مجھے ایک ٹی وی اینکر اور صحافی کے اس خیال سے پورا اتفاق ہے کہ ”ہم انتہائی کنفیوزڈ لوگ ہیں“۔ ہم پیدا اگر برطانیہ میں ہوتے ہیں تو نوکری ہمیں دبئی میں چاہئے۔ مرنا ہمیں مکہ میں ہے اوردفن ہم مدینہ میں ہونا چاہتے ہیں۔ پاسپورٹ ہمیں کینیڈا کا چاہئے۔ آخر ہم چاہتے کیا ہیں ؟
انسان جہاں پیدا ہوتا ہے۔ جس معاشرے میں اس کی تعلیم تربیت ہوتی ہے اس معاشرہ اور اس ماحول کے اثرات تادم حیات اس کے ساتھ رہتے ہیں… نئی زمینوں میں نئی بستیاں بسانے والوں کے لئے اپنی نئی نسل میں ان ثقافتی جڑوں اور اپنی روایتی سوچ کو منتقل کرنا ایک پیچیدہ اور مشکل مسئلہ ہے۔ مغرب کے کسی بھی معاشرہ میں پیدا ہوکر پروان چڑھنے والی نسل کے لئے ہمارے قدیم روایتی ڈھانچوں اور ہماری ثقافتی اقدار کو سمجھنے اور اختیار کرنے میں دقت پیش آتی ہے اورہم میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دو دنیاؤں کے بیچ معلق رہتے ہیں اور فیصلہ نہیں کر پاتے کہ کہاں کو جائیں …
ہم یہ مانتے ہیں کہ بہت سے غلط رسم و رواج، طبقاتی کشمکش نیز عورتوں اور کمزور طبقات کے مسائل معاشرہ میں موجود ہیں … لیکن ہماری ثقافت کے بہت سے مثبت پہلو بھی ہیں۔ ان ہی فرسودہ رسم و رواج میں بہت سی مثبت اور خوبصورت اقدار و روایات ہماری معاشرتی ، خاندانی اور انفرادی زندگی کا حسن بھی ہیں جن سے بے بہرہ ہوکرہماری اپنی کوئی شناخت نہیں …آج کے جدید رجحانات اور تہذیب حاضر کے دلکش تصورات کے زیر اثر مغرب کی تقلید میں ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی ایسی روایات پر بھی نکتہ چینی کرتے ہوئے خود کو ماڈرن اورمغربی معاشرت و تہذیب کا علم بردار ظاہر کرنے کے جنون میں مبتلا ہیں جو ہماری معاشرتی اور ثقافتی زندگی کا حسن ہیں۔ ہماری فرسودہ رویات اور غلط معاشرتی رسم و رواج میں عورتوں کے مسائل اور استحصال کی بات کرتے ہوئے جن قبیح رسوم کا ذکر کیا جاتا ہے وہ قطعی طور پر بجا ہیں جیسے جبری شادیاں یا غیرت کے نام پر قتل یا قرآن کے ساتھ شادی یا قصاص میں پیسے کے بدلے عورت کو نکاح میں دے دینا وغیرہ لیکن یہ تمام روایات معاشرے کا جزوی حصہ تو ہوسکتی ہیں تمام مشرقی اور ایشیائی معاشرت کی مجموعی تصویر نہیں… اور مغربی آزادی نسواں کے تصور اور نظریہ کو مشرقی معاشرت کے ساتھ جوڑنے کا عمل بھی کسی طور درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
پہلی بات یہ ہے کہ عورت کا استحصال صرف مشرقی یا ایشیائی ممالک میں ہی نہیں بلکہ مغرب میں بھی تمام تر آزادی اور جمہوری نظام معاشرت و سیاست کے باوجود پایا جاتا ہے۔ مرد کی بے وفائی اور ظلم و زیادتی کا شکار عورت مغربی معاشرہ میں بھی ہے۔ یہاں کی معیشت میں بھی عورتوں کے حقوق کا استحصال ہوتا ہے اور انہیں مردوں کے برابر معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا۔ مرد کی بے وفائی اور ظلم و زیادتی کا شکار عورت مغربی معاشرہ میں بھی ہے اور یہیں کے معاشرہ میں بھی جس قسم کے جذباتی کرب اور عدم تحفظ کا شکار عورت یہاں ہے وہ ہمارے معاشرہ میں نہیں۔ ہمارے ہاں شادی اور خاندان آج بھی ایک مضبوط اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارے مضبوط خاندانی ڈھانچے کی بدولت بچے زیادہ پراعتماد اور مکمل شخصیت کی مالک ہوتے ہیں… ہمارے رسم و رواج اور معاشرت نے جہاں عورت کو معاشرتی رسم و رواج کا پابند بنایا ہے وہاں مرد بھی شتر بے بہار کی طرح آزاد نہیں ہے۔ اس پر بھی خاندان اور معاشرہ کے ضابطوں اور اخلاقی حدود کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔ وٹے سٹے کی شادیوں سے صرف عورت ہی نہیں مرد کی زندگی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں … ہمارے مخصوص معاشرتی پس منظر میں مردوں کی اخلاقی تربیت اورذہنی رویوں کا ارتقا ہوتا ہے جہاں وہ اپنی پریشانیوں اور نفسیاتی الجھنوں کا پروپیگنڈا بھی نہیں کرتے۔ اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو بہت سے مرد بھی اس جاگیردارانہ نظام اور فرسودہ رسم و رواج کی بھینٹ چڑھائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں شادی بیاہ کے معاملات میں اگر عورت کی مرضی اور منشا کا خیال نہیں رکھا جاتا تو اس پس منظر میں مرد کی مرضی اور خوشی کو بھی اہمیت نہیں دی جاتی، دیہی اور قبائلی نظام میں اکثر بزرگ یا قبیلے کے سرکردہ لوگ ہی یہ طے کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے ثقافتی اور معاشرتی رشتوں اوررسم و رواج میں احترام اور رواداری جیسے ذہنی رویئے موجود ہیں اور نکاح جیسے مقدس بندھن کا احترام کیا جاتا ہے۔ جہاں عورت اس رشتے کو نبھانے کے لئے قربانیاں دیتی ہے وہاں مرد بھی اولاد اور بیوی کی کفالت اور رفاقت کے فرائض کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل رکھتے ہیں۔ ہمارے ملک کے معاشی حالات میں یہی مرد ہیں جو اپنے خاندان اور بچوں کے لئے وطن سے دور جاکر نوکریاں کرتے ہیں۔ تنہائی کا عذاب جھیلتے ہیں ، شب و روز محنت اور مزدوری کرتے ہیں۔ اپنی جوانی، اپنی خواہشات اور اپنی پوری عمر بچوں اور خاندان کی خوشحالی کے عوض تیاگ دیتے ہیں … ہمارے معاشرے کی اگر صحیح تصویر دیکھنی ہے تو اس کے دونوں رخ دیکھئے۔ اسی طرح اگر اپنی معاشرت کا آپ جدید معاشرت اور جدید دنیا سے تقابل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے بھی دونوں رخ دیکھئے۔ سیاسی ، سماجی یا معاشرتی آزادی کی خواہش میں ہر پرانے ضابطے اور حد کو توڑ دینا بھی سود مند نہیں ہووتا اور نئی روشنی کی چکا چوند میں ہر چمکتی ہوئی شے سونا نہیں بن جاتی۔ روایت پرستی اور جدت پرستی کے درمیان ایک متوازن سوچ کی ضرورت ہے۔ انتہا پسندی کسی بھی طرح کی ہوکبھی سود مند نہیں ہوتی وہ چاہے مذہبی انتہا پسندی ہو یا تہذیب حاضر کی اندھی تقلید میں انتہا سے گذر جانے کا جنون…
ہم اپنی تہذیبی روایات سے منہ موڑ کر نہ انفرادی اور نہ قوی سطح پر کوئی پروقار مقام حاصل کرسکتے ہیں۔ آج کی ترقی یافتہ قوموں پر بھی نظر ڈالئے تو وہ اپنی زبان اور تہذیب وروایات کے دائرے میں رہتے ہوئے احساس تفاخر کے ساتھ دور جدید کے تقاضے پورے کررہی ہیں۔ تہذیب و ثقافت کی جڑیں صرف کسی خطہ زمین تک محدود نہیں ہوتی ہیں بلکہ یہ تو افراد کے ذہنوں ، ان کے احساس اوران کے شعور میں پیوست ہوتی ہیں البتہ نسل در نسل ان روایات کی منتقلی کے لئے قومی احساس ذمہ داری، داخلی شعور اور باہمی ربط و ضبط کی ضرورت ہوتی ہے…
ہر مٹی کی اپنی خوشبو اور ہر پھول کا اپنا رنگ ہوتا ہے جس طرح مٹی سے خوشبو اور پھول سے رنگ نہیں چرایا جاسکتا اسی طرح اپنی خوشبو کو چھوڑ کر کسی دوسری تہذیب کا رنگ و خوشبو اختیار کرنا ہمیں راس نہیں آسکتا۔ فطرت کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ زمین کی اپنی خاصیت ہوتی ہے۔ مٹی اسی پودے کو گود لیتی ہے جو اس سے مطابقت رکھتا ہو۔ اس کے مزاج سے ہم آہنگ ہو۔ سبزے پر نظر ڈالئے۔ پھولوں کو دیکھئے، موسموں کو محسوس کیجئے، دنیا کے مختلف طبعی اور موسمی خطے ہیں اور ہر خطے کے پھل، پھول ،سبزیاں الگ الگ خاصیت الگ الگ ذائقہ، الگ الگ خوشبو اور الگ الگ صورتیں رکھتے ہیں۔ ہوا ، پانی اور مٹی انسانی زندگی کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ جب اس کرہٴ ارض پر ہوا، پانی اور موسم سب کی اپنی اپنی الگ خاصیت، پہچان اورتہذیب ہے تو بھلا انسانوں کی تہذیب کیونکر اپنی انفرادیت کھو سکتی ہے یا اپنے معنی بدل سکتی ہے یا اپنی چغہ اتار کر کوئی دوسرا لباس پہنچ سکتی ہے۔