جاپان اگرچہ ایک جمہوری ملک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ تاہم، یہاں صدیوں سےآئینی بادشاہت بھی قائم ہے اور اُس کے کردار کی وضاحت 1947ء کے آئین میں ریاست کی علامت اور لوگوں میں اتحاد و اتفاق برقرار رکھنے کے داعی کے طور پر کی گئی ہے۔ یوں تو بنیادی طور پر طاقت کا مظہر، وزیر اعظم جاپان کو سمجھا جاتا ہے، تاہم تمام تر حکومتی معاملات میں اختیارات بادشاہ کو حاصل ہیں۔ واضح رہے کہ اکیسویں صدی کے اس جدید دَور میں بھی دنیا کے 44 ممالک میں بادشاہت کا نظام رائج ہے، جن میں برونائی، عمان، سعودی عرب، قطر، ویٹیکن سِٹی اور سوازی لینڈ وغیرہ شامل ہیں۔ ان ممالک میں زمانۂ قدیم سے خودمختار بادشاہتی نظام قائم ہے اور اس طرزِ حکومت میں بادشاہ کے انتقال کے بعد اس کی اولاد، جسے بادشاہ خود نام زد کرتا ہے، اُس منصب پر فائز ہوتی ہے۔
دنیا کے وجود میں آنے کے بعد انسان نے عملی زندگی کا آغاز کیسے کیا؟ اس بارے میں مختلف تحقیقات، خیالات اور آرا سامنے آتی ہیں، تاہم ان تمام تحقیقات، خیالات اور آراء سے قطع نظر انسانی تہذیب کے ارتقاء کی تاریخ ہی سے سلطنت کا تصوّر ملتا ہے، جس کا محور ایک ہی کردار ہوتا ہے، جو بادشاہ کہلاتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا کی آبادی بڑھتی گئی، مسائل بھی دوچند ہوتے گئے۔ انسان کو زندگی گزارنے کے لیے ساز و سامان کی ضرورت پڑی، تو اس کے لیے دوڑ دھوپ کرنا پڑی۔
وسائل کے حصول کی اس بھاگ دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے باعث لوگوں میں ٹکراؤ کا عمل شروع ہوا، تو آپس کے تصادم اورتنازعات سے نمٹنے کے لیے لوگوں کو ایک ایسے فرد کی ضرورت پڑی، جو تمام معاملات کو افہام و تفہیم، دیانت داری اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق حل کرسکے اور لوگوں کے درمیان تصفیہ کروانے کے ساتھ دیگر اجتماعی ذمّے داریاں بھی سنبھال سکے، تاکہ انسانوں کا ایک بڑا گروہ اپنے گھریلو فرائض بخوبی انجام دے پائے، تو مختلف گروہوں نے اپنے سربراہ چُن لیے، جو آگے چل کر بادشاہ کہلائے۔ بقول ارسطو، انسان چوں کہ سماجی حیوان ہے، اسی لیے انسانی فطرت نے اس نظام کو جلدقبول کرلیا اور وہ اس کا خوگر ہوگیا۔ اسی میں انسان کو اپنی بھلائی نظر آئی کہ وہ ایک طے شدہ اجتماعی نظم کے تحت معاملاتِ زندگی بحُسن و خوبی چلارہا ہے۔
لہٰذا لوگوں نے مل کر کسی ایک مدبّر اور برترشخص کو اپنے درمیان فیصل بنایااور اُسے علاقائی واجتماعی ذمّے داریاں سونپ کر خود خاندان کی دیکھ بھال میں مصروفِ عمل ہوگئے۔ معاشرتی زندگی کے ارتقاء کی بدولت دنیا میں لوگ پھیلتے گئے، علاقے بنتے گئے۔ زرخیز زمینیں، دریا، تالاب، جھیل، جھرنے، پہاڑ اور دیگر انسانی وسائل زیرتسلّط کرنے کے لیے لکیریں کھینچ کر مُلکوں کی سرحدیں قائم اور ان کی حد بندی کی گئی۔ ملکی سرحدوں کے قیام سے بادشاہ کے کردار نے ایک واضح شکل اختیار کرکے مستقل اور مستحکم وجود پایا۔ اس طرح ہر علاقے کی ایک الگ شناخت اور بادشاہت قائم ہوتی گئی۔
