• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاپنگ سینٹر کھولنے کا حکم عید کے تناظر میں تھا: چیف جسٹس

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کورونا از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ لوگ کورونا وائرس سے بڑی تعداد میں متاثر ہو رہے ہیں، شاپنگ سینٹر ہفتہ اور اتوار کو کھولنے کا حکم عید کے تناظر میں تھا، عید کے بعد صورتِ حال کا جائزہ لے کر سماعت کریں گے۔

اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں مؤقف اختیار کیا کہ عدالت کے کل کے حکم سے لوگ سمجھ رہے ہیں کہ کورونا سنجیدہ مسئلہ نہیں ہے، انتظامیہ کو اقدامات کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا لاک ڈاؤن پہلے جیسا مؤثر نہیں رہا، بیوٹی سیلون اور نائی کی دکانیں کھل رہی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے، یہ ہماری وجہ سے نہیں کھل رہے، آپ کے انسپکٹر پیسے لے کر اجازت دے رہے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے کورونا از خود نوٹس کیس کی سماعت 8 جون تک ملتوی کر دی۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ہماری تشویش اخراجات سے متعلق نہیں، سروسز کے معیار پر ہے، کورونا کے مشتبہ مریض کا سرکاری لیب سے ٹیسٹ مثبت اور پرائیویٹ سے منفی آتا ہے، سپریم کورٹ لاہور رجسٹری ملازمین کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔

انہوں نے کہاکہ ملازمین کا کورونا ٹیسٹ سرکاری لیب سے مثبت اور نجی لیب سے منفی آیا، لوگوں کو سہولتیں دینے کیلئے ہیومن ریسورس ہے مگر وہ بہتر کام نہیں کر رہی، جب مریض ان کے پاس پہنچتا ہے تو وہ پھنس جاتا ہے، نیشنل اسپتال لاہور سے ایک آدمی کی ویڈیو دیکھی، وہ رو رہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کو سلام پیش کرتے ہیں، لیکن اس عملے میں جو خراب لوگ ہیں وہ تشویش کی وجہ ہیں، لاہور ایکسپو سینٹر اور اسلام آباد میں قرنطینہ سینٹرز سے لوگوں کی ویڈیوز دیکھنے کو مل رہی ہیں، لوگ غصے میں کہہ رہے ہیں کہ باہر مرجاؤ لیکن پاکستان نہ آؤ، دس دس لوگ قرنطینہ سینٹر میں ایک ساتھ بیٹھے ہیں، یہ کیسا قرنطینہ ہے؟ ان قرنطینہ سینٹرز میں کوئی صفائی کا خیال نہیں رکھا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر چیز پیسہ نہیں ہوتی، پیسوں کیلئے کھیل نہ کھیلیں، پیسہ اہم نہیں ہے بلکہ انسان اہم ہیں، پاکستان کی معیشت کا موازنہ افغانستان، صومالیہ، یمن کے ساتھ کیا جاتا ہے، پاکستان غریب سے غریب ترین قوم ہے، اس طرف کسی کو دھیان نہیں، عمومی تاثر ہے کہ وسائل غیر متعلقہ افراد کے ہاتھوں میں ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کورونا وائرس کا شکار مریض غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہوتا ہے، مریض کو بھی حتمی طور پر یہ علم نہیں ہوتا کہ وہ کورونا وائرس کا شکار ہے یا نہیں، لاہور میں 4 افراد کا سرکاری کورونا ٹیسٹ مثبت آیا، پرائیویٹ لیب سے منفی آیا، لواحقین چلاتے رہتے ہیں ان کے مریض کو کورونا کا مرض لاحق نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ اسپتال والے کورونا مریضوں سے لاکھوں روپے لیتے ہیں، کورونا وائرس کے شکار مریض کو دنیا جہان کی دوائیاں دے دی جاتی ہیں، ایک کلپ دیکھا ایک شخص رو رہا تھا کہ اس کی بیوی کو کورونا نہیں لیکن ڈاکٹر چھوڑ نہیں رہے تھے، ایسی صورتِ حال کا کیا کریں؟

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ قرنطینہ سینٹرز میں واش رومز صاف نہیں ہوتے، پانی نہیں ہوتا، سوشل میڈیا پر قرنطینہ سینٹرز کی حالتِ زار کی ویڈیوز چل رہی ہیں، قرنطینہ سینٹرز کے مشتبہ مریض ویڈیوز میں تارکینِ وطن کو کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نہ آئیں، ہمارے لوگوں کو جانوروں سے بدتر رکھا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرکار کے تمام وسائل کو لوگوں پر خرچ ہونا چاہیے، صرف 2 فیصد مخصوص کلاس کے لیے سرکاری وسائل استعمال نہیں ہونے چاہئیں، این ڈی ایم اے شہروں میں کام کر رہا ہے، دیہاتوں تک تو گیا ہی نہیں، جتنے قرنطینہ سینٹرز قائم ہوئے ہیں وہ صرف شہروں میں ہیں، دیہات میں لوگ پیروں کے پاس جاکر دم کروا رہے ہیں، حاجی کیمپ قرنطینہ سینٹر کے حالات آپ کے سامنے ہیں، ایک دفعہ جو بندہ قرنطینہ سینٹر پہنچ گیا وہ پیسے دیے بغیر باہر واپس نہیں آسکتا، قرنطینہ سے بندہ باہر نہیں آسکتا چاہے وہ نیگیٹو ہی کیوں نہ ہو۔

