اُردو دُنیا کے نام ور شاعر، جون ایلیانے بہت خُوب صورت بات کہی تھی کہ ’’ہم حِسین ترین، امیر ترین، ذہین ترین اور زندگی کے ہر حوالے سے بہترین ہوکر بھی آخرکار مر ہی جائیں گے۔‘‘ اس سے ثابت ہوا کہ کوئی کتنا ہی امیر ترین ہو، شہرت کی بلندیوں کو چُھورہا ہو، اسے اس دُنیا سے رخصت ہونا پڑتا ہے۔ بلاشبہ موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ 29؍ اپریل 2020ء اور 30؍ اپریل 2020ء بالی وڈ کے لیے ہی نہیں، بلکہ جہاں جہاں ہندی اور اردو فلمیں دیکھی جاتی ہیں، یہ بہت اداس دن تھے۔ بالی وڈ کے دو سپر اسٹار پہلے عرفان خان اور پھر رومانس کے شہزادے رشی کپور بھی اس دُنیا سے چلے گئے۔ یہ دونوں فن کار پاکستان سے پیار کرتے تھے۔
دونوں میں ایک بات مشترک سامنے آئی۔ رشی کپور نے 1990ء میں زیبا بختیار کے ساتھ بہ طور ہیرو فلم ’’حنا‘‘ میں کام کیا، جب کہ عرفان خان نے 2017ء میں ’’ہندی میڈیم‘‘ نامی فلم میں پاکستان کی صفِ اوّل کی فن کارہ صباقمر کے ساتھ بہ طور ہیروکام کیا۔ یہ فلم سپرہٹ ثابت ہوئی۔ تین برس قبل صبا قمر سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ ان کی فلم کا ہیرو اتنی جلدی دُنیا سے چلا جائے گا۔ رشی کپور نے ہمیشہ پاکستان کے مختلف شہروں میں دل چسپی کا اظہارکیا۔ 2013ء میں پاکستان کے سپر اسٹار علی ظفر بالی وڈ میں رشی کپور کے ساتھ فلم ’’چشمِ بددور‘‘ میں بہ طور ہیرو کام کیا۔
اس فلم نے شان دار بزنس کیا اور دونوں ممالک میں دل چسپی سے دیکھی گئی۔ وراسٹائل اداکار رشی کپور کی زندگی پر ایک نظر دوڑائیں، تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے اپنے دور کے سپر اسٹارز کے ساتھ سائیڈ ہیرو کا کردار نبھا کر بھی خودکو کام یاب ثابت کیا۔ انہوں نے امیتابھ بچن کے ساتھ فلم قلی، نصیب، کبھی کبھی، امر،اکبر، انتھونی، عجوبہ، فیملی، دہلی6 اور 27؍ برس کے وقفے کے بعد ناٹ آئوٹ 102 وغیرہ میں کام کیا اور ان فلموں میں اپنے کرداروں کے ساتھ مکمل انصاف کیا۔
اداکار رشی کپور 4؍ ستمبر 1952ء کو پیدا ہوئے اور 30؍ اپریل کو ممبئی میں وفات پاگئے۔ کپورخاندان میں پیدا والے اس وراسٹائل فن کار نے کئی سپرہٹ فلمیں دے کر خاندان کا نام روشن کیا۔ راج کپور کے نام اورکام سے کون واقف نہیں ہوگا۔ رشی کپور، راج کپور کے صاحب زادے تھے۔ 1980ء میں رشی کپور کی شادی اداکارہ نیتو سنگھ سے ہوئی، جو شادی سے قبل رشی کے ساتھ کئی سپرہٹ فلموں میں کام کرچکی تھیں۔
تاہم انہوں نے شادی کے بعد فلم انڈسٹری کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا تھا۔ رشی اور نیتو سنگھ کے ہونہار صاحب زادے رنبیر کپور بالی وڈ کے صفِ اوّل کے فن کار مانے جاتے ہیں۔ 29؍ اپریل 2020ء کو رشی کپور کی طبیعت اچانک خراب ہوئی، تو انہیں ممبئی کے ایک اسپتال لے جایا گیا، جہاں وہ 30؍ اپریل 2020ء کو اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ وہ گزشتہ دو تین برسوں سے علیل تھے اور سرطان کے مرض میں مبتلا تھے۔ اس خطرناک مرض سے بہادری کے ساتھ جنگ لڑ رہے۔انہوں نے ایک سال تک امریکا میں بھی علاج کروایا ، مگر وہ سرطان کے خلاف جنگ ہارگئے۔
