• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے وہ دن آج بھی اچھی طرح یاد ہے، بلکہ شاید کبھی بھول ہی نہیں سکتا، جب روزنامہ جنگ میں جاب ٹیسٹ، انٹرویو کلیئر کرنے کے بعد میگزین سیکشن میں احفاظ الرحمٰن صاحب کے پاس رپورٹ کرنے کو کہا گیا۔ ڈرتے ڈرتے شعبہ میگزین میں قدم رکھا۔ ہال میں داخل ہوکر اِدھر اُدھر دیکھا، تو ہر شخص بڑے منظّم انداز سے سر جُھکائے کام میں مصروف نظر آیا۔ ایک صاحب سے میگزین ایڈیٹر، احفاظ الرحمٰن صاحب کے متعلق پوچھا تو انہوں نےشیشے کے کمرے کی طرف اشارہ کردیا۔ باہر ہی سے اندر نگاہ کی تو ایک بےحد نفیس، پرُوقار، جاذبِ نظر شخصیت کو کاغذوں پر سر جھکائے، بڑی محویت سے لکھتے پایا۔ 

دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی، تعارف کروایا تو بیٹھنے کو کہا اور نہایت سنجیدگی سے بولے ’’جی، مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ آج سے میگزین سیکشن جوائن کریں گی، یہ بتائیں کیا اس سے پہلے کبھی کچھ لکھا ہے؟‘‘ مَیں نے اپنے یونی ورسٹی اَسائنمنٹس کی کچھ کلپنگز سامنے رکھ دیں۔ (چوں کہ ماس کمیونی کیشن میں ماسٹرز ڈگری کے لیے لگ بھگ 25آرٹیکلز مختلف اخبارات میں شایع کروانا لازم تھا، تو وہ اُن ہی کی کلپنگز تھیں) ایک ایک آرٹیکل کھول کھول کے پڑھنے لگے۔ مَیں سامنے بیٹھی اُن کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی تھی کہ پتا نہیں معیار پر پورے اُتر رہے ہیں یا نہیں۔ ایک اتنی بڑی آرگنائزیشن، دنیا کا اردو کا سب سے بڑا اخبار اور اُس کے اتنے بڑے میگزین سیکشن کا سربراہ، اوپر سے انتہائی رعب دار، سحر انگیز شخصیت، جب کہ مَیں یونی ورسٹی کی ایک فریش ماسٹرز، جس نے اس سے پہلے جاب تو کیا، کہیں انٹرن شپ تک نہ کی تھی۔ 

کافی دیر فائل کھنگالنے کے بعد، چشمے کے اوپر سے میری جانب دیکھا، تو چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑ رہے تھے۔ میرا سرتاپا بغور جائزہ لیا اور کسی قدر بے یقینی سے پوچھا۔ ’’یہ سب آپ ہی نےلکھے ہیں؟‘‘’’جی سر…‘‘مَیں نے ڈرتے ڈرتے جیسے اقرارِ جرم کیا۔ ’’اچھا، کچھ کتابیں وغیرہ پڑھنے کا بھی شوق ہے؟‘‘ اُن کے لہجے کی نرمی سے اندازہ ہوا کہ میری تحریروں نے اُنہیں کم از کم مایوس نہیں کیا۔ ’’جی … جی سر‘‘ مَیں نے جلدی جلدی کئی موٹی موٹی کتابوں کےنام گنوا دیئے۔ ’’اچھی بات ہے، بہت اچھی بات ہے، ورنہ آج کل تو لوگوں کو کتابیں پڑھنے کا شوق ہی نہیں۔‘‘ یکایک اُن کا لہجہ شہد آگیں ہو گیا۔ میرا خوف بھی خاصا کم ہو چکا تھا۔ گویا میرا فرسٹ امپریشن ٹھیک رہا تھا۔ انہوں نے چپراسی کو بلا کر مجھے میری سیٹ دکھانے کو کہا اور خود دوبارہ کاغذوں میں گُم ہوگئے۔