این ڈی ایم اے کے چیئرمین نے عدالت کو بتایاکہ این ڈی ایم اے کی وجہ سے 10 پی پی ای کٹس تیار ہو رہی ہیں، 1 ہزار 187 وینٹی لیٹرز کا آرڈر دیا تھا، جس میں سے 300 پاکستان پہنچ چکے ہیں، 20 اپریل کے بعد اب تک کوئی پی پی ای کٹ پاکستان نہیں منگوائی۔

چیف جسٹس گزار احمد نے کہا کہ امریکا میں ہر چیز کا معیار دیکھا جاتا ہے، ہمارے یہاں جو سامان منگوایا جاتا ہے اس میں معیار نہیں دیکھا جاتا، ہمیں معیاری سامان چاہیے، این ڈی ایم اے سارا سامان چین سے ایک ہی پارٹی سے منگوا رہا ہے۔

چیئرمین این ڈی ایم اے نے کہا کہ پرائیویٹ لوگ بھی مشینیں اور سامان منگوا رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے انہیں ہدایت کی کہ آپ کو ہر چیز اپنے ملک میں بنانی چاہیے، باہر سے نہ کوئی آپ کو دے گا اور نہ آپ سے لے گا، کھانے پینے کی اشیاء، ادویات اور دیگر سامان اپنے ملک میں تیار کریں، میں بہت سی کمپنیوں کا لیگل ایڈوائزر رہا ہوں، وہ سب غلط پالیسیوں کی وجہ سے بند ہوگئیں، آپ پبلک یا پرائیویٹ سطح پر کام کریں، لوگوں کو نوکریاں ملنی چاہئیں، ہر چیز چین سے منگوائی جا رہی ہے، پاکستان میں چین سے گھٹیا مال منگوایا جاتا ہے جو 10 روپے کا لےکر ہزار کا یہاں بیچتے ہیں، امریکا میں کھلونے کے رنگ کو بھی چیک کیا جاتا ہے کہ اس سے بچے کو الرجی تو نہیں ہوگی، یہاں سب کچھ بارڈر سے بغیر چیکنگ آجاتا ہے، مسئلہ ملکی پیداوار کا ہے تاکہ ریونیو بڑھے اور نوکریاں ملیں۔

انہوں نے کہا کہ آپ صومالیہ سے بھی نیچے چلے جائیں گے، آپ غربت کی لکیر سے نیچے جا رہے ہیں، ملک کے وسائل تمام عوام کے لیے ہیں، صرف 2 فیصد لوگوں کے لیے نہیں، آپ صرف شہروں میں کام کر رہے ہیں دیہاتوں میں کیا ہو رہا ہے آپ کو کچھ پتہ نہیں، دیہاتوں میں لوگ اب بھی دم کروا رہے ہیں، آپ نے کروڑوں روپے لگادیے لیکن کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا، حاجی کیمپ پر آپ نے پیسے لگا دیے، اس سے اب صرف حاجیوں کا کچھ فائدہ ہو جائے گا، ورنہ تو حاجی بھی بدترین حالات میں وہاں گزارا کرتے تھے۔

چیئرمین این ڈی ایم اے نے کہا کہ این ڈی ایم اے دیگر اداروں کو بھی مدد فراہم کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیئے: کورونا ازخود نوٹس کیس کا تحریری حکم نامہ جاری

چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ آپ رقم کے حساب کتاب کو چھوڑیں۔

این ڈی ایم اے کے چیئرمین نے کہا کہ ہمارے تعاون سے ملک میں 10 لاکھ پی پی ایز بن رہی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حاجی سینٹر قرنطینہ پر 56 کروڑ خرچ کر دیے گئے، حاجی سینٹر خرچے کے باوجود قرنطینہ سینٹر تو نہ بن سکا، چلو حاجیوں کی بہتری ہوجائے گی، قرنطینہ میں جانے والا بغیر پیسے دیے باہر نہیں نکل سکتا۔

چیئرمین این ڈی ایم اے نے بتایا کہ 20 اپریل کے بعد سے ہم نے ملکی پیداوار میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی، ملک میں اس وقت ماہانہ ایک ملین کٹس تیار کی جا رہی ہیں، ضرورت سے زائد کٹس کو ایکسپورٹ کرنے کی طرف جا رہے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کے ریمارکس سے عوام سمجھ رہے ہیں کورونا سیریس مسئلہ نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں نے ٹی وی پر سنا کہ ایک شخص کہہ رہا تھا کہ صبح کے وقت طارق روڈ پر پارکنگ نہیں مل رہی تھی، اس وقت تک ہم نے نہ کوئی آرڈر دیا تھا اور نہ کوئی ریمارکس دیے تھے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ بازاروں میں رش چیف جسٹس کی وجہ سے لگ گیا ہے، عوام سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں، عدالت کے کل کے حکم سے لوگ سمجھ رہے ہیں کورونا سنجیدہ مسئلہ نہیں ہے، عدالت کے حکم کے باعث انتظامیہ کو اقدامات کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں، عدالت سے استدعا ہے کہ ریمارکس اور فیصلے دیتے ہوئے معاملے کی سنجیدگی کو مدنظر رکھا جائے۔

عدالتِ عظمیٰ نے کورونا از خود نوٹس کیس کی سماعت 8 جون تک ملتوی کر دی۔

تازہ ترین