ان کے فنی کیریئر کی بات کی جائے، تو 1973ء میں ریلیز ہونے و الی فلم ’’بوبی‘‘ نے انہیں سپر اسٹار بنادیا تھا۔ انہوں نے اپنا فنی کیریئر بہ طور چائلڈ اسٹار شروع کیا۔ فلم شری 420 اور ’’میرا نام ہے جوکر‘‘ میں بہ طور چائلڈ اسٹار عمدہ کام کیا، لیکن انہیں صحیح معنوں میں عروج 80ء اور 90ء کی دہائی میں حاصل ہوا۔ ان بیس برسوں میں ان کی ایک سے بڑھ کر ایک فلم ریلیز ہوئی۔ رشی کپور کی فلموں کے گانے بھی بے حد مقبول ہوتے تھے، انہوں نے امیتابھ بچن سے عمران ہاشمی تک تمام ہیروز کےساتھ کام کیا۔ فلم ’’دی باڈی‘‘ ان کے کیریئر کی آخری فلم ثابت ہوئی۔
رشی کپور کی مقبول فلموں میں بوبی، کھیل کھیل میں، کبھی کبھی، امر، اکبر، انتھونی، لیلی مجنوں، یہ وعدہ رہا، پریم روگ، نگینہ، ہم کسی سے کم نہیں، چاندنی، دیوانہ، اگنی پتھ، نمستے لندن، دامنی، کھوج، زمانے کو دکھانا ہے، طوائف، حنا، بول رادھا بول، انمول، چشمِ بدور، یارانہ سمیت دیگر فلمیں شامل ہیں۔ ان کی زیادہ تر فلمیں محبت اور رومانس کے گرد گھومتی تھی۔ فلم ’’پریم روگ‘‘ 1982ء میں ریلیز ہوئی، تو ہر طرف پدمنی کولہاپوری اور رشی کپور کی دُھوم مچ گئی۔ اس فلم کی کہانی جان دار اور موسیقی نے سب کے دلوں کے تاروں کو چُھولیا۔ ’’بھنورے نے کِھلایا پھول، پھول کو لے گیا راج کمار‘‘، ’’یہ گلیاں یہ چوبارا، یہاں آنا نہ دوبارہ‘‘، ’’محبت ہے کیا چیز‘‘۔ جیسے سدا بہار گیت آج بھی ہماری سماعتوں میں رس گھولتے ہیں۔
رشی کپور نے اس فلم میں دیو کا غیر معمولی کردار نبھایا تھا، جو فضول رسوم کے خلاف جنگ لڑتا ہے۔ اسی طرح 1989ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’چاندنی‘‘ میں رشی کپور اور سری دیوی نے شان دار کام کیا۔ یہ ایک رومانس سے بھرپور فلم تھی۔ شائقین فلم نے اسے بھی پریم روگ کی طرح بار بار دیکھا۔ آج بھی یہ فلم بہت پسند کی جاتی ہے۔ اس کے گیت ’’چاندنی او میری چاندنی‘‘، ’’لگی آج ساون کی پھر وہ جھڑی ہے‘‘، ’’میں سسرال نہیں جائوں گی، ڈولی رکھ لو سنبھال کے‘‘ اور ’’میرے ہاتھوں میں نو نو چوڑیاں‘‘ ایک سے بڑھ کر ایک رومانٹک گیت نے تمام ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ رشی کپور اور سری دیوی کی کیمسٹری بھی اسکرین پر جادو جگارہی تھی، اس فلم میں رشی کپور نے کبھی فلم بینوں کو خوب ہنسایا، تو کبھی بہت رُلایا۔ 1992ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’دیوانہ‘‘ میں شاہ رخ خان پہلی بار متعارف ہوئے اور انہوں نے رشی کپور کے ساتھ مل کر عمدہ کام کیا۔
