یوں تو جون میں پورئے ملک میں گرمی عروج پر ہوتی ہے تو دوسری جانب اسی مہینے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بجٹ کے حوالے سے سیاسی موسم بھی اکثر گرم ہی رہتا ہے ، ایک جانب عوام کی نگاہیں وفاقی بجٹ میں حکومت کی جانب سے انہیں ریلیف دینے اور نئے ٹیکسز پر لگی ہوتی ہیں تو دوسری جانب بلوچستان میں عوام کی نگاہیں حکومت کے بجٹ پر ہوتی ہیں تو دوسری جانب صوبائی حکومت کی نظریں وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے منصوبوں کو شامل کیے جانے پر لگی رہتی ہیں ، ملک میں برسر اقتدار آنے والی قریب تمام حکومتوں کی جانب سے یہ بات ہمیشہ کی جاتی رہی ہے کہ بلوچستان کی ترقی ہی دراصل پاکستان کی ترقی ہے لیکن شائد ہی کبھی اس نعرئے پر کسی حکومت نے قابل اطمنان انداز میں یا مکمل طور پر کوئی پیشرفت کی ہو۔
بلوچستان کی پسماندگی کے خاتمے اور یہاں کی ترقی کے وعدئے بھی قریب اگرچہ ہر حکمران نے کیے لیکن کیا اس سلسلے میں بھی عملی اقدام کیا گیا اس پر بحث کی شائد ضرورت نہ پڑئے کیوں اپنا دور اقتدار پورا کرکے جانے والی شائد ہی کوئی حکومت یہ دعویٰ کرسکے کہ وہ بلوچستان کی ترقی کے وعدوں پر مکمل یا بہت بڑی حد تک عمل کرنے مین کامیاب ہوئی ہو ، وفاقی ترقیاتی پروگرام پی ایس ڈی پی میں ہمیشہ بلوچستان کے اربوں روپے کے منصوبے شامل تو کیے جاتے رہے ہیں لیکن ایسا شائد ہی کبھی ہوا ہو کہ وفاقی پی ایس ڈی پی میں شامل بلوچستان کے تمام منصوبوں کے لئے مختص رقم جاری کی گئی ہو ، اس کی ذمہ داری کسی ایک حکومت پر نہیں ڈالی جاسکتی ہے۔
اکثر ایسا ہی ہوتا رہا ہے ،گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے سالانہ پلاننگ کواڈی نیشن کمیٹی کے اجلاس میں بطور وزیر پی اینڈ ڈی اور صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے یڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی تھی اجلاس سے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے وفاقی پی ایس ڈی پی میں صوبے کو نظر انداز کرنے اور بلوچستان کے منصوبوں کو زیر التوا رکھنے کے خلاف واک آؤٹ کیا جبکہ صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے وفاقی پی ایس ڈی پی سے 162 ارب روپے کے منصوبے نکالنے پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی بیوروکریسی کی عینک میں بلوچستان نظر نہیں آتا جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں کو نظر انداز کرنے پر موقف اختیار کیا کہ بلوچستان کیلئے جو حصہ رکھا جاتا ہے اس پر بھی عملدرآمد نہیں ہوتا ، انہوں نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے واضح کیا کہ پلاننگ کمیشن کو صوبے کا کوئی احساس نہیں ۔ گوادر سی پیک ، ریکوڈک ، تیل ، گیس سارے وسائل بلوچستان میں ہیں۔
لیکن بیشتر عوام خطے میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں لاک ڈاون کے دوران بلوچستان کے مزید 5 لاکھ 20 ہزار گھرانے غربت کا شکار ہوئے ہیں بلوچستان کے ترقیاتی منصوبے نظرانداز کرنے پر احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے اور صوبے کے حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے 80 ارب کی اسکیموں پر نصف پر بھی عملدرآمد نہیں کیا گیا صوبے کے انتہائی اہمیت کے حامل 35 منصوبے نظر انداز کئے گئے پلاننگ کمیشن ، وفاقی بیوروکریسی کا رویہ غیر مناسب ہے جس پر اجلاس سے وہ واک آؤ ٹ کرگئے ۔
