اسلام آباد (طا ہرخلیل) سینیٹر میاں رضا ربا نی نے کہا ہےکہ ملک میں کرونا وائرس کے حوالے سے آج جو کچھ ہو رہا ہے ،یوں لگتا ہے کہ 1973کا دستور 1962کے آئین کے سائے تلے آگیا ہے، پارلیمنٹ کی غیر فعالیت نے کرونا وائرس فنڈز، امداد کی تقسیم وفراہمی اور لوگوں کے ذاتی ڈیٹا کے غیر قانونی استعمال نے 1973کے دستور ی ،شہری حقوق اور پارلیمنٹ کی با لا دستی پر کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ سب ادارے ،فیکٹر یاں کام کر رہی ہیں،صرف ایک ادارہ ڈس فنکشنل ہےاور وہ پارلیمنٹ ہے جس کا اجلاس یہ خوف پیدا کر کے نہیں بلایا جا رہا کہ پارلیمنٹ کا اجلاس ہو نے سے وائرس پھیل جا ئے گا۔جمعہ کو نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہو ئے انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ کی غیر فعالیت نے اسکی خود مختا ری اور بالادستی کا تصور بھی ختم کر دیا ، 1973 کے دستور نے پاکستان میں اداروں کے مابین اختیارات کی تقسیم کا جو تصور دیا تھا اس کا وجود بھی معطل ہو گیا ہے، ایگز یکٹو اور عدلیہ کے ادارے کچھ رکا وٹوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں ،فیکٹر یاں اورکنسٹر کشن شعبے کی صنعتیں کھل سکتی ہیں مگر پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں ہو سکتا ، اس کا الزام صرف ایگز ایکٹو پر عائد نہیں کیا جا سکتا بلکہ بات تو یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے بھی سر نڈر کر دیا ہے ،پارلیمنٹ کی عدم موجود گی میں آ ئین کی طرف سے دیئے گئے بنیادی حقوق بھی نظر انداز ہورہے ہیں ، رضا ربانی نے اس امر پر اظہار تشویش کیا کہ ملک کے ساڑھے گیارہ کروڑ موبائل فون صارفین اور شہریوں کا ذاتی ڈیٹاکو غیر قانونی طور پر استعمال کیا گیا ، سائبر مجرم اس صورتحا ل کے ذمہ دار ہیں جو اس ڈیٹا کو چوری کر کے لوگوں سے پیسے موصول کر رہے ہیں ۔