• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سیکریٹری سے لے کر حکومت تک ہر بااختیار افسر تجربے کرتا رہتا ہے۔ اگر ہم پچھلے 72برس کی ملکی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو سب سے زیادہ تجربے شعبہ تعلیم اور صحت میں کیے گئے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام تجربے ہی ناکام رہے۔ بارہ تیرہ ایجوکیشن پالیسیاں آئیں، سینکڑوں ایجوکیشن کانفرنسیں ہوئیں، ہر وزیر تعلیم نے اپنے دورِ اقتدار میں کئی کئی غیر ملکی دورے ملک کی تعلیمی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے کئے۔ نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پتا نہیں کس کے مشورے پر 1972میں پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والے کئی بہترین تعلیمی ادارے سرکاری ملکیت میں لے لئے۔ تعلیم کا معیار بہتر ہوا یا نہیں، یہ علیحدہ بحث ہے البتہ اساتذہ کو 17سے 20تک گریڈ ضرور مل گیا۔ 1972ء سے 2001ء تک یہ تعلیمی ادارے سرکار کی ملکیت رہے۔ 2001ء میں مشرف حکومت نے سرکاری ملکیت میں لئے گئے بعض تعلیمی ادارے ان کے مالکان، اداروں اور انجمنوں کو واپس کر دیے۔ ان 29برسوں میں آنے والی ہر حکومت نے ان تعلیمی اداروں کی عمارتوں کی تزین و آرائش اور مرمت پر کروڑوں روپے خرچ کئے، بعض تعلیمی اداروں میں نئی عمارتیں بھی تعمیر کی گئیں۔ فرنیچر، سائنس لیبارٹریوں، اسپورٹس کے سامان فراہم کرنے کے لئے لاکھوں روپے خرچ کئے گئے، ایف سی کالج، کنیرڈ کالج سمیت کئی دیگر کالج ان کی سابقہ انتظامیہ سے کوئی پیسہ لئے بغیر ان کے حوالے کر دیے گئے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کئی اسکولوں کو انگلش میڈیم سے اردو میڈیم کر دیا گیا، پھر دوبارہ ان اسکولوں کو انگلش میڈیم کر دیا گیا۔

اب ایک اور خوفناک اور تعلیم دشمن قدم اٹھایا جا رہا ہے۔ سرکاری کالجوں سے ایم اے/ ایم ایس سی ڈگری کو ختم کیا جا رہا ہے اور پرائیویٹ بی اے اور ایم اے کرنے کی سہولت بھی ختم کی جا رہی ہے۔ 2021ء کے بعد کوئی طالبعلم ایم اے اور بی اے کا پرائیویٹ امتحان نہیں دے سکے گا۔ حکومت بی اے/ بی ایس سی ایسوسی ایٹ ڈگری کا دوسالہ کورس متعارف کرا رہی ہے۔ تاحال ایچ ای سی (ہائر ایجوکیشن کمیشن) نے کسی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا، نہ کسی سرکاری کالج کو اس بارے میں بتایا گیا ہے کہ ایسوسی ایٹ بی اے/ بی ایس سی کا نصاب کیا ہو گا؟ یوں لگتا ہے کہ جو لوگ پرائیویٹ بی اے اور ایم اے کر کے اپنی تعلیمی قابلیت کو بڑھا لیتے ہیں یا جو لوگ صبح کہیں ملازمت کرتے ہیں اور رات کو گھر پر بی اے/ ایم اے کی تیاری کر کے امتحان دیتے ہیں، ان کے لئے ایچ ای سی نے تعلیم کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دینے کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔ کسی حکومتی رکن کو اس بات کی خبر نہیں۔

اس وقت حکومت اور عوام دونوں کورونا وائرس میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایچ ای سی نت نئی پالیسیاں بنا رہا ہے جس پر اساتذہ کی تنظیمیں احتجاج بھی کر چکی ہیں۔ جب بہت زیادہ شور مچ جائے گا تب حکومت جاگے گی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اس ملک کے کئی بیورو کریٹس اور پالیسی بنانے والے جنہوں نے خود پرائیویٹ بی اے اور ایم اے کرکے مقابلے کا امتحان پاس کیا ہے، بھی خاموش ہیں۔ کچھ دیر کے لئے یہ بات مان لی جائے کہ ایچ ای سی یہ اسٹوڈنٹس، جنہیں خام مال کہا جا رہا ہے، تیار کرکے انہیں دوسرے ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے لئے تیار کر رہا ہے تو ایچ ای سی کے اس موقف سے ہم اختلاف کریں گے۔ آج کتنے فیصد لوگ باہر کے ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔ ہمارے عوام تو سرکاری کالجوں/ یونیورسٹیوں کی فیسیں ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں، چہ جائیکہ وہ باہر کے ممالک میں جا کر تعلیم حاصل کر سکیں۔ ویسے بھی اب باہر ممالک کے حالات پہلے جیسے نہیں کہ کوئی بھی جا کر باہر سے پڑھ کر آ جائے۔ بی اے/ بی ایس سی ایسوسی ایٹ وہی دو سالہ بی اے/ بی ایس سی ہے، صرف اس کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ایم اے اور ایم ایس سی کو ختم کرنا بہت بڑی زیادتی ہو گی۔ ہمارے ہاں لوگوں کی اکثریت بی اے/ بی ایس سی (دو سالہ کورس) ایم اے/ ایم ایس سی (دو سالہ کورس) کے فوراً ملازمت کرنا چاہتی ہے کیونکہ اکثریت بڑے مشکل حالات میں ایک ایک پیسہ جمع کرکے تعلیم حاصل کرتی ہے۔ والدین قرضہ لے کر، محنت مزدوری کرکے بچوں کو پڑھاتے ہیں، ایسی پالیسیاں جو تعلیم دشمن ہوں، ان کو لاگو نہیں کرنا چاہئے۔

دوسری جانب ایچ ای سی کا یہ کہنا ہے کہ اساتذہ اور ریسرچ اسکالرز صرف بین الاقوامی مجلوں میں ہی اپنی تحقیق شائع کرائیں، اس سے ریسرچ کرنے والوں کے لئے مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ آج تک ہمارے کئی اساتذہ اور ریسرچ اسکالرز کی تحقیق ملکی جرنلز میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ تحقیقی مجلات کی نئی پالیسی سے پاکستان میں تحقیق کرنے والوں میں بددلی پھیلے گی۔ دوسری طرف مقامی طور پر شائع ہونے والے تحقیقی جرنلز کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ غیر ملکی جرنلز میں کسی بھی ریسرچ اسکالر کو کئی برس انتظار کرنا پڑے گا، دوسرا اسے خاصی رقم ادا کرنا پڑے گی۔ اگر کوئی ادارہ کوئی پالیسی بناتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ حکومت اور متعلقہ اراکین سے مشاورت کرے۔ اسے پارلیمنٹ میں لایا جائے۔ بی اے/ بی ایس سی پروگرام کا نام تبدیل کرنے کی آخر کیا ضرورت ہے؟ دوسری جانب بی ایس چار سالہ کورس بھی جاری ہے۔ اگر آپ ایم اے/ ایم ایس سی کا پروگرام ختم کر دیں گے تو بی اے/ بی ایس سی ایسوسی ایٹ کے بعد یہ اسٹوڈنٹس ماسٹرز پروگرام میں داخلہ کہاں لیں گے؟ پنجاب یونیورسٹی میں ہر سال سوا دو لاکھ اسٹوڈنٹس پرائیویٹ بی اے کا امتحان دیتے ہیں۔ نئی پالیسی سے ان اسٹوڈنٹس کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔

تازہ ترین