رشی کپور نے اپنے جونیئر فن کار کی بھرپور حوصلہ افزائی کرکے اسے سپراسٹار بنادیا۔ اس فلم میں رشی کپور پر فلمائے ہوئے کئی گیت مقبول ہوئے، خاص طور پر ’’کبھی بھول گئے، کبھی یادرہا‘‘ کو بہت پسند کیا گیا، یہی گانا اور سین فلم کی جان تھے۔ 1995ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’یارانہ‘‘ میں مادھوری ڈکشٹ اور رشی کپور کو بے حد سراہا گیا۔ اس فلم کا ایک گیت ’’مورا پیا گھر آیا‘‘ بے حد مقبول ہوا۔ 1993ء میں ریلیز ہونے والی سپرہٹ مووی ’’دامنی‘‘ میں انہوں نے میناکشی کے شوہر کا جان دار کردار ادا کیا۔ 1992ء میں جوہی چائولہ کے ساتھ ’’بول رادھا بول‘‘ میں عمدہ پرفارمنس دی۔ مادھوری ڈکشٹ شاید واحد ہیروئین ہیں، جنہوں نے پہلے رشی کپور کے ساتھ ’’مورا پیا گھر آیا‘‘ میں رقص کیا اور پھر کئی برس کے وقفے کے بعد ان کے صاحب زادے رنبیرکپور کے ساتھ آئٹم سونگ ’’گھاگھرا‘‘ میں غیر معمولی پرفارمنس دی۔
رشی کپور نے اپنے فنی سفر میں ہر طرح کے کردار ادا کیے، ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ہر کردار میں حقیقت کا رنگ بھردیں۔ پاکستانی فن کاروں سے ان کی فیملی کو گہرا لگائو رہا ہے۔ 1980ء میں جب رشی کپور کی شادی نیتو سنگھ کے ساتھ ہوئی، تو راج کپور نے پاکستان سے استاد فتح علی خان کو خصوصی طور پر قوالی کی محفل کے لیے مدعو کیا۔ استاد فتح علی خان، استادنصرت کے والد اور استاد راحت کے دادا تھے۔ 1990ء میں فلم ’’حنا‘‘ کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں رشی کپور پہلے لاہور آئے اور فلم کے مختلف سین شوٹ کیے، بعدازاں وہ اپنے آبائی شہر پشاور بھی گئے۔ انہیں پشاور سے بے حد لگائو تھا۔ وفات سے قبل بھی وہ وزیراعظم عمران خان سے درخواست کرچکے تھے کہ پاکستان آکر پشاور دیکھنا چاہتے ہیں، مگر موت نے انہیں مہلت نہیں دی اور وہ دُنیا سے چلے گئے۔بالی وڈ کا ایک ہنستا، مُسکراتا چہرہ اپنے لاکھوں مداحوں کو اُداس کرگیا۔
فلم’’ بوبی‘‘نے رشی کپور کی زندگی کس طرح بدلی
فلم ’’بوبی‘‘ میں سائن ہونے کے لیے رشی کپور نے اپنے ڈیڈ پر بے حد دباؤ ڈالا، تب کہیں جاکر انہیں اس فلم میں چانس دینے کے لیے وہ راضی ہوئے، لیکن انہوں نے شرط عاید کی کہ ’’اگر تم یہ فلم کرنا چاہتے ہو، تو تمہیں اپنا وزن کافی حد تک کم اور ڈائٹ کنٹرول چارٹ پر عمل کرنا ہوگا! ہیرو بننے کے لیے رشی کچھ بھی کرسکتے تھے، کیوں کہ یہ اُن کا جنون تھا اور بچپن سے جو خواب دیکھتے آئے تھے’’بوبی‘‘ کی صورت میں اُس کی تعبیر انہیں ملنے والی تھی! رشی نے صرف چھے ماہ کی مدت میں بیس پاؤنڈز سے زیادہ وزن کم کرکے اپنے ڈیڈ سے کیا گیا وعدہ پورا کردیا۔
جس کے بعد اُنہیں اندازہ ہوگیا کہ ان کا بیٹا رشی اپنے جنون اور لگن کے حوالے سے کتنا سنجیدہ ہے۔ ’’بوبی‘‘ میں ڈمپل کو فلم کی ہیروئین کاسٹ کیاگیا تھا، جس کی عمر اس وقت صرف 14 سال تھی اور اس کی امیج اسکول گرل کی تھی۔ رشی کے ڈیڈ چاہتے تھے کہ رشی اس اسکول گرل کے ساتھ مِس فٹ نہ لگیں، اس لیے انہوں نے ان کے لُکس پر بے حد محنت کی۔ ’’بوبی‘‘ باکس آفس پر ہٹ ثابت ہوئی اور اسی کے ساتھ بالی وڈ میں ایک اور اسٹار سن کا جنم ہوا! اس حوالے سے رشی کا کہنا تھا کہ ’’بوبی‘‘ کو میں اپنے کریڈٹ پر ایک ایسی فلم قرار دوں گا، جس نے مجھے اوور نائٹ فیم سے نوازا اور مجھے اسٹار بنادیا!دراصل، اس کام یابی کے بعد ہی مجھے معلوم ہوا کہ اسٹارڈم کا چارم کیا ہوتا ہے! ’’بوبی‘‘ ٹین ایجرز کی فلم تھی، جس میں ان کے احساسات اور جذبات کو بڑے خُوب صورت انداز سے نمایاں کیا گیا! فلم کا میوزک بھی بے حد پسند کیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ ڈمپل کے ساتھ میری جوڑی بھی ہٹ ہوگئی۔
رشی کپور کی ہیروئنیں!!
نیتو سنگھ اور ڈمپل کے علاوہ جن دیگر ہیروئنز کے ساتھ رشی کی جوڑی ہٹ ہوئی۔ ان میں ٹینا منیم، پدمنی کولہا پوری، پونم ڈھلون، جوہی چائولہ، مادھوری ڈکشت، سری دیوی اور دیویا بھارتی وغیرہ شامل ہیں۔ انہیں دیویا بھارتی کی حادثاتی موت کا بہت افسوس رہا۔ فلم ’’ پریم روگ‘‘ میں پدمنی کولہا پوری اور ’’چاندنی‘‘ میں سری دیوی کے ساتھ رشی کپور کو بے حد پسند کیا گیا۔
رشی نے’’آ اب لوٹ چلیں ‘‘ کیوں بنائی تھی؟
بہ طور ڈائریکٹر میں نے جب اپنی پہلی فلم ’’آ اب لوٹ چلیں ‘‘ بنائی تھی، تو اُس میں بھارت اور پاکستان کے باسیوں کو یہ پیغام دیا تھا کہ ہمیں آپس کے اختلافات بھُلا کر ایک ہوجانا چاہیے! دُنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں اس نظریئے کی ضرورت پہلے سے زیادہ اہمیت اختیار کرگئی ہے۔’’آ اب لوٹ چلیں ‘‘ میں ایک میسج دیا گیا تھا کہ اپنے اپنے وطن سے دور امریکا میں بسنے والے پاکستانی‘ بھارتی اور بنگالی ایک ہیں ‘ وہ ایک دوسرے کے مسائل‘ دُکھ اور تکالیف میں ساتھ ہوتے ہیں ! یہ کوئی فینٹسی نہیں ہے، بلکہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے ہندو مسلم اور سکھ کو ایک دوسرے کے لیے تڑپتے اور روتے دیکھا ہے۔ وطن سے دور بسنے والے بھارتی اور پاکستانیوں کی محبت اور یگانگت کی تصویرکشی میں نہیں کرسکتا، لیکن یہ درست ہے کہ ہماری معاشرت اور رہن سہن میں بڑی حد تک مماثلت ہے اور ہم لوگ اچھے پڑوسی ہوسکتے ہیں۔
مجھے پاکستان جانے اور ایک مرتبہ پھر اپنا شہر پشاور دیکھنے کی شدید خواہش ہے۔ اوپر والے نے چاہا تو دونوں ممالک کے حالات جلد معمول پر آجائیں گے اور پھر نہ صرف ہم ایک دوسرے کے گھروں میں وزٹ کرسکیں گے، بلکہ تجارتی اور معاشی تعاون بھی ممکن ہوگا۔ ہماری فلمیں ایک جیسی ہوتی ہیں، ہماری کہانیاں ملتی جُلتی ہیں، تو پھر ہم کوپروڈکشن کیوں نہیں کرسکتے! ہم نے فلم ’’حنا‘‘ بنائی، جس کی شوٹنگ پاکستان میں بھی کی۔ میری خواہش ہے کہ وہاں کے آرٹسٹوں کے ساتھ ایک مکمل پروجیکٹ پاکستان میں شروع کروں، تاکہ کم از کم ثقافتی سطح پر تو رابطے بحال ہوسکیں۔
جب علی ظفر کے لیے رشی کپور’’جھینگے کا سالن‘‘ بناکر لائے!!
