• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

25ویں آئینی ترمیم کو قومی اسمبلی سے اس امید کے ساتھ منظور کرایا گیا تھا کہ ضم شدہ اضلاع کے رہائشیوں کو پاکستانی شہری تسلیم کیا جا سکے اور انہیں ملک کے دوسرے علاقوں کا ہم پلہ بنانے کیلئے عملی اقدامات کیے جا سکیں لیکن ہم دیکھ رہے رہیں کہ بدستور ضم شدہ اضلاع کے ساتھ امتیازی سلوک جاری ہے۔ بہت لوگ یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ 25ویں آئینی ترمیم کے بعد ان محرومیوں کا ازالہ ہو جائے گا اور ریاست ترجیحی بنیادوں پر بروقت اقدامات سے علاقے میں احساس محرومی کا سدباب کرے گی اور امتیازی سلوک کا سات عشروں پر محیط سلسلہ بند ہو پائے گا۔

فاٹا انضمام کا پروگرام تو مشکلات سے ہمیشہ نبردآزما رہا لیکن افسوس کے اس پروگرام کو ownershipدینے کیلئے کوئی آگے نہیں بڑھا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح 26ویں آئینی ترمیم کو نامعلوم وجوہات کے بنا پر متواتر ملتوی کیا جارہا ہے۔ کوئی بھی ادارہ ذمہ داری لینے اور مسائل کے حل کیلئے تیار نہیں اور اب یہ فاٹا سیکرٹریٹ، سول سیکرٹریٹ خیبر پختون خوا اور فنانس وزارت کے بیچ باقاعدہ ایک جنگ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

انضمام کے بعد ضم شدہ اضلاع کو فنڈ مہیا کیے گئے (کم از کم کاغذوں کی حد تک) کہ علاقے کو ترقی دی جا سکے، آئی ڈی پیز کو واپس اپنے گھر لایا جا سکے، علاقے کی سیکورٹی کی صورتحال کو بہتر کیا جا سکے اور نوجوانوں کو بہتر روزگار کے مواقع مہیاء کیے جا سکیں۔ آئی ڈی پیز کی واپسی کیلئے PSDPنے سال 2019۔2020کیلئے 32.5ارب روپے مختص کئے جبکہ سیکورٹی کیلئے بھی 32.5ارب روپے مختص کیے گئے جبکہ دس سالہ Development Planکی مد میں سال 2019۔2020کیلئے 48ارب روپے رکھے گئے لیکن افسوس کہ جو اعلان کیا گیا تھا اسے پھر سے تبدیل کیا گیا اور Developmentبجٹ جو کہ آئی ڈی پیز کی آباد کاری، صحت اور تعلیم کیلئے مختص تھا اسے کاٹ لیا گیا اور مئی 2020تک 50فیصد فنڈ ہی مہیا کیا گیا ہے۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ باقی ملک کے PSDPپراجیکٹس سے بالکل الگ تھلگ ضم شدہ اضلاع کے پراجیکٹ کی نگرانی Finance Divisionکر رہی ہے اور ہمیں کوئی بھی معلومات نہیں کہ وہ 50فیصد فنڈ کہاں استعمال ہوا اور ان پر کتنا کام ہو چکا ہے؟

ابھی تو حالت یہ ہے کہ آئی ڈی پیز کی Reliefاور Compensationکیلئے جو فنڈ مختص تھا اس فنڈ کا بڑا حصہ یعنی 15.5ارب روپے سیکورٹی کو دے دیے گئے ہیں جبکہ وزیراعظم کے یوتھ پروگرام اور ہنر مند پروگرام سے بھی 5ارب روپے کاٹ کر سیکورٹی کو دے دیے گئے ہیں جسکی کل مقدر ہی محض 10ارب روپے تھی۔ سیکورٹی بجٹ بڑھتے بڑھتے اب 53ارب ہو چکا ہے جو ابتدائی طور پر 28.5ارب سال 2019۔2020ءکیلئے تھا

