کراچی (ٹی وی رپورٹ) وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے کہا ہے کہ مکمل لاک ڈاؤن ممکن نہیں ،ہمارا کام سہولتیں دینا عوام کا کام تعاون کرنا ہے، انڈسٹریز کھول دی ہیں مگر مزدور کا وہاں تک جانے کا راستہ پبلک ٹرانسپورٹ ہی ہے اسی لئے اسے بھی کھولنے کا کہا ،نیب کے الزامات شہباز شریف پر ہیں جواب ان کو دینا ہے اگر وہ جواب نہیں دیں گے تو سوالات اٹھیں گے،ہمیں تو معلومات ان ہی کے لوگ دے رہے ہیں،نیب اور حکومت کا کوئی گٹھ جوڑ نہیں ۔وزیرریلوے شیخ رشید احمد نے کہا کہ شہباز شریف نواز شریف سے زیادہ کرپٹ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نیب قانون میں ترمیم کرنے کا ہوا تو تو میرا ووٹ اس کے خلاف ہوگا،انہوں نے کہا ایماندار ی سے کہتا ہوں کہ شہباز شریف کے خلاف کیس میرٹ پر ہے، شہباز شریف اور ان کی اولاد نے بہت بڑے گھپلے مارے ہیں ۔ رہنما ن لیگ عظمیٰ بخاری نے کہا کہ میرا سوال یہ ہے کہ نیب کی انویسٹی گیشن لیک کیسے ہوجاتی ہے ، کون کرتا ہے ، وزراء کو کیسے پتہ چلتا ہے کہ عید کے بعد یہ ہونے جارہا ہے ، یہ ہوجائے گا،حکومت کا مسئلہ الزام لگانا ہے اور یہ الزام ہی لگارہی ہے،وفاقی وزیر شیخ رشید کہتے ہیں ہم صوبوں کے ماتحت نہیں یہ نالائق لوگ ہیں ، بکنگ سے ملنے والی 24کروڑ روپے کی رقم واپس کرنے کو بھی پیسہ نہیں ،ریلوے دیوالیہ ہوجائے گا تنخواہیں دینے کے پیسے بھی نہیں۔ان خیالات کا اظہار ان رہنمائوں نے جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان “ میں میزبان شہزاد اقبال کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کاکہنا تھا کہ این سی او سی میں ٹرانسپورٹ کے حوالے سے ابتدائی طور پر سارے صوبے راضی تھے مگر صوبہ سندھ کی رائے کچھ مختلف تھی جب ہم انڈسٹریز کھول رہے ہیں ، دیگر دفاتر کھول رہے ہیں تو پھر ٹرانسپورٹ نہیں ہوگی تو اداروں میں کام کرنے والا طبقہ کیسے اپنے دفاتر اور انڈسٹریز تک پہنچ سکے گا ۔ اس سوال کہ صوبہ سندھ کا اعتراض تو یہ ہے کہ این سی سی کی میٹنگ میں ٹرانسپورٹ نہ کھولنے کا فیصلہ ہوا تھا کہ جواب میں شبلی فراز نے کہا بزنس کمیونٹی کا سب سے زیادہ احتجاج تو سندھ میں ہوا تھا جس کے بعد سندھ نے انڈسٹریز کھولیں اسی طرح ایس او پیز کے ساتھ ٹرانسپورٹ بھی کھولی جاسکتی تھی کیونکہ غریب طبقے کی سواری ہی پبلک ٹرانسپورٹ ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری بنیادی پالیسی یہی تھی کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے یہاں سانپ سے مراد کورونا ہے اور لاٹھی سے مراد لوگوں کی گزر بسر ۔ انہوں نے کہا مکمل لاک ڈاؤن یعنی کرفیو ممکن نہیں ہے اس لئے بطور حکومت اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے ہم عوام کے لئے آسانی بھی پیدا کرنا چاہیں گے ۔ ہمارا کام سہولتیں دینا اور عوام کا کام تعاون کرنا ہے اگر کوئی تعاون نہیں کرے گا تو پھر اس کے خلاف کارروائی بھی کریں گے ۔ اب یہ انڈسٹریز والوں ، دفاتر والوں اور ٹرانسپورٹ والوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایس او پیز فالو کروائیں اگر نہیں ہوں گے تو پھر ان کو بند کیا جائے گا ۔ اس وقت ضروری ہے روزگار اور معیشت کا چلنا اس لئے پہلا قدم ہم نے اس جانب اٹھایا ہے آہستہ آہستہ ہم صورتحال دیکھ کر ہوٹلز بھی کھولیں گے ، ریسٹورانٹ بھی کھولیں گے ، اسکول اور کالجز بھی کھول دیں گے ۔مجالس بھی تو ہوئی ہیں بڑے بڑے جلوس بھی تو نکلیں ہیں اب یہ ثبوت ہمیں دینا ہے ہم ایک ذمہ دار قوم ہیں یا نہیں ہیں ۔ کرپشن وائرس پر قابو پانے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات نے کہا نیب کے الزامات شہباز شریف پر ہیں جواب ان کو دینا ہے اگر وہ جواب نہیں دیں گے تو سوالات اٹھیں گے ،بینک ٹرانزیکشن سے کبھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے، رقم کس کے اکاؤنٹ سے نکل کر کس کے اکاؤنٹ میں گئی ، کس نے نکالی سب کو معلوم ہوچکا ہے ہم جو بات کرتے ہیں ثبوت کے ساتھ کرتے ہیں ،ہمارے پاس ثبوت ہیں ، ریفرینس بھی بنے گا ۔اس سوال کہ جب نیب آزاد ادارہ ہے اور وہ ریفرینس بنائے گا تو پھر ثبوت حکومت کے پاس کیسے آگئے ،اسے کیونکر نیب نیازی گٹھ جوڑ کہا جارہا ہے ، احتساب عدالت کررہی ہے یا حکومت ؟کے جواب میں شبلی فراز نے کہا یہ کوئی راکٹ سائنس تو نہیں ، اب یہ تو عمل بہت سادہ ہوگیا ہے آپ کے شناختی کارڈ سے سب پتہ چل جاتا ہے ، اب تو بینک ٹرانزیکشن کی معلومات انکم ٹیکس والے بھی نکال لاتے ہیں ۔ گٹھ جوڑ کوئی نہیں ہے اگر گٹھ جوڑ ہوتا تو جو لوگ لندن اور دیگر جگہوں پر چلے گئے ہیں آج سب اندر ہوتے ۔ ہم تو ثبوت کے ساتھ کرپشن ثابت کررہے ہیں۔ اس حوالے سے معلومات لینا کوئی بڑی بات نہیں اوران ہی کی پارٹی کے لوگ ہیں جو ہمیں یہ ثبوت لاکر دیئے ہیں ۔ اس سوال کہ کیا نیب سے حکومت انفارمیشن لے سکتی ہے کے جواب میں شبلی فراز نے کہا اس حوالے سے میرے پاس معلومات نہیں میں جواب نہیں دے سکتا ۔ تاہم ثبوت ان کے پاس ہیں یا نہیں لیکن یہ ثبوت ہم جمع کرائیں گے ۔ اس سوال کہ یہ کیسے پتہ چلا کہ یہ رقم کک بیکس کی ہے کے جواب میں انہوں نے کہا جن لوگوں کو پکڑا گیا ہے انہوں نے اس کا اعتراف کیا ہے۔ رہنما پاکستان مسلم لیگ ن عظمیٰ بخاری نے اپنی گفتگو میں کہا حکومت کا مسئلہ الزام لگانا ہے اور یہ الزام ہی لگارہی ہے پہلے فرنٹ مینوں کا الزام ، کوئی جاوید صادق کو نکال لائے ، میٹرو پر بھی پیسے لئے گئے تھے اور بہت سارے فرنٹ مین یہ حکومت پہلے بھی بناچکی ہے اور پھر وہ 56کمپنیوں کا الزام ،میرا بطور پاکستانی شہری حکومت سے سوال ہے کہ ثبوت ہمیں کہاں دینے چاہئے ہیں ، ٹرائل کہاں چلے گا لازمی بات ہے عدالت کے اندر تو پھر یہ میڈیا کو استعمال کرکے جو پبلک پرسیپشن بنائی جارہی ہے یہ کیا ہے ، اس کو استعمال کرکے یہ حکومت میں تو آگئے مگر حکومت ان سے ہو نہیں پارہی ہے ۔ ہم کون ہوتے ہیں کسی کی جزا اور سزا کا فیصلہ کرنے والے کوئی اگر جرم کرتا ہے تو اس کا فیصلہ عدالتیں کرتی ہیں ۔ میرا سوال یہ ہے کہ نیب کی انویسٹی گیشن لیک کیسے ہوجاتی ہے ، کون کرتا ہے ، وزراء کو کیسے پتہ چلتا ہے کہ عید کے بعد یہ ہونے جارہا ہے ، یہ ہوجائے گا ۔ شہزاد اکبر پر میرا یقین نہیں یہ جو بولتے ہیں جھوٹ بولتے ہیں ان کو تو بٹھایا ہی اس کام کے لئے گیا ہے ۔ شہزاد اکبر پر خود الزام ہے ، پنڈی میں ان کے بھائی نے کیبنٹ ممبر میاں سومرو کے رشتے دار کی زمین پر قبضہ کیا ،یہ بتائیں گے ہمیں دیانت داری کیا ہوتی ہے ۔ ہم نے ہر سوال کا جواب کورٹ کے اندر دیا ہے اب بھی کورٹ کے اندر ہی دیں گے ۔ میاں نواز شریف کے بچے باہر کاروبار کرتے ہیں تکلیف حکومت کو ہوتی ہے ، میاں شہباز شریف کے بچے پاکستان میں کاروبار کرتے ہیں تکلیف پھر بھی حکومت کو ہوتی ہے کیا کاروبار کرنا اور کسی کا ملازم ہونا جرم ہے ۔ یہاں تو پارٹی فنڈ کا پیسہ لینا جرم ہوگیا ۔ حکومت غلط کررہی ہے ، سیاسی پروپیگنڈا کررہی ہے یہ اب کاروبار کے نام پر سیاسی کھیل کھیلنا چاہ رہے ہیں ۔ حکومت ایک پیرا میٹر رکھے ہمارا کاروبار چیک کررہے ہیں تو خسرو بختیار اور جہانگیر ترین کی شوگر ملوں کا ریکارڈ بھی نکال لیں وہ بھی چیک ہونا چاہئے ۔ شہباز شریف ہر کیس میں کورٹ سے سرخرو ہوئے ہیں ۔ وزیر ریلوے شیخ رشید احمدنے کہا کہ یہ ملک غریبوں کے لئے نہیں بڑے لوگوں کے لئے بنا ہے جب پاکستان بنا تھا تو جو بڑے لوگ پاکستان آئے تھے ان کے ساتھ ان کے طوطے بھی جہازوں میں بیٹھ کر آئے تھے ۔ عمران خان صوبوں سے ٹرانسپورٹ کھولنے کا کہہ رہے ہیں ہمیں کہیں ہم صوبے کے ماتحت نہیں ہیں صوبوں کی حیثیت ہی کیا ہے ۔ یہ نااہل اور نالائق لوگ ہیں جو قوم کی ذمہ داریوں سے واقف نہیں ہیں ۔ انہیں لوگوں کی پریشانیوں کا احساس نہیں ہے سالانہ 7 کروڑ لوگ ٹرینوں سے سفر کرتے ہیں ، بے نظیر صوبوں کی زنجیر تھی یہ خاک زنجیر ہے ہر آدمی یہاں نمبر بنانے میں لگا ہوا ہے ۔ اگر ٹرینیں چلنے نہ دی گئیں تو ریلوے دیوالیہ ہوجائے گا ہمارے پاس تنخواہوں ادائیگی کے پیسے نہیں ہیں ، 24کروڑ روپے کی بکنگ ہوئی ہے اب کہاں سے وہ پیسے واپس کریں گے ۔ یہ اس ملک کے غریب کی توہین ہے کہ جہاز کی تو اجازت ہے مگر ٹرین کی نہیں ۔ ہمیں سوا پانچ ارب روپیہ مہینے کا چاہئے ہوتا ہے کہاں سے آئے گا ۔ میں خود تو چلا جاؤں گا لیکن کسی مزدور کو نہیں نکالوں گا ۔انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ عمران خان ہمیں حکم دے ہم کسی صوبے کے نہ تابع ہیں نہ کسی صوبے کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ اس ملک کے صوبوں میں وفاق کی لائن ، وفاق کے سگنل لگے ہوئے ہیں ،آج عمران خان کہے ہم پیر سے ٹرین چلانے کو تیار ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا صوبے اپنے سائز سے بڑے ہوگئے ہیں ان کی مونچھوں سے بڑی ان کی داڑھیاں ہوگئی ہیں یہ پچھتائیں گے صوبوں کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ یہ کیا کرنے جارہے ہیں ۔