میگزین سیکشن صبح دس بجے کُھلتا تھا۔ میری پہلی پہلی جاب تھی۔ اگلے دن صبح ساڑھے نو بجے ہی آفس پہنچ گئی۔ دروازے کےباہر ہی کھڑی تھی، جب وہ 10بجنے میں 10منٹ کم پر آفس پہنچے۔ انتہائی خوش پوشاک، خوش اطوار، خوش بوئوں میں بسے ہوئے، بہت بُردبار، پُروقار انداز میں سیڑھیاں چڑھتے اوپر آئے۔ مجھے سامنے دیکھ کر حیرانی سے بولے ’’آپ کب سے کھڑی ہیں یہاں؟‘‘ ’’بس، ابھی آئی ہوں سر‘‘ مَیں نے سر جُھکا کے جواب دیا۔ ’’تو گارڈ سے چابی لے کر دروازہ کھول لیتیں، باہر کیوں کھڑی ہیں؟‘‘ ’’جی سر…‘‘ ’’کل سے 10بجے آئیں۔‘‘ تنبیہ کرتے ہوئے لاک میں چابی گھما کے دروازہ کھولا۔ میری سیٹ ہال کے بالکل آخری سرے پر بنے کمرے میں تھی۔ وہ جب اپنے کمرے سے باہر نکلتے یا اندر داخل ہوتے، لامحالہ نگاہ پڑتی۔ اُن کے اِک اِک انداز میں انتہائی شائستگی و تمکنت تھی۔ 

اِک میں ہی کیا، پورا شعبہ میگزین اُن کی سحر انگیز شخصیت کا اسیر تھا۔ پورا ماحول سخت نظم و ضبط میں گندھا ہوا معلوم ہوتا۔ وہ کمرےسےباہر آتے، تو جیسے ہُو کا عالم طاری ہوجاتا۔ ابتدائی دنوں میں، مَیں اُن سے سخت خوف زدہ رہتی تھی۔ اُن کی طرف نگاہ اُٹھا کے دیکھنے کی بھی جرأت نہ ہوتی۔ رفتہ رفتہ اُن کی شخصیت کی پَرتیں کُھلنے لگیں۔ وہ تو انتہائی مہربان، ہم درد، نرم دل اور حد درجہ حسّاس انسان تھے۔ کسی کی ذرا سی تکلیف، پریشانی پر تڑپ اُٹھتے۔ اپنے اسٹاف کے اِک اِک فرد کی پوری خبر رکھتے۔ چپراسی سے لے کر صفحہ انچارجز تک ہر ایک کے مسائل سے بخوبی آگاہ رہتے۔ کام کے معاملے میں کوئی سمجھوتانہیں کرتےتھے۔ جھوٹ، کام چوری، سستی سے اُنہیں سخت چِڑ تھی۔ مگر محنتی، قابل لوگوں کی دل سے قدر کرتے اور انہیں اپنے دل کے بہت قریب رکھتے۔ پوچھنے، بتانے، سیکھنے، سکھانے کو ہر لمحہ تیار رہتے۔ انتہائی متحرک، چُست و توانا، وقت کے سخت پابند، ڈسپلن کے ایسے قائل کہ باس ہوتے ہوئے صبح سب سے پہلے دفتر آتے۔ ایسے صاف ستھرے کہ دن میں کوئی دس بار تو صابن سے ہاتھ منہ دھوتے، کھانے پینے کے قطعاً شوقین نہ تھے۔ 

بس، مختلف بسکٹس کے پیکٹس ساتھ رکھتے اور جو بھی اُن کے کمرے میں جاتا جتنی بارجاتا، اُسے ضرور کھانے کی پیش کش کرتے۔ جس کے ہاتھ میں بسکٹ نظر آتا، اندازہ ہوجاتا کہ وہ احفاظ صاحب کے کمرے سے ہوکر آیا ہے۔ ڈانٹتے بھی خُوب تھے۔ اُف! وہ اُن کے جملوں کی کاٹ، بہت تمیز، تہذیب کے ساتھ، آپ جناب میں لپٹی لپٹائی گفتگو سے ایسا شرمندہ کرتے کہ ایڑیوں تک پسینہ آجاتا۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ الف سے ی تک، جو کچھ سیکھا، اُن ہی سے سیکھا۔ اُن سے قلم پکڑنا سیکھا، تو لوگوں میں اُٹھنے بیٹھنے، بات کرنے، اپنی بات سمجھانے، تحریر کو مؤثر، خُوب صُورت بنانے سے لےکربامقصد زندگی گزارنے کے سب رنگ ڈھنگ بھی اُن ہی کے طرزِ عمل، اندازِ زیست سے سیکھے۔

