جمیل الدین عالی
جیون بھر تو عالی جی نے پریم ترانے گائے
وقت کی لے بدلی تو یہ بھی گیت نئے لے آئے
جس کی گاڑھی کھری کمائی مفت میں تم نے کھائی
آج سے پہلے عالی جی تمہیں اس کی یاد نہ آئی
جیتے جیتے لہو کے دریا جس نے روز بہائے
عالی جی کبھی تم نے اس پر دو آنسو نہ گرائے
لوہے جیسے تن اور من سب بنتے جائیں راکھ
اور تم پتھر بن کر چاہو پارس جیسی ساکھ
چھایا مانگے اور پھل مانگے پنچھی سا مزدور
عالیؔ تیری کویتا ایسی جیسے پیڑ کھجور
جس کی رنگت ہلدی جیسی جس کی جان عذاب
اس کو بھول کے تونے عالیؔ سونگھے سرخ گلاب
مورکھ اب بھی آنکھیں کھول اور دیکھ سمے کے کھیل
ٹوٹ رہی ہے سوکھ رہی ہے ظلم کی اک اک بیل
مزدور اور کسان سے مل جا انہی سے ناتا جوڑ
ان سے ناتا جوڑ لے عالیؔ اور رکھیو یہ یاد
جھوٹ نے اب تک کیسے کیسے کوی کیے برباد
عشق چھپے اور مشک چھپے اور جوبن تک چھپ جائے
سچا بول اور چھوٹی کویتا کبھی نہ چھپنے پائے