اس کے بعد کی تاریخ، بادشاہت کے عروج و زوال کی ایک طویل کہانی ہے۔ جو بادشاہتوں کے بگڑنے سنورنے، بننے اور ٹوٹنے پر مشتمل ہے۔ کہیں ہمیں بادشاہ مساوات اور انصاف کا پیکر نظر آتا ہے، تو کہیں جابر وظالم۔ کہیں عاقل و مدبّر، خودمختار اور کہیں کٹھ پُتلی، کہیں انتظام و انصرام کی لگام اپنے ہاتھ میں تھامے اور کہیں اپنی ہی فوج کے نرغے میں گِھرا ایک بے بس اور عام آدمی۔ تاہم، گزرے زمانوں میں زیادہ تر بادشاہ، رعایاسے مخلص اور عوام کے ہم درد ہی ہواکرتے تھے۔ تاریخ کے اس مدّو جزر میں جاپان کی بادشاہت اپنے آغاز سے آج تک رعایاکے حق میں ہم درد و فلاحی ریاست کے طور پر چلی آرہی ہے۔
جنگِ عظیم دوم کے خاتمے پر جنرل میک آرتھر نے اس بات کو اچھی طرح جان لیا تھا کہ بادشاہ محل میں نہیں، مکینوں کے دل میں رہتا ہے۔ جسے لوگ دیوتا کا درجہ دیتے ہیں اور یہ تصوّر لوگوں میں پایا جاتا ہے کہ اگر بادشاہ کو کچھ ہوگیا، تو پھر قوم کو سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔ یہ قوم صرف اپنے بادشاہ ہی کی بات مانتی ہے، لہٰذا بادشاہ کی موجودگی لازمی قرار پائی۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان میں آج بھی بادشاہ کو رحم دلی اور رعایا پروری کے باوصف لوگ دل و جاں سے چاہتے ہیں۔ سارے ملک کے عوام بادشاہ سے سچّاپیار کرتے ہیں۔ عقیدت واحترام کے ساتھ والہانہ محبت رکھتے ہیں۔ دنیا کے کسی بادشاہ کے نصیب میں ایسی عزّت و عظمت نہیں آئی، جیسی قدر و منزلت شہنشاہ جاپان کے حصّے میں آئی۔
کیوں کہ دُکھ، تکلیف اور مصیبت کی ہر گھڑی میں بادشاہ اپنے عوام کے ساتھ ہوتا ہے۔ نیز، جاپان کی بادشاہت بے انتہا خصوصیات کی بھی حامل ہے۔ ملک کے عوام کو بادشاہ اپنی اولاد کی طرح سمجھتا ہے۔ جاپان اگر آج رکھ رکھاؤ اور سلیقے کے حوالے سے آج ساری دنیا میں پہچانا جاتا ہے، تو یقیناً یہ سب بادشاہ کی تربیت ہی کا ثمر ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے دوسرے ممالک کے باسیوں کے مقابلے میں جاپانی قوم خاصی خوش و خرّم، صحت مند زندگی بسر کرتی دکھائی دیتی ہے اور یہ بادشاہ ہی کی ذات کاکرشمہ ہے کہ پورا جاپان ایک خاندان کی مانند نظر آتا ہے۔ جاپانی آپس میں بہت روادار ہیں اور ایک دوسرے کا بے حد احترام کرتے ہیں۔
یہاں یہ تاریخی حقیقت پیشِ نظر رہے کہ جاپان کی بادشاہت دنیا کی سب سے قدیم بادشاہت تصور کی جاتی ہے، جو پچھلے ڈھائی ہزار برس سے نسل دَر نسل ایک ہی خاندان میں منتقل ہوتی چلی آرہی ہے۔اس کا آغاز چھے سو قبل مسیح میں ہوا۔ جاپان، بادشاہت کی مدّت کے لحاظ سے کئی ادوار میں بٹا ہوا ہے۔ بادشاہ کے نام سے اُن کا سال چلتا ہے اور تبدیلی پردوسرے بادشاہ کے نام سے دَور بدلتا ہے۔ جیسے حالیہ بادشاہ کی تخت نشینی سے پہلے کا تیس سالہ دور ’’ہیسے‘‘ کہلاتا تھا، جو اب ’’ریوا‘‘ کہلاتا ہے۔