احفاظ صاحب جب تک بحیثیت میگزین ایڈیٹر، روزنامہ جنگ سے وابستہ رہے، کم از کم ہم لوگوں کو (ان کی ٹیم کو) کسی انتظامی معاملے میں کبھی کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ہمارے دفتری معاملات سے لے کر ذاتی مسائل تک بس ایک اُن کا ہونا ہی کافی تھا۔ ہر شخص اُن کے سامنےجاکر اپنا دل ہلکا کرلیتا اور وہ جو بظاہر ایک سخت گیر باس تھے، کسی کی بڑی سے بڑی غلطی بھی اپنے سر لے کر ایک مضبوط ڈھال بن جاتے۔ آج تو گویا صحافتی معیارات کی دھجیاں بکھر چُکی ہیں۔ مگر 20 برس قبل تک صحافت، خصوصاً احفاظ الرحمٰن صاحب کی صحافت کے معیارات بہت اعلیٰ و ارفع تھے۔ ایک جملہ تو درکنار ایک لفظ یا حرف بھی غلط شایع ہو جانا اُن کے نزدیک گناہِ عظیم تھا۔ بے وزن اشعار، مصرعے دیکھ کر تو اُن کا خون کھول اُٹھتا۔ 

ابتداً مَیں نے بھی غلط مصرعے، شعر لکھنے پر اُن سے بہت ڈانٹ کھائی ہے۔ مجھے یاد ہے، جب غصّے سے قدرے بلند آواز میں کہتے کہ ’’کہاں سے ڈھونڈ کے لاتی ہو یہ بے وزن شعر؟‘‘ تو ایک روز بے اختیار ہی منہ سے نکل گیا ’’وہ سر… میری ڈائری…‘‘ ’’لے کے آئو، وہ ڈائری…‘‘ وہ زیادہ ہی جلال میں تھے۔ مَیں نے چپ چاپ اپنی ڈائریاں لاکے سامنے رکھ دیں ۔موتیے، گلاب کے خشک پھولوں کی خوشبو میں بسی، رنگا رنگ تصویروں سے سجی، لال، پیلی، نیلی روشنائی سے لکھی نوعُمری کے دِنوں کی وہ ڈائریاں دیکھ کر خلاف ِ توقع بہت زور سے ہنسے ’’آپ اندر سے ابھی تک ایک چھوٹی سی بچّی ہیں، آئندہ شعر لکھنے سے پہلے مجھے چیک کروا لیا کریں۔‘‘ اور اُس کے بعد دوبارہ زندگی میں کبھی کوئی شعر اُنہیں اور اُن کے ’’جنگ‘‘ سے چلے جانےکےبعد بھی کسی مستند شاعر کو چیک کروائے بغیر، تحریر میں استعمال کرنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔

احفاظ صاحب صحیح معنوں میں اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ اُن کی شخصیت کےاتنےحوالے، اتنے تعارف ہیں کہ صفحات کے صفحات سیاہ ہوسکتے ہیں۔ شان دار ادیب، بہترین کالم نگار، محقّق، مترجّم، شاعر، مصنّف۔ اور صحافت کےبےتاج بادشاہ تو وہ تھے ہی۔ پھر ایسے وضع دار، بااصول ٹریڈ یونینیسٹ کہ مرتے دَم تک کبھی اپنے نظریات، اصولوں پر کوئی سمجھوتا نہ کیا۔ ٹریڈ یونینز، پریس کلب کے معاملات میں جب سیاست کی آمیزش دیکھی، چُپ چاپ کنارا کش ہوگئے۔ انسان دوست، مزدور دوست، مظلوم دوست اور علم دوست۔ انہوں نے پوری زندگی قلم کی مزدوری کی۔ مگر وہ جو کیف اکبر آبادی کا شعر ہے ناں ؎ اے جذبۂ خودداری، جُھکنے نہ دیا تُونے… لکھنے کے لیے ورنہ سونے کے قلم آتے۔ تو جس طرح، انہوں نے مرتے دَم تک اپنی خودی، خود داری، اصول پرستی کے ساتھ اپنے قلم کا پورا پورا حق ادا کیا، کم ہی لوگ زندگی میں کرپائے ہوں گے۔ 