پاکستان کے نام ور گلوکار اور اداکار علی ظفر نے بھارتی اور پاکستانی فلموں میں خُوب نام کمایا۔ 2013ء میں انہوں نے بالی وڈ مووی’’ چشمِ بددور‘‘ میں رشی کپور کے ساتھ کام کیا تھا۔ دُنیا سے رخصت ہونے والے بھارتی لیجنڈ اداکار رشی کپور کو یاد کرتے ہوئے علی ظفر کا کہنا ہے کہ رشی کپور مجھ میں اپنی جوانی دیکھتے تھے۔ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ رشی کپور کی فلم کا گانا ’’زندگی کے دن‘‘ میرے بچپن کی یادوں میں سے ایک خاص یاد ہے۔ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ کسی فلم میں رشی کپور کے ساتھ رقص کرنے کا اعزاز حاصل کرسکوں گا۔ ’’چشم بددور‘‘ میں رشی کپور کے ساتھ پہلا سین عکس بند کروانے کے بعد میرے احساسات ناقابلِ بیان تھے۔
وہ درازقد شخصیت کے مالک تھے، ہم ایک دوسرے سے میوزک اور آرٹ کے بارے میں طویل گفتگو کرتے تھے، جب کہ انہیں پاکستان کے حوالے سے گفتگو کرنے میں دل چسپی رہتی تھی۔ رشی کپور نے مجھے خصوصی طور پر ’’جھینگے کا سالن‘‘ کھلایا تھا اور اس کے بعد سے آج تک میں’’جھینگا سالن‘‘ کا شیدائی ہوں۔ رشی کپور مجھے متعدد بار کہتے تھے کہ وہ مجھ میں اپنی جوانی دیکھتے ہیں۔ مجھے جب معلوم ہوا کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، تو میں اُن کی عیادت کے لیے اُن کے پاس پہنچا اور اُنہیں بتایا کہ وہ میرے خواب میں آئے تھے۔ میری یہ بات سن کر وہ بہت خوش ہوئے تھے۔
بیٹے رنبیر کپور کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا!!
رشی کپور اپنی کتاب’’ کھلم کُھلا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ان کے بیٹے رنبیر کپور نے شاذ و نادر ہی اُن سے کبھی کُھل کر بات کی ہو۔ رنبیر اپنی ماں سے زیادہ باتیں کرتا ہے۔ رشی کپور کے مطابق انھوں نے رنبیر کے کیریئر میں کبھی مداخلت نہیں کی۔ اگرچہ انھیں رنبیر کی ابتدائی فلموں پر اعتراض تھا، لیکن رشی کپور کا خیال تھا کہ فلم ’’برفی‘‘ سے رنبیر کا کام بہتر ہوا۔
رشی کپور نے رنبیر کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں لکھا کہ ’’مجھے نہیں معلوم کہ آگے کیا ہوگا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے بچّے کیا کریں گے۔ مجھے نہیں معلوم کہ مستقبل میں میرے اور ڈبّو کے بچّے ہمارے ساتھ کیسا سلوک کریں گے۔ وہ آر کے بینر کو کیسے زندہ رکھیں گے اور اس میراث کو آگے کیسے لے جائیں گے۔‘‘