ہیسے سے پہلے کا زمانہ ’’شووا‘‘ کہلاتا تھا، جو مشہورِ زمانہ ’’ہیروہیٹو‘‘ کا دور تھا۔ عالمی شہرت یافتہ ہیروہیٹو کی وفات کے بعد شہزادہ ’’آکی ہیٹو‘‘ مسند نشین ہوئے، تو اِن کا دور ’’ہیسے‘‘ کہلایا۔ اکی ہیٹو ابھی حیات ہیں، لیکن اکیاسی سال کے ہونے پر ناسازئ طبع کی بِنا سبک دوش ہوگئے اور شہزادہ ناروہیٹو کو بارِ امانت تفویض کردیا۔ یہ یہاں کے معاشرے کا عام چلن ہے۔ سینئر عُہدے دار اپنی جگہ وقت سے پہلے چھوڑ دیتے ہیں تاکہ نئے آنے والوں کو موقع ملے۔ یہاں کا بادشاہ قصّے کہانیوں والا بادشاہ نہیں، بلکہ عمل کی حامل شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ صبح سویرے کام کا آغاز کرتا ہے، جو شام ڈھلے تک جاری رہتے ہیں۔
یہاں بادشاہ بیٹھ کے آرام نہیں کرتے، بلکہ مسلسل اور پیہم مصروفِ عمل رہتے ہیں، جس میں کھیتی باڑی تک شامل ہے۔ فجر کے وقت بیدار ہوکر عبادت کرتے ہیں پھر ورزش اور ناشتے کے بعد دفتری معاملات دیکھنے کے علاوہ غیر ملکی عمائدین اوروفود سے ملاقات اور دیگر اہم امور انجام دیتے ہیں۔ پورے ملک کے دورے کرنا بھی ان کے کام کا حصّہ ہے۔ بادشاہ خود ہر علاقے میں جا کے مکینوں کی مشکلات پوچھتے ہیں۔ اسکولوں اور اسپتالوں کے دورے کرتے ہیں۔ کس علاقے کی کیا ضرورت ہے، معلوم کرتے ہیں۔ شاہی خاندان سادگی و انکساری سے رہتا ہے۔
یہ بات بھی بہت دھیمے اور نرم لہجے میں کرتے ہیں۔ اکثر عام شاہ راہوں سے جب بادشاہ کی سواری گزرتی ہے، تو روایتی طرز کے برخلاف یہاں نہ ’’ہٹو بچو‘‘ کی صدائیں سنائی دیتی ہیں، نہ کسی قسم کےسائرن یا ہُوٹرکی آواز آتی ہے، یوں شاہی سواری سبک رفتاری سے گزرجاتی ہے، کھڑکی کے شیشے سے ملکہ اور بادشاہ مسکراکر ہاتھ ہلاتے ہوئے سب کے سلام کا جواب دیتے گزرتے ہیں۔ لوگ بھی انہیں اپنے درمیان پاکر محظوظ اور خوش ہوتے ہیں۔
یہ جاپان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ ایک بادشاہ کی زندگی میں دوسرے بادشاہ ناروہیٹو کا دَور شروع ہورہا ہے۔ جاپان کی تاریخ، بادشاہوں کے کئی ادوار پر مشتمل ہے۔ جیسے اسلامی تاریخ میں بنوامیّہ، بنو عباس، فاطمیینِ مصر، خلافتِ عثمانیہ، مغلیہ دَور اور موجودہ جمہوری دَور۔ جاپان کاہر دور اپنی ایک الگ کہانی رکھتا ہے۔ موجودہ جاپان میجی بادشاہ کے دَور سے وابستہ ہے۔ میجی کا دَور احیائے جاپان کا دور کہلاتا ہے۔
میجی بادشاہ نے جاپان کو ساری دنیا سے ہم آہنگ اور مربوط کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اُن اصلاحات کی روشنی ہی میں جاپان بتدریج ترقی کرتا چلا گیا، جو میجی بادشاہ نے اپنے دورِ حکومت میں ترتیب دیں۔ یہاں آپس میں خانہ جنگی تو بہت رہی، مگر بادشاہت کے خلاف بغاوت کے واضح ثبوت نہیں ملتے۔ مِن حیث القوم بادشاہ کے سب وفادار ہی رہے۔کبھی کسی نے بادشاہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، نہ تخت الٹنے کی۔ اگرچہ جاپان کی پوری تاریخ قتل و غارت سے بھری پڑی ہے، مگر کہیں بھی کسی بادشاہ کے قتل کا ذکر نہیں ملتا۔