عُمر بھر اپنے قلم کی لاج، حرمت ایسی قائم رکھی کہ اُس کا کبھی غلط استعمال کیا، نہ اُس سے کبھی کوئی غلط لفظ نکلنے دیا۔ جب تک جنگ کے شعبہ میگزین کے سربراہ رہے، غلط العام الفاظ کی اصلاح ہی کرتے رہے۔ وہ اردو، فارسی، عربی، انگریزی کا ایک چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی اُن سے کسی لفظ کے معنی، اِملا پوچھے ہوں اور انہیں معلوم نہ ہوں بلکہ اتنی فصاحت و بلاغت سے سمجھاتے کہ لفظ حفظ ہوجاتا، دماغ سے چپک کے رہ جاتا۔ ایسے اَن گنت الفاظ، جن کی اِملا ہم بچپن ہی سے غلط لکھتے پڑھتے آرہے تھے، احفاظ صاحب نےچھوٹی چھوٹی پرچیوں پر اُن کی تصحیح کمرے کی دیواروں پر آویزاں کر رکھی تھی، تاکہ آتے جاتے نظر پڑتی رہے۔ اسٹاف کےکچھ لوگ شرارتاً اُسے ’’احفاظ الغات‘‘ کہا کرتے تھے۔ 

مثلاً ہم ہمیشہ ’’اژدحام، تراوٹ، خورد و نوش، دوکان، غیض و غضب، درستگی، ناراضگی‘‘ وغیرہ ہی لکھا کرتے، تو ان تمام الفاظ کی اِملا، تلفّظ احفاظ صاحب ہی نے درست کروایا۔ وہ ہر دور کے آدمی تھے، زندگی میں کبھی کچھ نیا کرنے، رسک لینے سے قطعاً نہیں گھبراتے تھے۔ اخبارات مینویل سے کمپیوٹرز پر منتقل ہوناشروع ہوئے، تو جنگ اخبار میں سب سے پہلے احفاظ صاحب نے اس سسٹم کو شعبہ میگزین میں ایڈاپٹ کیا۔ روزانہ کسی کمپوزر کو ساتھ لے کر بیٹھتے اور باقاعدہ کمپوزنگ کی مشق کرتے۔

مجھے عملی صحافت میں قدم رکھے غالباً چھے ماہ ہی ہوئے تھے، جب نواز شریف کے دوسرے دورِ اقتدار میں چیئرمین نیب، سیف الرحمٰن کے ہاتھوں روزنامہ جنگ سخت عتاب کا شکار ہوا۔ (جنگ کی بھی عجب تاریخ ہے، آمروں سے اِس کی کبھی بنی، نہ ہی نام نہاد جمہوریتوں کو ایک آنکھ بھایا) ہمارا نیوز پرنٹ روک لیا گیا۔ نتیجتاً اخبار سکڑ کر چند صفحات تک رہ گیا۔ میگزین کے صفحات پہلےچھوٹے ہوئے بعدازاں، بند ہی ہوگئے۔ اصولاًکئی لوگوں کو بے روزگار ہوجانا چاہیے تھا کہ کام ہی بند تھا، لیکن ہمارے مالکان اور پھر اُس دَور کے محمود شام اور احفاظ الرحمٰن جیسے معتبر، جیّد صحافیوں نے ہمارے حوصلے قائم رکھے۔ احفاظ صاحب حقیقی لیڈر تھے۔ انہوں نے مرد صحافیوں کے ساتھ ہم صحافیات کو بھی ایسا متحرک کیا کہ پھر ہم نے اُن کے ساتھ مل کر اقتدار کے ایوانوں کے سامنے، دفاتر، پریس کلب، سڑکوں پر احتجاج، مظاہرے کیے، تو بھوک ہڑتالیں بھی۔ مگر اس دوران انہوں نے قلم سے بھی تعلق ٹوٹنے نہ دیا۔ 

مجھے حکم دیاکہ جب تک صفحات بحال نہیں ہوجاتے، آپ ایک تفصیلی اَسائنمنٹ پر کام کریں اور پھر معروف ماہرِ تعلیم انتیا غلام علی کی آٹوبائیو گرافی لکھنے کو کہا۔ مَیں مسلسل کئی روز تک انیتا غلام علی کے آفس جاتی، اُن کی یادداشتیں ریکارڈ کرتی اور پھر آکر انہیں قلم بند کرتی۔ جب چند اقساط لکھ لیں، تو انہوں نے چیک کروانے کو کہا۔ اُس سے قبل میں مڈویک میگزین کے خواتین کےصفحات کےلیے فیچر، انٹرویو، سروے وغیرہ کر رہی تھی۔ آٹوبائیو گرافی کیا ہوتی ہے، کیسے لکھی جاتی ہے۔ سِرے سےکوئی آئیڈیا نہیں تھا۔ 4-3اقساط لکھ کر احفاظ صاحب کو دے تو دیں، لیکن گھر جاکر بھی روح کانپ رہی تھی کہ پتا نہیں، اب کل میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ 

