالات میں جتنے قیدی تھے انہیں سینی ٹائزر مہیا کیے گئے، ماسک فراہم کیے گئے۔ تھانوں میں ڈس انفکیشن روم بنائے گئے جہاں تھانے میں داخلے پر اینٹی وائرس اسپرے کیا جاتا ہے۔
تھانوں کے ایس ایچ اوز نے اپنے علاقے کے لوگوں کو کورونا کی احتیاطی تدابیر بتانے کا سلسلہ شروع کیا۔ علمائے کرام کے ساتھ میٹنگیں کیں اور انہیں کورونا کی تباہ کاریوں سے متعلق بتایا۔ تھانوں میں موجود قیدیوں کے کورونا ٹیسٹ کرائے گئے۔ جنہیں تھانے سے جیل بھیجا گیا ان کے بھی ٹیسٹ کرائے گئے تاکہ کہیں جیل میں کورونا کا کوئی مریض نہ پہنچ جائے۔ لا اینڈ آرڈر کے معاملات بہت بہتر۔ اس شاندار کارکردگی پر ڈی پی او حسن اسد علی کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ ڈپٹی کمشنر عمر شیخ اور اے ڈی سی جی واحد ارجمند ضیا کی کارکردگی بھی کسی سےکم نہیں۔ ویسے سچ تو یہ ہے کہ مجھے شکریہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا ادا کرنا چاہئے۔ جنہو ں نے پنجاب میں کورونا کو کنٹرول کرنے کیلئے دن رات ایک کر دیے۔ اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے عوام، میڈیا اور حکومت ہر وقت اچھی خبر کے متلاشی نظر آتے ہیں۔ وزیراعلیٰ کی اچھی کارکردگی سے بہتر کوئی خبر ہو سکتی ہے۔
جب ڈی جی خان سے 755زائرین کو قرنطینہ میں 14دن رکھ کر ٹیسٹ رپورٹ منفی آنے پر گھر بھیجا جاتا ہے یا کسی بھی سرکاری اسپتال سے کسی ایک مریض کی بھی صحت یابی کی خبر آتی ہے تو یہ کورونا کے خلاف جنگ میں ایک امید کی کرن کی مانند ثابت ہوتی ہے۔ عوام کا حکومت پر اعتماد بڑھتا ہے، یہ پہلو نہایت اہم ہے کیونکہ جب تک عوام حکومت پر اعتماد نہیں کریں گے، حکومت اپنے احکامات پر عملدرآمد موثر انداز میں کروانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔
کورونا کے حوالے سے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران جہاں معزز عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر واضح تنقید کی وہاں عدالت کی جانب سے پنجاب میں کیے جانے والے اقدامات کو مثبت اور درست سمت کی جانب گامزن قرار دیا۔ عثمان بزدار کی کامیابی کا ثبوت بھی ہے اور پنجاب کے عوام کیلئے خوش آئند پیغام بھی کہ ان کا صوبہ محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ اس بات میں رتی برابر بھی شک کی گنجائش نہیں کہ مشکل کی اس گھڑی میں وزیراعلیٰ پنجاب کی لیڈر شپ ابھر کر سامنے آئی ہے۔ 11کروڑ کی آبادی کے صوبے پنجاب میں کمیونٹی ٹرانسمیشن کو روکنا کوئی آسان کام نہیں تھا، عثمان بزدار نے ٹیسٹ اور ٹریس کے عمل کو موثر انداز میں اپنا کر وائرس کے پھیلائو کو روکا۔پنجاب میں جو یہ تیزی سے مریضوں کی تعداد بڑھی اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب تمام صوبوں میں سب سے زیادہ ٹیسٹنگ کیپسٹی رکھتا ہے، 3100روزانہ سے بڑھا کر اب 10ہزار ٹیسٹ پر لیجانے کے لئے حکومت اہم اقدامات کررہی ہے، 62ارب روپے جاری کیے گئے ہیں جس سے ڈویژنل سطح پر بی ایس ایل لیب بنائی جارہی ہیں۔ عدالتی فیصلے میں حکومت پنجاب کی جانب سے پی پی ایز، ٹیسٹ کٹس اور وینٹی لیٹرز لوکل سطح پر بنانے کیلئے اقدامات کو بھی سراہا گیا۔ لوکل سطح پر وینٹی لیٹرز بنا لئے گئے ہیں جن کو اب ٹیسٹ رن کے مراحل سے گزارا جارہا ہے، کامیاب ٹیسٹ کی صورت میں یہ وینٹی لیٹرز پورے پاکستان میں بھیجے جائیں گے۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے صوبے میں کورونا کی روک تھام کیلئے وہ کام کر دکھائے ہیں جو پرانے تجربہ کار لیڈران اتنے کم عرصے میں نہ کر پائے۔ عثمان بزدار نے نہ صرف سب سے پہلے وفاقی حکومت کے ساتھ معاملےکو اٹھایا بلکہ پی ڈی ایم اے اور محکمہ صحت کو 15 ارب روپے سے زائد کا فوری اجرا کیا تاکہ حفاظتی کٹس، ٹیسٹنگ کٹس اور دیگر میڈیکل ایکوپمنٹ خریدا جا سکے۔ اور ساتھ ساتھ وقت بچانے کیلئے لوکل سطح پر میڈیکل ایکوپمنٹ کی پروڈکشن کیلئے اقدامات کیے۔ صوبے میں اسپتال کے عملے کیلئے پی پی ایز کی لو کل سطح پر کامیابی سے تیاری جاری ہے۔ کورونا کی روک تھام کے حوالے سے اس کی ویکسین کی تیاری کیلئے ریسرچ تیز کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں اور ایکسپرٹس جس میں مصروفِ عمل ہیں۔ پنجاب حکومت نے ہر تحصیل میں پچیس تابوت تیار کرائے یعنی کل کوئی تین ہزار پچاس تابوت کہ خدانخواستہ اموات کی صورت میں تابوت موجود ہونے چاہئیں مگر ابھی تک کورونا وائرس کو اس طرح کنٹرول کیا گیا ہے کہ ان میں سے سو تابوت بھی استعمال میں نہ آ سکے۔ ﷲ تعالیٰ آگے بھی کرم فرمائے گا۔
عثمان بزدار کی قیادت میں ہی لاہور میں ایک ہزار بیڈز کا اسپتال 9دنوں میں تیار ہوا، دیگر اضلاع میں ضرورت کے مطابق فیلڈ اسپتالوں کا قیام جاری ہے، قرنطینہ سنٹرز کا قیام، ملتان میں ملک کا سب سے بڑا قرنطینہ 6ہزار بستروں پر مشتمل، یہ وہ اقدامات ہیں جو بزدار حکومت کی اہلیت اور نیک نیتی کا منہ بولتا ثبوت ہیں، باقی عوام پر بھرپور ذمہ دار عائد ہوتی ہے کہ وہ حکومت کے احکامات پر عمل کریں اور گھروں میں رہیں۔