• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج بیس رمضان ہے، آج سے چودہ سو سال پہلے انسانی تاریخ کا ایک ایسا حیرت انگیز واقعہ پیش آیا جو اپنی مثال آپ ہے۔ مکہ مکرمہ کے مقدس شہر جہاں سے مسلمانوں کو بے سرو سامانی کی حالت میں نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا گیا تھا ،وہ آٹھ سال بعد وہاں اس شان و شوکت سے داخل ہو رہے تھے کہ دنیا کی کوئی طاقت ان کا راستہ روکنے کے قابل نہ تھی۔ قریش ِمکہ کی جانب سے اپنے رشتہ دار مسلمانوں کے خلاف بدترین مظالم کی تفصیلات جان کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں،کیسے بہیمانہ انداز میں معصوم انسانوں کو حق بات کہنے پر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا ، پیغمبر اسلام کواپنے آبائی وطن سے ہجرت کرنا پڑی ، بعد میں بھی مسلمانوں کیخلاف سازشیں کی گئیں، انہیں نقصان پہنچانے کیلئے کوئی کسر نہ چھوڑی گئی، ان پر جنگیں مسلط کی گئیں لیکن مسلمانوں کی جب عظیم الشان انداز میںمکہ واپسی ہوئی تو اللہ کے آخری نبی ﷺ نے عام معافی کا وہ بہترین راستہ اختیار کیا کہ آج بھی دنیا کا ہر سمجھدار اور امن پسند انسان قیام امن کیلئے اسے اپنے لئے مشعل ِ راہ سمجھتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں خدا کی رحمت تمام دنیا پریکساں برستی ہے اور ہمیں موقع ملتا ہے کہ ہم اس عظیم مہینے کے دوران انسانیت کے پیغام کو عملی طور پر اپنی زندگیوں میں نافذ کر یں۔ بطور تاریخ کے طالب علم میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں فتح مکہ جیسے تا ریخ ساز واقعات سے سبق سیکھنا چاہئے جنہوں نے دنیا پر ان گنت اثرات مرتب کئے ہیں،میری نظر میں فتح مکہ انسانی تاریخ کا وہ ناقابل فراموش واقعہ ہے جس نے عام معافی ، صبر، اخوت، برداشت اور رواداری جیسی اعلیٰ روایات کو عملی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔ پاکستان کے مقبول ترین جیوٹیلی وژن نیٹ ورک کا ایک بڑا کارنامہ ہالی وڈ کی شہرہ آفاق فلم دی میسج کو اردو زبان میں ڈب کرنا ہے، مشرق وسطیٰ کے ممالک کے اشتراک سے بننے والی یہ فلم پیغمبر اسلام کی مکہ کی ابتدائی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات، مدینہ ہجرت، قریش مکہ کے ساتھ عسکری تصادم، صلح حدیبیہ، فتح مکہ اور حج الوداع کے آخری خطبے جیسے اہم واقعات کا احاطہ کرتی ہے، آج سے لگ بھگ 44سال قبل انگریزی اور عربی زبان میں منظرعام پر آنے والی اس فلم نے عالمی سطح پر مقبولیت کے ریکارٖڈتوڑ دئیے تھے، جیوٹی وی نے اردو زبان سمجھنے والوں کیلئے پیغامِ عظیم کے نام سے آن ایئرکرکے رہتی دنیا کیلئے مجھ جیسے ان تمام انسانوں پر احسان کردیا جو اللہ کے آخری پیغمبر کی حیاتِ مبارکہ کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا چاہتے ہیں، اس فلم کا کلائمکس نہایت متاثر کن ہے ، مسلمان قریش ِ مکہ کی جانب سے دس سالہ امن کے معاہدے کی خلاف ورزی پر سخت خفا ہیں، پیغمبر اسلام مکہ کی جانب کوچ کا ارادہ فرماتے ہیں تو ان کا ساتھ دینے کیلئے عرب قبائل جوق در جوق شامل ہوتے چلے جاتے ہیں، وہ لوگ جنہیں نہایت بے بسی کے عالم میںمکہ سے بے دخل کیا گیا تھا، آٹھ سال بعد ایک بڑی طاقت کی صورت میں واپسی کیلئے پرعزم نظر آتے ہیں۔ مسلمان مکہ میںاس اعلان کے ساتھ داخل ہوتے ہیں کہ کوئی دروازہ نہ توڑا جائے، کسی کو نقصان نہ پہنچایا جائے، جو خانہ کعبہ میں موجود ہے امن میں ہےاورجو اپنے گھر کے اندر موجود ہے امن میں ہے ۔مسلمانوں کی جانب سے یہ اعلان سن کرسردار مکہ ابوسفیان کی بیوی ہندہ تبصرہ کرتی ہے کہ شکر ہے کوئی طوفان نہیں آیا، جواب میں ابوسفیان متاثر کن انداز میں تاریخی کلمات ادا کرتا ہے کہ طوفان تو آیا لیکن دلوں پر آیا،اللہ کے پیغمبرنے اپنے اعلیٰ اخلاق اور اچھے برتاؤ سے سب کو ہمیشہ کیلئے جیت لیا۔فتح مکہ کے بعدآپ ﷺ نے نہ خود بدلہ لیا اور نہ کسی کو لینے دیا، ان لوگوں میں ایسے شدید مخالفین بھی شامل تھے جنہوں نے ماضی میں مسلمانوں کو بے تحاشا ایذا پہنچائی لیکن پیغمبر اسلام نے عملی طور پر ایک بار پھر ثابت کردیا کہ آپ پوری دنیا کے لئے رحمت العالمین ہیں، آپ کا پیغام دنیا کے لئے امن، محبت، بھائی چارہ، برداشت، درگذر اور رواداری ہے۔ میری نظر میں فتح مکہ کے عظیم الشان واقعے سے ہرسمجھدار انسان کو تین درس حاصل کرنے چاہئیں۔ نمبر ایک، انسان کو اپنی زندگی میں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اگرخدا پر بھروسہ کرتے ہوئے درست سمت کی جانب درست انداز میں مسلسل جدوجہد جاری رکھی جائے توآخرکار نیک مقصد کے حصول میں کامیابی اس کے قدم چومتی ہے۔ نمبر دو، اگر آپ حق پر ہیں تو دنیاجتنی شدت سے مخالفت کرے، راستے میں روڑے اٹکائے لیکن خدا کا یہ وعدہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ اپنے بندوں کی مدد فرماتا ہے۔ فتح مکہ کے واقعے سے تیسرا اہم سبق برداشت ،اعلیٰ اخلاق اور درگزرسے متعلق ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتلاتا ہے کہ دنیا میں بے شمار طاقتور فاتحین بادشاہ گزرے ہیں جنہوں نے مخالفین پر فتح حاصل کرنے کے بعد شہر کے شہر برباد کردئیے، خون کی ندیاں بہا دیں، دشمنوں کو اہل خانہ سمیت قتل کردیا لیکن اللہ کے آخری نبی نے عام معافی کا راستہ اختیار کرکے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اگر آپ اپنی ذاتی انا سے بالاتر ہوکرانتقام کی بجائے خالصتاََ اللہ کی رضا کی خاطر اپنے بدترین دشمن کو بھی معاف کر نے کا حوصلہ رکھتے ہیں تودرحقیقت آپ نے دشمنی کا باب ہمیشہ کیلئے بند کرکے امن کی راہ ہموار کردی۔ آج بیس رمضان المبارک کے دن ہمیں یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم اپنی زندگیوں میں برداشت، درگزر اوررواداری کو اپنائیں گے اور کسی صورت خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہوں گے، ہم اپنے نیک مقصدکے حصول کیلئے جدوجہد کو جاری رکھیں گے، مخالفین کے ہتھکنڈوں سے کبھی دل برداشتہ نہیں ہوں گے اورزندگی کے کسی موڑ پر انتقام کا راستہ اختیار نہیں کریں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین