• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چینی بحران انکوائری رپورٹ جاری، بحران کے ذمہ دار ریگولیٹرز قرار

چینی بحران انکوائری رپورٹ جاری،بحران کے ذمہ دار ریگولیٹرز قرار


پاکستان میں چینی بحران سے متعلق انکوائری کمیشن کی حتمی رپورٹ سامنے آگئی جس میں چینی کی قیمتیں بڑھنے اور اس کے بحران کا ذمہ دار ریگولیٹرز کو قرار دے دیا گیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رپورٹ کو جاری کیا۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ نے چینی بحران کی انکوائری رپورٹ کو منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کا آج بہت اہم دن ہے، پاکستان کی تاریخ میں ایسی کسی کی جرات نہیں تھی کہ وہ ایسا کمیشن بنائے۔

ان کا کہنا تھا کہ چینی کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوا جس کا وزیراعظم عمران خان نے تحقیقات کا حکم دیا۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ اس تاریخ ساز دن پر ہمیں سراہنا چاہیے ہم صحیح سمت میں بڑھ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چینی بحران پر انکوائری کمیشن نے مفصل رپورٹ پیش کی اور بہت سارے سوالات ہیں۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور کابینہ نے انکوائری رپورٹ کو پبلک کرنے کا اعلان کردیا، آج سے یہ انکوائری رپورٹ پبلک ہے۔

انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں بڑے حیران کن انکشافات ہیں، تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا، رپورٹ میں لکھا گیا کہ شوگر ملز کسانوں کو امدادی قیمت سے کم قیمت دیتے ہیں۔


ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح کسانوں کو نقصان پہنچایا گیا، کسانوں کو گنے کے وزن میں 15 فیصد سے زیادہ کٹوتی کی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کچی پرچی اور کمیشن ایجنٹ کے ذریعے کم قیمت پر کسانوں سے گنا خریدا جاتا ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ گنا کم قیمت پر خرید کر اس کی لاگت زیادہ دکھائی جاتی ہے، کٹوتی کی مد میں کسان کو قیمت کم ادا کی جاتی ہے۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم ہمیشہ کہتے ہیں کہ کاروبار کرنے والا سیاست میں بھی کاروبار کرے گا، تاہم اب کی یہ بات سچ ہوگئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کسان کو تسلسل کے ساتھ نقصان پہنچایا گیا، 2019 میں گنا 140 روپے سے بھی کم میں خریدا گیا، کسان سے کٹوتی کے نام پر زیادتی کی گئی، شوگر ملیں 15 سے 30 فیصد تک مقدار کم کرکے کسانوں کو نقصان پہنچاتی رہیں۔

اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز کا کہنا تھا کہ حکومت کا منشور تبدیلی لانا اور مافیا کو بے نقاب کرنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت کے مطابق غیر منتخب رکن بھی اپنے اثاثے ڈکلیئر کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ کے مطابق مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں اضافہ شوگر ملز مالکان کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ چینی کی قیمت کے ساتھ ایک طرح کا جوا ہو رہا ہے، گنا کم پیسوں میں خرید کر زیادہ قیمت ظاہر کی گئی، کمیشن نے ریکوری کا بھی تعین کیا ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ مارکیٹ میں چینی کی قیمت بڑھنے کا بھی تعین کیا گیا ہے، شوگر ملز نے دو دو کھاتے بنا رکھے ہیں۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی نے کہا کہ ایک کھاتا سرکار کے لیے ہوتا ہے اور دوسرا سیٹھ کے لیے ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بے نامی کسٹمرز کے نام پر سیل دکھائی گئی ہیں، بے نامی سیل پر ٹیکس چوری ہوتی ہے۔

شہزاد اکبر نےکہا کہ تمام ملز نے کرشنگ کی صلاحیت کو بڑھایا ہوا ہے، ملز بغیر لائسنس کے اپنی کرشنگ کی صلاحیت کو نہیں بڑھا سکتیں۔

انہوں نے کہا کہ شوگر ملز سیلز ٹیکس شامل کرکے لاگت لگاتے ہیں، سبسڈی کی مد میں کمیشن نے پانچ سال کا جائزہ لینا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تقریباً 25 فیصد گنا انڈر رپورٹڈ ہے، اس سے گنے پر ٹیکس بھی نہیں دیا جاتا۔

شہزاد گروپ نے کہا کہ مراد علی شاہ نے صرف اومنی گروپ کو فائدہ دینے کے لیے سبسڈی دی، 2019 میں وفاقی حکومت نے کوئی سبسڈی نہیں دی۔

انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب نے 2019 میں تین ارب روپے کی سبسڈی رکھی، چینی کی قیمت میں ایک روپیہ اضافہ کرکے 5.2 ارب روپے منافع کمایا جاتا ہے۔

شہزاد اکبر نے بتایا کہ سندھ حکومت نے اومنی گروپ کو سبسڈی دے کر فائدہ پہنچایا۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ پانچ سال میں 29 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی، برامدات کی مد میں 58 فیصد چینی افغانستان جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن نے چینی بحران کا ذمہ دار ریگولیٹرز کو قرار دیا، ریگولیٹرز کی غفلت کے باعث چینی بحران پیدا ہوا اور قیمت بڑھی۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ کمیشن نے کیسز نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کو بھجوانے کی سفارش کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے فوری طور پر رپورٹ پبلک کرنے کے احکامات دیے، کابینہ نے نظام کو فعال، اداروں کو متحرک کرنے کی منظوری دی۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ کابینہ نے دیگر ملز کا بھی فرانزک آڈٹ کرنے کی ہدایت دی، جبکہ کابینہ نے ریکوری کرکے پیسے عوام کو دینے کی سفارش کی۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ کابینہ نے مجھے ذمہ داری سونپی ہے، عید کے بعد وزیراعظم کی ہدایت پر سفارشات تیار ہوں گی۔

ایک سوال کے جواب میں شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ ابھی کسی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) پر نہیں ڈالا گیا۔

شہزاد اکبر کا یہ بھی کہنا تھا کہ کوئی تحقیقاتی ادارہ کہے گا تو کابینہ نام ای سی ایل میں ڈالنے پر غور کرے گی۔

تازہ ترین