کورونا یا کووِڈ۔19کی وبا نے چند ہی ماہ میں دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ انفیکشن SARS-COV-2 نامی وائرس کے ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ وائرس بنیادی طور پر SARS فیملی سےتعلق رکھتا ہے۔ جو2000ء میں SARS-COV اور 2013ء میں MERS-COV کے نام سے عالمی سطح پر پھیلا۔ سائنسی تحقیق سے ثابت ہواہے کہ SARS-COV-2 وائرس دراصل SARS-COV وائرس ہی سے جینیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ارتقاء پذیر ہوا۔
طبّی ماہرین کے مطابق SARS-COV-2 وائرس انفیکشن کا آغاز اپنی Spike نامی پروٹین سےکرتا ہے۔یہ پروٹین ابتدا میں انسانوں میں موجود ایک پروٹین Angiotensin -converting enzyme 2(ACE 2)(اینجیو کنورٹنگ اینزائم 2)سے جاکر جڑتی ہے ،جس سے انفیکشن کا آغاز ہوتا ہے۔ جس طرح حالیہ SARS-COV-2 جینیاتی تغیرات سے وقوع پذیر ہونے والے ارتقاء سے وجود میں آیا، بالکل اسی طرح انسانی پروٹین ACE2 میں بھی جنیاتی تغیرات پائےجاتے ہیں جو یہ سوال جنم دیتے ہیںکہ کیا انسانوں میں موجود ACE2 کی تبدیلیاں قدرتی طور پر وائرس کو جڑنے سے روک سکتی ہیں؟اس ضمن میں ڈاؤ کالج آف بایوٹیکنالوجی کے وائس پرنسپل ڈاکٹر مشتاق حسین اور ان کی سربراہی میں کام کرنے والی ٹیم نے،جس میں جامعہ کراچی کےشعبہ خردحیاتیات کی ڈاکٹر نصرت جبیں، ڈائو کالج آف بایو ٹیکنالوجی کی طالبات ،تنیاء شبیر، فوزیہ رفا، انوشہ امان اللہ، عائشہ اشرف بیگ اور بسمہ عزیز شامل ہیں، مل کر تحقیق کی۔ان کی اس تحقیق کی تفصیلات عالمی جریدے ’’جرنل آف میڈیکل وائر ولوجی ‘‘ میں بھی شائع ہوئی ہے۔
اس تحقیقی سلسلے میں ڈاکٹر مشتاق اور ان کی ٹیم نے ایک ہزار انسانوں کے جینیاتی ڈیٹا بیس سے استفادہ کرکے اپنی تحقیق کا موضوع ACE 2 جین اور پروٹین میں موجود 400 تغیرات کو بنایا ۔اس بارے میں ڈاکٹر مشتاق حسین کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر ACE2 پر پائے جانے والے 400سے زائد تغیرات سے 17تبدیلیاں ان مخصوص مقامات پر پائی گئیں جن سے انسانی ACE2 وائرس کی Spike پروٹین سے جڑتا ہے ۔ڈاکٹر مشتاق اور ان کی ٹیم نے 17 تبدیلیوں کا اثر ACE2پروٹین کی ساخت پر،پروٹین ماڈلنگ نامی طریقہ کار سے معلوم کیا ۔ علاوہ ازیں مزید مالیکو ڈاکنگ کے ذریعےیہ پتا لگا یا گیا کہ ACE 2میں پائی جانے والی تبدیلیاں وائرس کے Spikeپروٹین سے جڑنے میں مزاحمت کرسکتی ہیںیا نہیں ۔نتیجتاً انسانی ACE2 میں پائےجانے والی دو ایسے تغیرات E329Gا ور S19Pکی شناخت ہوئی جوممکنہ طور پر SARS-COV 2وائرس کی Spikeپروٹین کے جڑنے میں مزاحمت کرسکتی ہے ۔ڈاکٹر مشتاق کا کہنا ہےکہ جن انسانوں میں یہ تبدیلیاں پائی جائیں گی ،ان میں ممکنہ طور پرSARSوائرس کا انفیکشن نہیں ہوگا اور وہ قدرتی طور پر وائرس کے انفیکشن سے محفوظ رہیں گے ۔
ڈاکٹر مشتاق حسین نے بتایا کہ ڈیٹا مائننگ میں جن انسانی جینوم کی ڈیٹا مائننگ کی گئی ان میں چین ، لاطینی امریکا اور بعض یورپی ممالک شامل تھے ۔ایک اہم بات یہ ہے کہ مذکورہ تجزیے میں ACE 2 میں مذکورہ تغیرات کی شرح نہایت کم پائی گئی ۔ پاکستان میں موجود کورونا وائرس اور دیگر ممالک میںموجود کورونا وائرس میں کیا فرق ہے ؟اس بارے میں ڈاکٹر مشتاق حسین نے بتا یا کہ پاکستان میں اب تک کورونا وائرس کے جتنےبھی ٹیسٹ ہوئے ہیں ان میں صرف دو کا جینوم سیکوئنس کیا گیا۔ان میں سے ایکNustاور ایک Arid Green universityنے کیاہے ۔پھر ان دونوں ٹیسٹ کو NCBI کی جانب سے Accession Numberملا ،جس کی مدد سے آپ اس کا وائرس سے موازنہ کرسکتے ہیں اور پروٹین کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔اس دوران سائنس دانوں نےبارہ مقامات پر تبدیلی دیکھی ۔ اس وائرس کی طاقت ووہان میں موجود پہلے وائرس کی طاقت سے کافی زیادہ ملتی جلتی ہے ۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ AIDS کا وائرس (HIV) بھی بعض انسانوں میںپائی جانے والی جینیاتی تبدیلیوں کے باعث قدرتی طور پر حملہ آور نہیں ہوسکتا ۔لیکن SARS-COV 2وائرس کے حوالے سے کی جانے والی یہ پہلی تحقیق ہے ۔اس تحقیق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجا سکتاہےکہ اسے نہ صرف امریکی جریدے ’’جرنل آف میڈیکل وائرولوجی ‘‘نے شائع کیا بلکہ اس تحقیق کو عالمی ادارہ صحت نے کورونا کے سلسلے میں ہونے والی تحقیق کی فہرست میں شامل کیا ہے ۔علاوہ ازیں ایک امریکی یونیورسٹی Washington university school of medicisنے اس تحقیق کو اپنے سائنس کلب کے مباحثے میں شامل کیا ہے ۔
ڈاکٹر مشتاق حسین کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے نتیجے میں طبی سہولتوں کے بہتر استعمال میں مدد حاصل ہوگی ۔یہاں یہ بات بھی قابل فخر ہے کہ پاکستانی سائنس دانوں کی اس تحقیق کو بنیاد بنا کر دنیا کے کئی بڑے بڑے سائنسی اداروں نے اس سے منسلک دیگر کئی سائنسی تجزیات کا آغاز کردیا ہے ۔بلاشبہ کورونا وائرس پر تحقیق پاکستانی سائنس دانوں کی کورونا کے خلاف سائنسی جنگ میں ایک اہم کاوش ہے۔اس تحقیق کی مدد سے کورونا وائرس کے پھیلائو کی کم یا بہت زیادہ رفتارکو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی اور اس پر تحقیق اور معالجے کی نئی راہیں بھی کھلیں گی ۔