کیوں کہ اس سے پہلے مَیں نے اپنی کوئی تحریر اُن کو براہ راست چیک نہیں کروائی تھی۔ مگر… وہ فون کال… وہ شاید میری زندگی کی پہلی فون کال تھی، جس نے مجھے صحیح معنوں میں میرے پورے قد کے ساتھ اپنے قدموں پر کھڑا کردیا۔ اس سے پہلے تو مجھے دوسروں ہی کے نقشِ پا پر چلنے کی عادت تھی۔ گھر کے نمبر پر احفاظ صاحب کی آواز سُن کر ہی میری آواز لرزنے لگی ’’جی…ای… سر…‘‘ ’’نرجس! آپ نے بہت اچھا لکھا ہے، بہترین۔ مجھے کہیں قلم لگانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔‘‘ مَیں فرطِ جذبات سے رو پڑی تھی، کیوں کہ مَیں احفاظ صاحب کے اُن الفاظ کا مطلب جانتی تھی کہ جس تحریر پر اُن کی لال سیاہی کا قلم نہیں لگا، اُس کا کیا مطلب تھا۔ مَیں نے احفاظ صاحب کی ایڈیٹنگ کےبعد اپنےساتھیوں کی تحریریں دیکھ رکھی تھیں، جن میں عموماً نیلی سیاہی کے الفاظ کم اور سُرخ سیاہی کے کہیں زیادہ ہوتے تھے اور بس، پھر میرے اور احفاظ صاحب کے بیچ اعتبار و اعتماد کا ایک ایسا مضبوط، لازوال رشتہ قائم ہوگیا کہ جو پھر کبھی نہ ٹوٹ سکا۔ حتیٰ کہ آج اُن کی دُنیا سے چلے جانے کے بعد بھی نہیں۔

احفاظ صاحب جب جنگ کے میگزین سیکشن سے چلے گئے، تو گویا علم و آگہی کا بہتا دریا خشک ہوگیا۔ اُن کے بعد سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ کچھ پوچھنا ہے، سمجھنا ہے، اصلاح لینی ہے، تو کس سے رجوع کیا جائے۔ حالاں کہ وہ جاتے ہوئے کہہ گئے تھے کہ آپ لوگوں کو کبھی آدھی رات کو بھی میری ضرورت پڑے، تو مَیں حاضر ہوں اور حقیقتاً انہوں نے اپنا یہ قول نبھایا بھی۔ مجھے زندگی میں جب کبھی، کسی بھی جگہ اصلاح ورہنمائی کی ضرورت محسوس ہوئی، اُنہیں فون کرلیا۔ اور مجھے یاد نہیں، انہوں نے کبھی کسی مصروفیت کا عذر پیش کیا ہو، ہمیشہ تفصیلاً رہنمائی کی۔ حالاں کہ وہ ایک معاصر اخبار کے میگزین ایڈیٹر تھے۔ بلکہ اگر کبھی ایک دو ماہ کا وقفہ آجاتا، تو خود کال کرلیتے اور عزیز حامد مدنی کے اُس مصرعے سے ؎ ’’گئے تو کیا تری بزمِ خیال سے بھی گئے‘‘ گفتگو کا آغاز کرتے۔ 

