کراچی ( رپورٹ: سہیل افضل ) سندھ حکومت ،پی آئی اے انتظامیہ اور ایدھی فاونڈیشن کی لاپرواہی‘بچوں کی لاشیں تبدیل ہوجانے سے لواحقین کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ،ایک بچے کی قبر اپنے پیاروں سےدور بن گئی‘ دوسری فیملی کے زخم پھر ہرے ہوگئے‘ 11روز بعد دوبارہ جنازے اور تدفین کا انتظام کرنا پڑا۔تفصیلات کے مطابق 4جون کو ڈی این اے سے شناخت ہونے والی ڈیفنس کی رہائشی بچی نےایک نئی کہانی کو جنم دیا ہے ،لواحقین دفنائے گئے بچے کے بارے میں فتوے لینے مفتیوں کے پاس پہنچ گئے‘طیارہ حادثہ میں پولانی فیملی کے زین پولانی اپنی اہلیہ اور 3بچوں عثمان پولانی‘صدیق پولانی اور ابراہیم پولانی کے ساتھ جاں بحق ہوگئے تھے‘زین پولانی ،ان کی اہلیہ اور 2بچوں صدیق اور عثمان کی شناخت ہو گئی تھی لیکن ابراہیم کی شناخت نہیں ہو ئی تھی ،جمعرات کو پولانی فیملی کو بتایا گیا کہ 14سالہ ابراہیم کی ڈی این اے سے شناخت ہو گئی ہے لیکن اس ٹیگ کی باڈی 11روز قبل ایک فیملی اپنی بیٹی سمجھ کر ایدھی سینٹرز سے زبردستی لے گئی ہے اور ان کی بچی کی لاش اس وقت ایدھی سینٹر میں موجود ہے ،بچی کی جگہ ابراہیم کو لے جانے والی فیملی نے نماز جنازہ کے بعد ابراہیم کو ڈیفنس فیز 8کے قبرستان میں دفن کر دیا ہے ،ڈیفنس میں رہائش پذیر اس فیملی کا موقف ہے کہ ہماری بچی بھی اس حادثے میں شہید ہو ئی‘ ہم نےاس کی باڈی دانتوں پر لگے بریسیس سے شناخت کی تھی چونکہ ابراہیم پولانی کے بھی دانتوں پر بھی بریسیس تھے اور اس کی عمر بھی تقریباً یکساں تھی اس لیے یہ غلط فہمی ہو ئی ،پولانی فیملی کا موقف ہے کہ غلطی اس فیملی کی نہیں بلکہ انتظامیہ کی ہے‘ ایدھی والوں کا موقف ہے کہ کچھ میتیں لوگ زبردستی لے گئےلیکن سینٹر کے باہر پولیس تعینات تھی ،یہ اس کی ذمہ داری تھی لیکن دانستہ لاپرواہی برتی گئی ،بنیادی ذمہ داری پی آئی اے کی تھی لیکن وہ سب سے زیادہ لاتعلق رہے ،پولانی فیملی ذرائع کے مطابق ابراہیم پولانی کی شناخت ہونے کے بعد اس کی باڈی کو اپنے پیاروں کےساتھ دفن کرنے کا مسئلہ آیا تو ہم نے باڈی کی منتقلی کے لئے علماء سے رائے طلب کی جس پر ہمیں مشورہ دیا گیا کہ باڈی منتقل نہ کریں اس کا جنازہ بھی ہو چکا ہے