• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وائرس سے متاثرہ معیشتیں بیروزگاری کی دوسری لہر کیلئے تیار

لندن : ڈیلفائن اسٹراس

اقتصادی ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ بیروزگاری کی دوسری لہر ترقی یافتہ معیشتوں کو بھی نقصان پہنچاسکتی ہے اگرچہ حکومتیں لاک ڈاؤن کو بتدریج ختم کررہی ہیں ،جیسا کہ کاروباری ادارے مسلسل سماجی دوری کے دور میں کام کرنے کی اپنی صلاحیتوں کا زا سرنو جائزہ لے رہے ہیں۔

رواں ہفتے جاری ہونے والے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے گئے اقدامات کے نتیجے میں لیبر مارکیٹ کو نقسان پہنچا ہے۔امریکا میں 38 ملین سے زائد افراد نے بیروزگاری مالی امداد کیلئے نئے دعویٰ دائر کیے، جبکہ لاک ڈاؤن کے آغاز سے 30ملین سے زائدبیروزگار افراد مالی امداد لے رہے ہیں۔یورپ میں بیروزگاری کے سرکاری اعدادوشمار کو اصل کے مقابلے میں کم کرکے دکھایا جارہا ہے تاہم پانچ بڑی معیشتوں میں قومی حکومتوں کی جانب سے جاری کردہ اعداد شمار بتاتے ہیں کہ 35 ملین سے زائد ملازمی اپنی تنخواہ کاکچھ حصہ ریاست کی ان اسکیموں سے حاصل کررہے ہیں جو آجروں کو اپنے ملازمین کو طویل رخصت پر بھیجنے اور لاگت کا دوبارہ دعویٰ کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔

جرمنی کی فیڈرل ایمپلائمنٹ ایجنسی نے رواں ہفتے کہا کہ اس کی قلیل المدتی رخصت اسکیم اب 10 ملین سے زائد ملازمین پر محیط ہے جو گزشتہ اندازوں سے دو گنا ہے اور افرادی قوت کا پانچواں حصہ بنتا ہے۔فرانس میں گزشتہ ہفتے میں دس لاکھ ملازمین کو چیومیج پارٹیل کے مساوی اسکیم میں شامل کیا گیا ہے،جس سے مجموعی طور پر 11.3ملین تعداد ہوگئی جو افرادی قوت کا ایک چوتھائی ہے۔

یورپی مرکزی بینک کی صدر کرسٹین لیگارڈ نے اس ہفتے کہا کہ لیبر مارکیٹ کے حالات بڑے پیمانے پر خراب ہوئے ہیں،جبکہ امریکی فیڈرل ریزرو کے سربراہ جے پال نے کہا کہ حالیہ برسوں میں ملازمت کے ثمرات دل دہلا دینے والا منظر ہے ،جس سے اقلیتی برادریوں میں کم آمدنی والے افراد کو سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔

جے پال نے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ شاید ہمارے لئے بیروزگاری کی عمومی سطح پر واپس آنے میں کچھ وقت لگےکہا کہ آنے والے ہفتہ میں آنے والے اعدادوشمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ 50سال میں ڈبل ڈیجٹ میں کم ہوکر دوماہ کے عرصے میں امریکا میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن نے پیشن گوئی کی ہے کہ 2020 کی دوسری سہہ ماہی میں اوقات کار میں فوری کمی 300سے زائد کل وقتی ملازمتوں کے نقصان کے برابر ہوگا۔

اب بڑا سوال یہ ہے کہ ایک بار حکومتیں لاک ڈاؤن کو آسان بنانے اور معیشت کے حصوں کو دوبارہ کھولنے میں مصروف عمل ہوجائیں گی تو کتنے لوگ اپنی ملازمتوں پر واپس جاسکیں گے ، یا نئی ملازمتیں تلاش کریں گے۔

اب تک پالیسی سازوں نے کاروباری اداروں کی آمدنی میں قلیل المدتی نقصان سے بحالی کیلئے امداد پر توجہ مرکوز رکھی،تاکہ وہ اپنے رخصت پر بھیجے گئے ملازمین کو ان کی ملازمتوں پر بحال رکھیں اور تنخواہوں کی ادائیگی کریں۔تاکہ پابندیوں کے خاتمے کے بعد کمپنیوں اور وسیع معیشت کو پوری صلاحیت سے جلد واپس آنے میں مدد ملے ۔