جنگِ عظیم دوم سے پہلے تک تو جاپان میں بادشاہ کی پوجا کی جاتی تھی۔ کوئی شخص بادشاہ کی طرف آنکھ اٹھاکے نہیں دیکھتا تھا۔ یہاں کے رواج کے مطابق بادشاہ کی سواری گزرتے وقت سب تعظیم سے اپنی جگہ سرجھکاکے کھڑے ہوجاتے۔ بادشاہ کی تصویر، تعلیمی اداروں میں آویزاں ہوتی۔ نقرئی سکّوں پر نقش کی جاتی، جسے زمین پر پھینکنا بہت بُرا سمجھا جاتا۔ بادشاہ کی خاطر جان کا نذرانہ دینا بہت بڑی سعادت سمجھا جاتا اور محبت و عقیدت کا یہ جذبہ جاپان میں آج بھی موجود ہے۔ موجودہ جاپانی بادشاہ، ناروہیٹو کی تربیت عام بچّوں کی طرح کی گئی ہے اور اس تربیت میں پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر، فیکٹری میں مزدوروں کے ساتھ کام کرنا بھی شامل ہے، تاکہ عام آدمی کے جذبات اور خواہشات کو سمجھا جاسکے۔ جاپان کے بادشاہ اور شاہی خاندان کے افراد حقیقی سادگی کی زندہ مثال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جاپانی قوم ہمیشہ ریاکاری، مکرو فریب سے دُور ہی رہی، یعنی جیسے عوام، ویسے حکمران۔ یہاں کے حکمراں اچھے ہیں، تو عوام بھی بھلے ہیں۔
یہ کسی کو دھوکا نہیں دیتے، دیانت داری سے کام کرتے ہیں۔ کام میں خیانت نہیں کرتے، چیزوں میں ملاوٹ نہیں کرتے، وقت کی پابندی یہاں کے لوگوں کا نصب العین ہے۔ فرائضِ منصبی کی ادائیگی کے دوران تمام وقت پوری ذمّے داری سے کام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پورا ملک ترقی کی راہ پر گام زن ہے۔ یہاں بادشاہ کی رعایا پروری کی حالیہ مثال سونامی کے موقعے پر دیکھنے میں آئی، جب بادشاہ اور ملکہ متاثرین کے ساتھ زمین پر بیٹھے حال احوال پوچھ کر موقعے پر احکامات جاری کررہے تھے۔ اکثر قدرتی آفات کے موقعے پر بادشاہ، محل کے دروازے عوام کے لیے کھول دیتے ہیں کہ بادشاہ کے نزدیک جاپان کے لوگ رعایا نہیں، بلکہ ایک خاندان کی طرح ہیں اور بادشاہ، خاندان کے سربراہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ حکمران اور مقتدر طبقہ، جو ملک کو چلانے کا کام کرتا ہے، اُس کی حیثیت ایسے ہی ہے، جیسے انسانی جسم میں دماغ کی۔
مختصر یہ کہ خوش قسمتی سے جاپان کوقدرت نے ہمیشہ اعلیٰ اوصاف کے حامل رہنما دیئے، جنہوں نے کم وسائل کے باوجود بھی اسے صفِ اوّل کے ممالک کی فہرست میں لاکھڑا کیا۔ حالاں کہ پاکستان کے مقابلے میں جاپان کے پاس قدرتی وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان تو بے انتہا قدرتی وسائل اور معتدل موسم رکھتا ہے۔ جیسے یورپ کا آدھا سال برف باری اور سردی کی وجہ سے بے کار گزر جاتا ہے۔جاپان بھی سخت سردی اور برف باری کا سامنا کرتا ہے، آئے دن شدید طوفان اور زلزلے بھی بھاری نقصان کا باعث بنتے ہیں، پاکستان کا موسم تو قدرت کی خاص عنایت ہے۔تو ہمارے حکمرانوں اور عوام کو جاپان کی مثال سامنے رکھنی چاہیے۔ سالہا سال سے قومیں ایک دوسرے سے سیکھتی چلی آرہی ہیں۔ جاپان کا طرزِ عمل اپنانے والے ملکوںکے لیے جاپان کی تقلید ہر لحاظ سے مفید ہی رہی،تو ملکِ عزیز کے حکمرانوں اور عوام کو بھی جاپان ہی کے نقشِ قدم پر چلنے کی سعی کرنی چاہیے۔