ہماری گڈگورننس پھٹے پر پڑی سو رہی ہے اور عوام شتر بےمہار کالی موت کے منہ میں دوڑے چلے جارہے ہیں۔ گڈگورننس کی عقل کام کررہی ہے، نہ ہی عوام اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے تیار ہیں کہ کالی موت ان کے سر پر آن کھڑی ہے۔ ہم ماضی کی تباہ حال قوموں کی طرح ابھی تک اس کالی موت کو محض مذاق ہی سمجھ رہے ہیں۔ پہلے کورونا وبا کے باعث لاک ڈائون کا رونا رویا جارہا تھا کہ لوگ بھوک کے ہاتھوں مر جائیں گے اب غریب بھوک سے بھی مر رہا ہے اور کالی موت کے ہاتھوں بھی۔ آخر ہم کب تک آنکھوں دیکھی کالی موت کی یہ مکھی نگلتے رہیں گے؟ کورونا کے نام پر سیاست کا جو بازار گرم ہے جس طرح حکمران اپنی ناکام پالیسیوں کے باعث اس موت کے ہاتھوں بےبس نظر آرہے ہیں آخر کب تک ایسے چلے گا؟ عیدالفطر سے قبل تو ہم سب کی یہی خواہش تھی کہ لاک ڈائون میں نرمی کرکے عوام کو عید کی خوشیوں میں شریک کیا جائے، یہ بھی خدشہ تھا کہ اس نرمی سے کورونا وبا تیزی سے پھیلے گی لیکن اسے بدقسمتی ہی کہئے کہ دو ماہ نرم سخت لاک ڈائون کے دوران گڈگورننس صرف کالی موت کے اعداد و شمار ہی جمع کرتی رہی یا کورونا کے نام پر بھیک مانگتی رہی۔ عملی طور پر ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے نظامِ زندگی بہتر انداز میں چلتا رہے۔ آج دنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ ملکوں نے نہ صرف اس کالی موت کا راستہ روکنے کی عملی کوشش کی، ایسے اقدامات کئے جس سے کاروبارِ زندگی چل سکے۔ ہماری حالت اس سے بالکل اُلٹ ہے کہ جب پاکستان کورونا سے اتنا متاثر نہیں تھا، دنیا اس قہر خداوندی سے نمٹ رہی تھی تو ہماری گڈگورننس پھٹے پر پڑی وبا پھیلنے کے انتظار میں سوئی پڑی تھی۔ ہمارے عالی دماغ صرف یہ کہتے رہے ’’ڈرنا نہیں لڑنا ہے، یہ وبا جون تک مزید پھیلے گی‘‘ جی جناب! اب کوئی بھی اس کالی موت سے ڈرتا نہیں صرف اٹھکیلیاں کرتا ہے۔ اب صرف کالی موت ہی ہم سے لڑ رہی ہے ہم اس سے لڑنے کو تیار نہیں، اب جو کچھ بھی کرنا ہے شیر (کالی موت) نے ہی کرنا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ پانی سر سے گزر گیا، توقع کے عین مطابق بھیانک نتائج آنا شروع ہو گئے۔ یکم جون کا ٹارگٹ ہدف سے بھی زیادہ ہو گیا، کورونا سے متاثرین کی تعداد پچاس ہزار سے بڑھ کر اسیّ ہزار تک جا پہنچی۔ کم از کم خانِ اعظم کا کہا ایک قول سوچ سے بھی زیادہ سچ ثابت ہوا۔
کالی موت سے اموات کی شرح روزانہ کی بنیاد پر تقریباً ایک سو سے زائد ریکارڈ ہونے لگیں، اسپتالوں میں مریضوں کو داخل کرنے کی گنجائش ختم ہو گئی۔ ایسی صورت حال پیدا ہو چکی ہے کہ مریض اسپتالوں کے باہر ایمبولینسوں میں پڑے اپنی باری کا انتظار اور ورثاء ہاتھوں میں پیسے لئے داخلے کی التجائیں کررہے ہیں۔ فرنٹ لائن مجاہدین (طبی عملہ، پولیس اہلکار) اس جنگ کے خلاف لڑتے لڑتے ایک ایک کرکے پسپا ہونے لگے مگر ہم ٹس سے مس نہ ہوئے اور یہ جنگ من حیث القوم ہار گئے۔ اس جنگ میں کسی نے بھی سپہ سالار ہونے کا ثبوت نہیں دیا۔ حکومتی مشینری مفلوج ہے تو عوام کے دماغ بھی کام کرنا چھوڑ چکے ہیں۔ بےحسی کے اس دور میں بھی سیاسی فریقین کے ترجمانوں نے الزام تراشی کی گولہ باری شروع کررکھی ہے اور تخت و تاج کی جنگ میں موت کا خوف بھول چکے ہیں۔ کبھی کسی نے سوچا ہے کہ جب یہ موت ہی آپ کا مقدر بن چکی ہے تو پھر کون سا اقتدار اور کون سی مخالفت؟ سب کچھ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ بہتر تو یہی تھا کہ کورونا کے خلاف جنگ میں پورا پاکستان یک زبان ہوتا اور اس جنگ کی قیادت ہمارے بڑے خان کھلے دل سے کرتے۔ ایسے فیصلے کئے جاتے کہ پاکستان اس جنگ کے خلاف فاتح بن کر ابھرتا۔ دس لاکھ سے زائد نوجوانوں پر مشتمل ٹائیگر فورس کو زمین نگل گئی یا آسمان؟ کوئی تو بتائے کہ آخر اس فورس نے اب تک کون سے کارنامے سر انجام دیے۔ لگتا یہی ہے کہ ٹائیگر فورس گڈگورننس کی چھائوں تلے خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے اور اس انتظار میں بیٹھی ہے کہ گڈگورننس جاگے اور وہ کوئی اپنا کمال دکھائے۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ ’’پہلے تولو پھر بولو‘‘ ہمارے حکمرانوں کی ہمیشہ سے یہی سب سے بڑی کمزوری ہے کہ ہر وقت رنگ برنگے خواب ایسے بیچتے ہیں کہ جیسے اندھوں کو آئینہ بیچیں اور یہ نہیں سوچتے کہ جھوٹے خواب کبھی سچے نہیں ہوتے۔ ٹائیگر فورس کے نام پر قوم کا وقت بھی برباد کیا اور شاید پیسہ بھی۔ یاد رکھیں جب مصیبت آتی ہے یا انسان کا بُرا وقت تو اپنے ساتھ ایک نہیں کئی مصیبتیں ساتھ لاتا ہے۔ کورونا وبا اپنے ساتھ ٹڈی دل کا عذاب بھی لے کر آئی۔ گڈگورننس کو بار بار جگانے کی کوشش کی گئی مگر وہ پھر بھی سوئی رہی۔ اب جب ٹڈی دل ہماری پانچ سو ارب سے زائد کی اجناس نگل گیا تو گڈگورننس کو اسپرے کرنا یاد آگیا، ’’اب کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت‘‘۔ کوئی تو ہو جو اس درد کی دوا کرے۔ اطلاعاً اقتدار کی غلام گردشوں میں ’’ڈاکٹر‘‘ (چینی مکسچر، مرزا پھکی، گجراتی جڑی بوٹیوں) سے نئی دوا تجویز کرنیکا سوچ رہے ہیں، فوادی لیبارٹری میں تجربات جاری ہیں۔ سمجھنے والوں کیلئے اس میں بڑا پیغام ہے۔