چند دن پہلے شوگر انکوائری کمیشن رپورٹ منظرِ عام پر آئی۔ چاہے کمیشن کی تشکیل کا باعث پی ٹی آئی کی صفوں میں ہونے والی اندرونی لڑائی ہو، کسی کو تحفظ دینا اور کسی کو بدنام کرنا مقصود ہو، کمیشن کو تشکیل دینے اور رپورٹ کو منظر ِعام پر لانے پر پی ٹی آئی کو سراہا جانا چاہئے۔
2016میں مہتاب امپیکس کیس میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ حکومت سے مراد وزیرِاعظم اور وفاقی وزرا ہوتے ہیں، وزرا یا کابینہ کمیٹی کے ’’فیصلوں‘‘ کو صرف سفارشات سمجھا جاتا ہے تاوقتیکہ وزیرِاعظم کی قیادت میں پوری کابینہ اُن کی منظوری دے دے۔
تاہم مذکورہ کمیشن نے کسی وجہ سے ای سی سی کی سطح پر جا کر تحقیق کی کہ ماہرین نے اجازت دی تھی یا نہیں۔ اس نے کابینہ کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا جس کے پاس تمام اتھارٹی تھی۔ اگر کمیشن وزیرِاعظم صاحب سے سوالات کرتا تو ہمیں پتا چلتا کہ کیا وہ فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہیں یا کابینہ کی تیار کردہ سمری دیکھ کر منظوری دے دیتے ہیں؟
اگر وزیرِاعظم بغیر پڑھے سمری پر دستخط کر دیتے ہیں تو کیا وہ دی گئی منظوری کے ذمہ دار نہیں؟ کمیشن کی تشکیل کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ پی ٹی آئی حکومت میں چینی کی قیمتیں آسمان کو کیوں چھونے لگیں؟
لیکن کمیشن نے گزشتہ چند برسوں کے دوران چینی کی برآمد اور دی گئی امدادی قیمت کو ہی دیکھا۔ جب جون 2013میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت آئی تو چینی کی قیمت 53روپے فی کلو تھی۔ جب یہ اپنے پانچ سال مکمل کرکے رخصت ہوئی تو قیمت ابھی تک 55روپے تھی۔
2015-16 میں پاکستان میں چینی کی پیدوار اپنے بلند ترین حجم 7.1ملین ٹن تک پہنچ گئی۔ اگلے سال بھی پیداوار 6.6 ملین ٹن تھی۔
جس دوران پاکستانی خوشحال ہونے لگے اور قیمتوں میں استحکام رہا، ہماری چینی کی کھپت میں اضافہ ہوا لیکن یہ کھپت پانچ ملین ٹن کے قریب تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ برآمد کے لیے اضافی چینی دستیاب تھی۔
درحقیقت مسلم لیگ ن نے قیمت مستحکم رکھنے کے لیے تھوڑی مقدار میں برآمد کی اجازت دی۔ برآمد پر سبسڈی اُس وقت دی جب مقامی پیداواری لاگت عالمی قیمتوں سے زیادہ تھی۔ اگست 2018میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے دو ماہ کے اندر ایک ملین ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دے دی۔ اُس وقت تک حکومت آئندہ سیزن میں گنے یا چینی کی پیداوار کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھی۔ ایک وزیر نے کمیشن کو بتایا کہ اتنی بڑی مقدار میں برآمد کی اجازت اس لیے دی گئی کہ ملک کو زر ِمبادلہ کی ضرورت تھی۔
اس کے دو ماہ بعد دسمبر میں حکومت نے ایک بار پھر ایک لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دے دی۔ اس کی وجہ، جیسا کہ ایک وزیر کا کہنا تھا، مل مالکان کی’’دھمکی‘‘ تھی۔
