• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر شاہد احمد، کراچی

ڈاکٹر محمود حُسین نے تعلیم جیسے میدان میں طویل عرصے تک قوم کی بے لوث خدمت کی۔ آپ ایک مثالی استاد ، ماہرِ تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک زیرک سیاست دان بھی تھے۔ اور وزیرِ تعلیم ، محقّق ، تاریخ داں اور جامعۂ کراچی کے مسودئہ قانون کے خالق بھی ۔ 

جس کے تحت جامعہ کراچی کا قیام عمل میں آیا ۔ ڈاکٹر محمود حُسین خان نے5 جولائی 1907ء کو ہندوستان کی ایک بستی قائم گنج، ضلع فرّخ آباد ،یوپی کے ایک تعلیمی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپ سات بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ بڑےبھائی، ڈاکٹر ذاکر حُسین خان جامعہ ملیہ ،دہلی کے وائس چانسلر اور بھارت کے صدر رہے۔ اسی طرح ان کے دوسرے بھائی پروفیسر ڈاکٹر یوسف حُسین خان ماہرِ اقبالیات کے علاوہ جامعہ علی گڑھ کے پرووائس چانسلر رہے ۔ پاکستان کی معروف ادیبہ، ثاقبہ رحیم الدّین آپ کی بیٹی ہیں۔

ڈاکٹر محمود حُسین نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول ،اوٹاوہ اور گورنمنٹ ہائی اسکول، علی گڑھ میں حاصل کی ۔بعد ازاں ان کا داخلہ جامعہ ملیہ میں کروادیا گیا، جہاںسے انہوں نے 1924ء میں میٹرک پاس کیا۔ 1926ء میں جامعۂ ملّیہ ، دہلی سے انٹراور1928ء میں بی اے کیا۔ اس کے بعد1929ء میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی چلے گئے اور ہائیڈل برگ یونی وَرسٹی سے 1932ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1939ء میں آل انڈیا ریڈیو کے مشیر بھی رہے۔ 1947ء میں ڈھاکا یونی وَرسٹی کے شعبۂ تعلقات عامّہ کے پروفیسر مقرر ہوئےاور اپنےاعلیٰ کردار اور اخلاق کی بدولت وہاں کے تعلیمی حلقوں میں بہت جلد مقبولیت حاصل کرلی ، بعدازاں، قومی اور سیاسی معاملات میں بھی بہت اہم کردار اداکیا۔ 

آپ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے رُکن بھی تھے۔ سیاسی معاملات میں شان دار خدمات انجام دینے کے بعد 4جولائی 1953ء میں درس و تدریس کی طرف دوبارہ لوٹ آئے اور جامعۂ کراچی سے بطورپروفیسر اور صدر شعبہ ٔتاریخ منسلک ہوئے۔ بعدازاں، ڈین آف آرٹس مقرر کیے گئےاور15دسمبر 1960ء کو ڈھاکا یونی وَرسٹی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے تعیّناتی ہوگئی۔ مسائل کے اعتبار سے وہ خاصا پُرآشوب دَور تھا۔ لسانی عصبیت کے سبب تعلیمی ماحول پراگندہ ہونا شروع ہوچُکا تھا۔ پاکستان کے خلاف تخریبی کارروائیاں بڑے تواتر سے جا ری تھیں، لیکن ڈاکٹر محمود حُسین نے اپنی باکمال شخصیت، بردباری اور تحمّل مزاجی سے وہ وقت نہایت باوقار انداز میں گزارا۔ 

وہ ہمیشہ مسلم آئیڈیالوجی کی ترجمانی کرتے رہےاور 19فروری 1963ء کو بہت با عزّت انداز سے وائس چانسلر کے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ پھر 20 فروری 1963ء میں جامعۂ کراچی کے شعبۂ تاریخ میں بحیثیت پروفیسر و صدر شعبہ دوبارہ اپنی ذمّے داریاں سنبھالیں۔1964ء میں پروفیسر محمود حُسین ہائیڈل برگ یونی وَرسٹی، جرمنی سے اور 1965ء میں کولمبیا یونی وَرسٹی، نیویارک سے بحیثیت وزیٹنگ پروفیسر وابستہ رہے۔ 14اگست 1971ء کو جامعہ کراچی کے چوتھے وائس چانسلر مقرّر کیے گئے۔

ڈاکٹر صاحب جامعہ کراچی کے بانیان میں سے تھے۔انہوں نے جامعہ کراچی کے تعلیمی ماحول کو صحت مندانہ خطوط پر استوار کرنے کے لیے بہت کام کیا۔ جامعہ کی خراب مالی حالت کا سامنا ہمیشہ خندہ پیشانی سے کیا اورمسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں کوشاں رہے۔ آپ نے پوری تن دہی سے کوشش کی کہ جامعہ کراچی کا معیار بہتر سے بہتر رہے۔ شعبۂ سندھی کا قیام، اطلاقی کیمیا ، اطلاقی طبیعات کا علیحدہ شعبہ، اپلائیڈ اکنامکس کا تحقیقاتی شعبہ قائم کیا۔ 

انہی کے دَور میں شعبہ فارمیسی کا قیام عمل میں آیا۔ڈاکٹر صاحب نے جامعۂ کراچی اور مُلک بھر میں لائبریریاں بنانے کے سلسلے میں بھی بہت کام کیا۔ 1974ء میں انہوں نے جامعہ کراچی کی ترقیاتی امداد کا نصف حصّہ یونی وَرسٹی کے کُتب خانے کے لیے مختص کیا۔ اس سے پہلے یونی وَرسٹی کی تاریخ میں کتب خانے کی ترقّی کے لیے اتنی بڑی امداد کبھی مختص نہیں کی گئی تھی۔ آپ ہی کی کوششوں کی بدولت یونی وَرسٹی گرانٹس کمیشن نے کتب خانے کے لیے 3لاکھ روپے کی خصوصی گرانٹ دی اور حکومتِ سندھ نے بھی ایک لاکھ اسّی ہزار روپے کتب خانے کے لیے منظور کیے۔اسی سال جامعہ کےسالانہ بجٹ میں بھی یو نی وَرسٹی کے کتب خانے کے لیے ایک حصّہ مختص کیا گیا۔ اس سے قبل سالانہ بجٹ میں کتب خانے کے لیےعلیحدہ رقم نہیں رکھی جاتی تھی۔ 

ان کی خواہش تھی کہ مُلک کے کونے کونے میں کتب خانے کھولے جائیں اور لوگوں میں مطالعے کا ذوق پیدا کیا جائے۔ ڈاکٹر محمود حُسین کی کتب خانوں کے لیے خدمات اور دل چسپی ہی کی بنا پر ان کی وفات کے بعدجامعۂ کراچی کے کتب خانے کا نام ’’ڈاکٹر محمود حُسین لائبریری ‘‘ رکھا گیا۔ ڈاکٹر صاحب ایک ممتاز مؤرخ اور ماہر ِتعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ مصنّف بھی تھے۔ ان کی تصنیفات میں سیکڑوں مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مقالے شامل ہیں۔ تعلیمی میدان میں ان کی گراں قدر خدمات کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں۔ وہ 12 اپریل 1975ء کو اس جہانِ فانی سے کُوچ کر گئے، پر ان کے جانے سے تعلیمی میدان میں جو خلا پیدا ہوا، وہ شاید آج تک بھی پُر نہیں ہو سکا۔

تازہ ترین