مَیں فوراً شرمندہ ہو کر صفائیاں دینے لگتی، تو ہنس کے کہتے ’’نہیں، بس آپ کی اور اہل ِخانہ، خصوصاً بٹیا کی خیریت دریافت کرنی تھی‘‘(وہ میرے بیٹی سے بےانتہا پیار کرتے، اکثر میرے دونوں بچّوں کے لیے نظموں، کہانیوں کی کتابیں بھیجتے) کبھی کبھی سیاسی، علمی و ادبی گفتگو کا موڈ ہوتا، تو پھر بے تکان بولے چلے جاتے۔ مَیں اِدھر سے صرف ’’جی سر… جی سر‘‘ ہی کہتی رہتی کہ اُن کی اتنی قدآور شخصیت کے سامنے مجھےاپناآپ ہمیشہ بہت بونا، بہت چھوٹا محسوس ہوا۔ کبھی آفس میں اُن کی کال آجاتی، تو جواب میں میری ’’جی… جی‘‘ سے سب کو اندازہ ہو جاتا کہ یا تو میں اپنے والد صاحب سے بات کر رہی ہوں یا احفاظ صاحب سے کہ دنیا میں دو ہی شخصیات ایسی ہیں کہ جن کی تعظیم مجھ پر اس طور واجب ہے کہ اُن کے سامنے الفاظ بھی ہاتھ باندھے، سرجُھکائے کھڑے رہیں اور اب اُن میں سے بھی ایک نہ رہی۔

اچانک ہی پتا چلا کہ احفاظ صاحب بیمار ہیں، اُن کو گلے کا کینسر ہوگیا ہے۔ مگر میرا وہ جرّی، بہادر، دلیر استاد، میرا روحانی باپ۔ انہوں نے اپنی مضبوط قوت ِ ارادی سے سرطان کو بھی شکست دے دی۔ گرچہ آزادیٔ صحافت کے لیے بلند ہونے والی سب سے دبنگ آواز خاموش ہوگئی۔ سرطان کے سبب احفاظ صاحب کی قوتِ گویائی متاثر ہوئی اور وہ بولنے، بات چیت کرنے سے محروم ہوگئے، لیکن انہوں نے ہمّت نہیں ہاری اور اپنی ساری توانائیاں لکھنے پڑھنے پر مرکوز کردیں۔ پڑھنے لکھنے کےتو وہ پہلے بھی رسیا تھے، مگر پھر تو اُن کی نظمیں، تراجم، تحریریں ایک کے بعد ایک منظرِ عام پر آنے لگیں۔ اکثر چھوٹے سے نوٹ کے ساتھ اپنی موضوعاتی نظمیں ای میل کرتے، ہر کتاب کی کاپی، انتہائی خوش خط تحریر میں ایک خُوب صُورت جملے اور دستخط کے ساتھ بھیجتے۔ 

مَیں تو اُن کے منہ سے اپنی پہلی تعریف سُن کر ہی خود کو ساتویں آسمان پر اُڑتا محسوس کرنے لگی تھی (سچ تو یہ تھا کہ اِک اُن کی تعریف کے بعد مجھے پھر کبھی کسی کی تعریف کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی) اپنی ہر کتاب پر جب وہ دستخط کے ساتھ لکھتے ’’انتہائی باصلاحیت، خُوب صُورت قلم کار، نرجس ملک کے لیے، جن کی ہر تحریر مجھے بہت متاثر کرتی ہے۔‘‘ تو عموماً ان کے موتی جیسے الفاظ میرے آنسوئوں ہی سے بھیگ جاتے۔

اکتوبر 2019ء میں بچّوں کے لیے لکھا اپنا آخری ناول ’’امید کا دِیا‘‘ مجھے تبصرے کے لیے بھیجا۔ ایک نئے نمبر سے ایس ایم ایس آیا۔ ’’نیشنل بُک فائونڈیشن‘‘ نے میرا نیا ناول ’’امید کا دِیا‘‘ چھاپا ہے، کاپی بھیج رہا ہوں۔‘‘ مَیں سمجھ نہ پائی، تو پوچھا ’’آپ کون؟‘‘ اور پھر وہی جواب ’’نرجس… گئے تو کیا تِری بزم ِ خیال سے بھی گئے؟‘‘ اور مَیں شدت ِ جذبات، شرمندگی سے بُری طرح رو پڑی (مجھے پتا تھا احفاظ صاحب کی طبیعت خاصی خراب ہے۔ سرطان سے شدید جنگ کے بعد اب اُن کے گردے بھی متاثر ہوگئے تھے۔ وہ باربار اسپتال آ جارہے تھے) مَیں نے سخت شرمندگی کا اظہار، معذرت کے میسجز کیے، تو مُسکراتے اموجیز بھیج کر ناول پر تبصرہ کرنے کو کہا۔ 