باوجود اسکے کہ آئی ڈی پی کے فنڈ کو سیکورٹی کی طرف مختص کردیا گیا لیکن جو 17ارب منظور بھی ہوئے اس میں بھی صرف 5 ارب اب تک دیے گئے ہیں جبکہ بقایا کو یا تو واپس کردیا گیا اور تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ آئی ڈی پیز کی دوبارہ آباد کاری کے پروگرام کو جیسے بند ہی کر دیا گیا ہو اور جیسے آباد کاری کا عمل مکمل ہو چکا ہو لیکن زمینی حقائق اِس سے مختلف ہیں۔

خیبر پختون خوا اسپیشل پولیس آفیسر (Regularization of Police) بل 2019ءکے تحت ضم شدہ اضلاع کے لیویز اور خاصہ دار فورس کو پولیس میں بدلنے کا کہا گیا لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ انکی کارگردگی کو بہتر بنانے کیلیے کوئی مربوط نظام میسر نہیں اور پولیس میں لیویز اور خاصہ دار کو ضم کرنے کیلئے مطلوبہ فنڈ بھی میسر نہیں ہے جسکی وجہ سے تمام ضم شدہ اضلاع میں یہ عمل تعطل کا شکار ہے۔ حالیہ ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ بھی اس بات کا شاہد ہے کہ محکمہ پولیس مسائل سے دوچار ہے، فنڈ اور بنیادی ڈھانچے کی کمی جسکی بڑی وجہ ہے۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر آئے روز ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں تو پھر سیکورٹی فنڈ میں اضافہ کیوں کیا گیا ہے اور یہ فنڈ استعمال کہاں ہو رہا ہے؟ 25ویں آئینی ترمیم کا سب سے اہم نقطہ ضم شدہ اضلاع میں عدالتی نظام کی توسیع کا تھا جس کی وجہ سے عدالتی نظام نے ضم شدہ اضلاع میں اپنا کام شروع کرنا تھا جسکے سبب ماسوائے ڈسٹرکٹ خیبر کے، باجوڑ کے جوڈیشل آفیسر باجوڑ کے علاقے باجوڑ خار میں، کرم ایجنسی کے پاڑہ چینار میں، جنوبی وزیرستان کے ٹانک میں، شمالی وزیرستان کے بنوں، اورکزئی کے ہنگو جبکہ ڈسٹرکٹ مہمند کے جوڈیشل آفیسر چارسدہ کے علاقے شبقدر میں بیٹھے ہیں۔ وہ لوگ جنکی زندگیاں اور رہن سہن ریاستی پالیسوں کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سفر اور تکلیف کو خاطر میں رکھ کر عدالتیں قریب ترین مقامات پر بنائی جاتیں تاکہ پہلے ہی سے تباہ حال لوگوں کو کچھ آسانی میسر ہوتی لیکن ریاست نے یہاں بھی ضم شدہ اضلاع کے لوگوں کے حالات اور آمد و رفت کی تکالیف کو خاطر میں نہیں رکھا۔ ماضی کے نظام کو لپیٹنے کے بعد جسکے سبب اس قدر تباہی اور تشدد نے جنم لیا اب ریاست خصوصی توجہ دے کر انصاف اور انسان حقوق کو یقینی بناتی۔

موبائل اور انٹرنیٹ کی سہولت شاید بعض لوگوں کو پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق دیکھائی ہی نا دے لیکن آج یہ یقینی طور ایک مسئلہ ہے کہ اس سے آن لائن تعلیم کا حصول ممکن ہے اور آج کے کورونا وباء کے دنوں میں ضم شدہ اضلاع کے نوجوان اس سہولت سے محروم ہیں اور انکی تعلیم متاثر ہورہی ہے چونکہ تمام یونیورسٹیاں آن لائن کلاسز لی رہی ہیں اسلئے ضم شدہ اضلاع کے طلباء اس وقت ان کلاسز سے بھی محروم ہیں چونکہ انٹرنیٹ کے بغیر یہ ممکن نہیں رہا۔ ماضی کے سامراجی/Colonial پالیسوں اور برتاو کا خاتمہ ضروری ہے اگر ریاست اور حکومت حقیقی طور پر ضم شدہ اضلاع کے لوگوں کی زندگی بدلنے میں کوئی دلچسپی رکھتی ہے اور ضم شدہ اضلاع کے حوالے سے ’’خارج‘‘ کرنے کی پالیسی کو ترک کیا جائے۔

تازہ ترین