ڈوئچے بینک کے چیف یورپی ماہر اقتصادیات مارک وال نے کہا کہ یہاں تک کہ اس منظر نامے میں ، آپ ایک بڑے جھٹکے کی بات کر رہے ہیں۔انہوں نے مزیدکہا کہ یوروزون کی بیروزگاری کی شرح وباء سے قبل تقریباََ سات فیصد کے مقابلے میں دو گنا یا تین گنا ہوسکتی ہے۔

اب بیشتر اقتصادی ماہرین کو جی ڈی پی کو قلیل المدتی جھٹکا بڑا ہونے کی توقع ہے اور حکومتوں کو ابتداء میں جو امید تھی اس کے مقابلے میں بحالی کیلئے طویل عرصہ درکار ہے۔

او ای سی ڈی کی لیبر مارکیٹ کی ماہر معاشیات آندریا گارون نے کہاکہ کاروباری اداروں اور افراد کیلئے بحال سست ہوگی، ایڈجسٹمنٹ طویل ہوگی اور مشکل کے بغیر نہیں ہوگی۔تمام عوامی مقامات کو دوبارہ منظم کرنا پڑے گا،اور مجھے یقین نہیں ہے کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے فوری بعد ہی ہم اخراجات کی جلد بازی کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکی ریاستوں کےنقل و حرکت کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مینڈیٹ لاک ڈاؤن کے ساتھ یا اس کے بغیر ، جب تک صحت کے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں ، لوگ معمول کی سرگرمیوں کو دوبارہ شروع نہیں کریں گے۔

تعلقات عامہ کے شعبوں کی کمپنیوں نے یہ تسلیم کرنا شروع کررہی ہیں کہ وہ معمول کے مطابق کاروباری سرگرمیاں دو بارہ شروع نہیں کرسکیں گی اور مزید کام نہ ہونے کی وجہ سے اضافی ملازمتوں کا سامنا کررہی ہیں۔

طیارہ ساز کمپنی بوئنگ نے رواں ہفتے کہا تھا کہ وہ اپنی افرادی قوت کا دس فیصد کم کردے گی،جبکہ برٹش ایئر ویز نے کہا ہے کہ اسے 12 سو ملازمتوں میں کمی کرنا ہوگی اور کم لاگت والی کیریئر ریانائر نے کہا کہ اسے 3000 ملازمتوں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

دریں اثناء اسپین میں آجروں نے تنخواہوں کی امدادی اسکیموں میں توسیع کا مطالبہ کررہے ہیں اور برطانیہ کے ہاسپٹیلیٹی کاروبار انتباہ کررہے ہیں کہ وہ سخت سماجی فاصلاتی اقدامات کے ساتھ کام کرنے کی لاگت پوری نہیں کرسکتے،جو کہ بیروزگاری کی لہر کے خدشے کی نشاندہی کررہی ہے ایک بار اگر حکومت رخصت پر گئے عملے کی تنخواہوں کیلئے امداد میں کمی شروع کردی۔

مسٹر وال نے کہا کہ ہم گھبرا رہے ہیں کہ ان جزوی روزگار اسکیموں میں یہ غیر مرئی بے روزگاری زیادہ نظر آئے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ کاروباری ناکامیوں میں اضافہ ہوتا جائے گا اور آپ جزوی طور پر بیروزگاروں کو بتدریج مکمل بیروزگاروں میں بدلتے دیکھیں گے۔بیرن برگ کے ماہر معاشیات فلوریئن ہینس نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ یورپی حکومتیں اس نقصان پر قابو پانے کے لئے تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے امدادی اسکیموں میں اضافہ اور توسیع کریں گی۔تاہم انہوں نے مزید کہا کہ انہیں ابھی بھی توقع نہیں کہ آئندہ سال موسم گرما سے پہلے بے روزگاری میں کمی آجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ دوسری لہر نصف سال یا 12 ماہ کے اندر آسکتی ہے،جب آخر کار ہمارے پاس اس حوالے سے کافی شواہد ہیں کہ کتنی کمپنیاں اس بحران سے دوچار ہوئیں اور کتنی نہیں۔

تازہ ترین