خیر میں تو سوچ رہا تھا کہ پی ٹی آئی کی بےخوف اور انتہائی ذہین قیادت کسی مافیا وغیرہ سے ڈرنے والی نہیں۔ خیر یہ دھمکی ناقابلِ فہم تھی کیونکہ پنجاب کی نصف شوگر انڈسٹری تو کابینہ میں بیٹھی ہے۔ پی ٹی آئی نے شوگر انڈسٹر ی کو ہر قسم کی رعایت دی لیکن چینی کی پیداوار گزشتہ تین برس میں کم ترین ہوئی۔ صرف 5.3ملین ٹن سے بھی کم۔ گویا یہ مقامی ضروریات کے بھی ناکافی تھی۔
مزید یہ کہ پی ٹی آئی حکومت کی دی گئی سبسڈی اور برآمد کی اجازت سے چینی کی قیمت چھ ماہ کے اندر ستائیس فیصد بڑھ کر 71روپے فی کلو ہو گئی۔ اُس وقت تمام کابینہ جانتی تھی کہ چینی کی قیمت میں اضافہ ہورہا ہے لیکن کابینہ اور ای سی سی نے 2019میں اپنے فیصلوں پر نظرِ ثانی کی زحمت نہ کی یہاں تک کہ مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت 90روپے فی کلو تک پہنچ گئی۔
ایک مرتبہ جب وفاقی حکومت نے منظوری دے دی تو وفاقی حکومت میں سے کسی نے زبانی طور پر پنجاب حکومت کو بھی بتا دیا ہوگا کہ چینی برآمد کرنے والوں کو سبسڈی دینی ہے۔
پنجاب حکومت نے اس پر مطلق دیر نہ لگائی حالانکہ فنانس سیکرٹری حامد یعقوب شیخ اور وزیر برائے مالیاتی امور ہاشم جواں بخت کی سفارش اس کے برعکس تھی۔ تاہم کابینہ کے اجلا س سے بھی پہلے وزیرِاعلیٰ کی صدارت میں ہونے والی میٹنگ میں چینی کے صنعت کاروں کو تین بلین روپے کا تحفہ دینے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ زبانی احکامات کی تاثیر تحریر سے بھی زیادہ تھی۔
سیاسی بیانیے کو حیرت انگیز موڑ دیتے ہوئے اب پی ٹی آئی اپنے دور میں چینی کے بحران کو بھی مسلم لیگ ن کا قصور ثابت کرنے کی کوشش میں ہے۔ وزرا کی طرف سے پریس کانفرنسز کا تانتا بندھا ہوا ہے۔
وہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں کہ مسلم لیگ ن نے اپنے دور میں امدادی قیمت دے کر غلطی کی تھی۔ وہ بھول جاتے ہیں اُس دور میں ملک میں گنے اور چینی کی بھاری پیداوار ہوتی تھی۔ اس کی وجہ سے مقامی قیمتیں مستحکم تھیں۔ سبسڈی صرف اُس وقت دی جاتی تھی جب مقامی پیداواری لاگت عالمی قیمت سے بڑھ جاتی تھی ۔ اس وقت گنے کی قیمت 1.7ڈالر (180روپے) فی من تھی جبکہ ڈالر کا نرخ 105روپے تھا۔
مقامی صنعت کے لیے چینی برآمد کرنا مشکل تھا۔ نیز سبسڈی کو یکساں نہیں رکھا جاتا تھا۔ جب عالمی مارکیٹ میں چینی کی قیمت بڑھ جاتی تو سبسڈی کم کردی جاتی۔ اس کے مقابلے میں گزشتہ سال عالمی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں استحکام تھا جبکہ روپے کی قدر گرا دی گئی تھی گنے کی امداد ی قیمت کم ہوکر 1.36 ڈالر (190 روپے) فی من ہو گئی تھی اور مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت بڑھ رہی تھی۔
اس منافع خوری کے نتیجے میں گزشتہ دو سال کے دوران پاکستانی صارف کی جیب سے 100بلین روپے نکل کر شوگر انڈسٹری کی تجوریوں میں جا چکے۔ ضروری ہے کہ حکومت ذرا اپنا پرغرور سر نیچے کرلے۔
ادویات سے لے کر آٹے کی قیمت میں ہوشربا اضافہ، پولیو سے لے کر تافتان، پشاور میٹرو، غیرمعمولی زیرِگردشی قرضے، بجٹ کا بے پناہ خسارہ، اور اس پر کوویڈ 19پالیسی پر ابہام۔ پاکستان کو یقیناً بہتری کی ضرورت تھی لیکن چلیں، کچھ انکساری ہی سیکھ لیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)