اس قدر اعلیٰ سطح کے اجلاس سے وزیر اعلیٰ بلوچستان کا واک آوٹ یقینی طور پر کوئی معمولی بات نہ تھی ، جس کا فوری طور پر وزیراعظم عمران خان نے نوٹس لیا اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کی قیادت میں ملاقات کرنے والے بلوچستان عوامی پارٹی کے ایک وفد سے بات چیت میں وفاقی منصوبوں کے حوالے سے بلوچستان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے یقین دلایا کہ بلوچستان کے عوام کی فلاح و بہبود اور صوبے کی سماجی و معاشی ترقی وفاق کی اولین ترجیحات میں شامل ہے جس کیلئے صوبائی حکومت کو ہرممکن تعاون فراہم کیا جائے گا جبکہ ملاقات میں وزیراعلیٰ بلوچستان نے وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کو نظرانداز کرنے سے آگاہ کرتے ہوئے وزیر اعظم کو وفاقی پی ایس ڈی پی میں صوبے کو اس کا جائز حق دینے کے حوالے سے موقف پیش کیا جس پر وزیراعظم عمران خان نے یقین دلایا کہ بلوچستان کے عوام کی فلاح و بہبود اور صوبے کی سماجی و معاشی ترقی اولین ترجیحات میں شامل ہے جس کیلئے صوبائی حکومت کو ہرممکن تعاون فراہم کیا جائے گا۔
بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے صوبے کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کریں گے ۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بلوچستان کو 7 این ایف سی ایوارڈ میں آئینی تحفظ حاصل ہے کہ اس کا حصہ کم نہیں کیا جاسکتا لیکن بلوچستان کے وفاقی پی ایس ڈی پی میں منصوبوں پر نہ صرف کٹ لگتا رہا ہے بلکہ صوبے میں وفاقی پی ایس ڈی پی کے فنڈز لیپس بھی ہوتے رہے ہیں ، دوسری جانب بلوچستان اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کی جانب سے صوبائی حکومت پر اپوزیشن کے حلقوں کو ترقیاتی منصوبوں میں نظر انداز کرنے اور صوبے کی حکمران جماعت کے گزشتہ عام انتخابات میں شکست کھا جانے والوں کو ترقیاتی فنڈز سے نوازنے کے الزامات ایک بار پھر لگائے جارہے ہیں ، گزشتہ دنوں بلوچستان اسمبلی میں متحدہ حزب اختلاف کے ارکان کا اجلاس اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈوکیٹ کی صدارت میں ہوا۔
جس میں فیصلہ کیا گیا کہ بجٹ 2020-21 میں صوبائی حکومت متحدہ اپوزیشن کو مکمل اعتماد میں لیکر تمام انتخابی حلقوں کی برابری کی بنیاد پر ترقیاتی عمل کو یقینی بنائے بصورت دیگر اس سلسلے میں آئینی قانونی جدوجہد کی جائے گی۔ایک جانب وفاقی پی ایس ڈی پی سے بلوچستان کے منصوبوں پر کٹ لگائے جانے کا معاملہ ہے تو دوسری جانب صوبے میں متحدہ اپوزیشن کی جانب سے آئندہ بجٹ میں اپوزیشن کو اعتماد میں لینے اور تمام حلقوں کو یکساں فنڈز دینے کا مطالبہ ہے گیند اب صوبائی حکومت کے کورٹ میں ہے دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی بجٹ کے حوالے سے صوبائی حکومت کے تحفظات دور نہ کیے گئے تو صوبائی حکومت کا ردعمل کیا ہوگا اور صوبے میں حکومت بجٹ کے حوالے سے اپوزیشن کے تحفظات کس حد تک دور کرتی ہے ۔