مَیں نے کہا ’’سر! مَیں پڑھ کے خود تبصرہ کروں گی۔‘‘ ’’اچھا، مگر زیادہ تعریفیں نہیں کرنا۔ ناول جیسا لگے، بس ویسا ہی لکھنا۔‘‘ مَیں نے ہمیشہ کی طرح ’’جی سر‘‘ کہہ دیا۔ اور پھر جب تبصرہ سنڈے میگزین کی 13؍ اکتوبر کی اشاعت میں شایع ہوا، تو اُن کا ایک طویل میسیج آیا‘‘ تم نے میرے بارے میں جو الفاظ لکھے ہیں، وہ میں Deserve نہیں کرتا۔ تم نے مجھے اپنا اور کئی صحافیوں کا استاد قرار دیا۔ یہ تمہارا ظرف، بڑا پَن ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ تم اپنی منفرد اور غیر معمولی صلاحیتوں کے سبب میرے دل کے بہت قریب ہو۔ یہاں تک کہ میرے الفاظ، میرے جذبات کی درست طور پر عکّاسی کے لیے ناکافی ہیں۔ ہمیشہ خوش رہو، اپنے خُوب صُورت دل اور بہت مضبوط رُوح کے ساتھ۔ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو۔‘‘ مَیں ہمیشہ کی طرح اُن کا ایس ایم ایس پڑھ کر شرمندہ ہوگئی، رو دی۔ اُن کا وہ آخری پیغام، اُن کے ساتھ ہونے والی وہ آخری چیٹ 6ماہ سے میرے موبائل فون میں محفوظ ہے، جسے میں اب تک سیکڑوں بار پڑھ چُکی ہوں۔

12؍اپریل 2020ء کی صبح جب خبر ملی کہ آج دنیائے صحافت کا ایک پورا عہد، ایک پوری تاریخ ختم ہوئی۔ علم و ادب کی ایک انتہائی معتبر سند، حوالہ اب ہم میں نہیں رہا۔ صحافت ایک انتہائی شفیق استاد سے محروم ہوگئی، تو دل جیسے مُٹھی میں آگیا۔ ساتھیوں کے ایک کے بعد ایک فون، پیغامات آنے لگے۔ احفاظ صاحب کی پہلی اور آخری محبت، اُن کی بہت پیاری، بہت بہادر اہلیہ مہناز رحمٰن نے بڑی ہمّت و حوصلے کے ساتھ فیس بُک پر اُن کی ترجمہ شدہ ایک نظم کے ساتھ اُن کی رحلت کی خبر شیئر کی، تو دنیا کے کونے کونے سے احفاظ صاحب کے دوست احباب، شاگرد اور ہم جیسے اُن کی محبت کے اسیروں نے اپنے دلی جذبات و احساسات کے اظہار کا سلسلہ شروع کردیا۔ 

جانتی تو میں پہلے بھی تھی کہ وہ ’’انسانیت‘‘ سےلبالب بَھرے، کتنے بڑے انسان تھے، لیکن اب تو ہر شخص ایک الگ ہی داستان سُنا رہا ہے۔ پتا نہیں وہ کتنوں کے مربّی تھے، کتنوں کے محسن، کتنوں کے دوست، کتنوں کے مونس و غم خوار، یاروں کے یار، تو دشمنوں کے بھی دوست۔ اللہ جانے انسان بھی تھے یا دیوتا۔ اُن کا جس سے جو تعلق تھا، وہ خود ہی بہتر جانتا ہوگا، لیکن میرا خدا شاہد ہے کہ مَیں اس بَھری دنیا میں اپنے والدین (ماں، باپ) اورشوہر کے بعد جس چوتھے شخص کی بے انتہا مقروض ہوں اور شاید مرتے دَم تک رہوں گی، وہ احفاظ الرحمٰن ہیں۔

ہوتی نہیں پھولوں کی مہکار سپردِ خاک…

احفاظ الرّحمٰن صاحب کی بیش تر نظمیں، غزلیں ایک بےحد حسّاس، ہم درد انسان کے اندرونی احساسات و جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ کہیں بھی کوئی خلافِ معمول بات، حادثہ، واقعہ، ظلم و زیادتی دیکھتے، اُن کے اندر کا انسان جیسے تڑپ اُٹھتا۔ اور مَن کی یہ جوت، لَو نائن الیون کے سانحے کے بعد زیادہ شدّت سے بھڑکی۔ بقول احفاظ صاحب 9/11 یقیناً ایک قابلِ مذمّت واقعہ تھا، لیکن اس کے بعد امریکی حکّام نے جس چنگیز خانی ردِعمل کا مظاہرہ کیا، اُس نے جذبۂ للکار، طیش کو ہوا دی اور یوں یکے بعد دیگرے کئی نظموں کی صُورت گری ہوئی۔ اِسی تناظر میں اُن کی ایک نظم ہے ’’ننّھی پلوشہ کی فریاد/ قندھار سے‘‘ ؎ لعل و گوہر نہیں مانگتی آپ سے… مُشک و عنبر نہیں مانگتی آپ سے…خِلعت و من و سلویٰ نہیں چاہتی… کوئی دل کش کھلونا نہیں چاہتی… میرے بابا نہیں، میری ماما نہیں… وہ کہاں ہیں، یہ کوئی بتاتا نہیں… رات اندھیری ہے، کوئی سہارا نہیں… کوئی جُگنو نہیں، کوئی تارا نہیں… مجھ کو تازہ ہوا، روشنی چاہیے… مُسکراتی ہوئی زندگی چاہیے… سر پہ سایہ فگن سائباں چاہیے… رحم دل، مہرباں آسماں چاہیے… کس طرف جاؤں، دھرتی لہو سے ہے تر… آسماں آگ اُگلتا ہے آٹھوں پہر… میرے چاروں طرف آگ ہی آگ ہے… موت کا سنسناتا ہوا راگ ہے۔ 

پھر اپنی حد درجہ لاڈلی بیٹی کے لیے ’’ایک دُعا‘‘ لکھی کہ ؎ مولا اپنی چھاؤں میں رکھنا… داتا اپنے پاؤں میں رکھنا… آئینے پہ گرد نہ آئے… ان آنکھوں کو روشن رکھنا… ہاتھوں کی خوش بُو نہ چُھوٹے… گُل فشاں یہ دامن رکھنا۔ اِسی طرح اپنے بہت پیارے دوست بیٹے، رمیز کے لیے بھی ایک نظم ’’ننّھا جادوگر‘‘ کے عنوان سے تحریر کی ؎ اِک ننھّا سا جادوگر ہے… ہاتھ میں اُس کے بڑا ہُنر ہے… دنیا اُس کی آنکھوں میں ہے… رَس کا دریا باتوں میں ہے… چاند ستارے دامن میں ہیں… سارے پُھول اُسی کے دَم سے … اِس صحرا، اِس گلشن میں ہیں… وہ ہنس دے، تو دنیا ہنس دے… وہ روئے تو دنیا رو دے… روز نیا اِک کھیل دِکھائے… جب چاہے توتا بن جائے… جب چاہے مینا بن جائے… دل اُس کا خوش بُو کا گھر ہے… اِک ننّھا سا جادوگر ہے۔

آہ! ؎ زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔ آسمانِ صحافت کا چمکتادمکتاستارہ اُفق کے پار ڈوب گیا۔ صحافت یتیم ہوگئی۔ نظریۂ انسانیت کا پیروکار، ایک زندہ شاعر، ہم سے ہمیشہ کے لیے روٹھ گیا۔ وہ جو دوسروں کے دُکھ، درد پر چِلّا اُٹھتا تھا۔ بے اختیار ہی کوئی دل گداز سی نظم ہو جاتی تھی۔ آج اُن کی رخصتی پر اُن کے ہم دمِ دیرینہ، دَورِ حاضر کے مقبول شاعر، فاضل جمیلی نے اپنے خُوب صورت اندازِ بیاں میں اُنھیں ایک شان دار خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔؎ اظہار ہوا رخصت، للکار سپردِ خاک… تکرار خدا حافظ، انکار سپردِ خاک… اب دھوپ ہی قسمت ہے ہم راہ نوردوں کی…سایا سا کیے تھی جو دیوار سپردِ خاک… جاتے ہوئے موسم سے کچھ پھول ہیں وابستہ… ہوتی نہیں پھولوں کی مہکار سپردِ خاک… کچھ لوگ کہ محفل سے جاکر بھی نہیں جاتے… کچھ ربط نہیں ہوتے یک بار سپردِ خاک… افکار تو زندہ ہیں دفنائے نہیں جاتے… کر آئے ہیں ہم اُس کی تلوار سپردِ خاک۔

تازہ ترین