• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گیڈون راچ مین

چین کیا منصوبے بنارہا ہے؟ہانگ کانگ سے لے کر تائیوان تک اور بحیرہ جنوبی چین سے بھارتی سرحد تک صدر شی جنگ پنگ کی قیادت میں چینی حکومت مزید جارحانہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔نہ صرف امریکا بلکہ بھارت، برطانیہ،جاپان اور آسٹریلیا میں بھی چین کے طرزعمل کے بارے میں تشویش پائی جارہی ہے۔

ہوسکتا ہے کہ چین کی حکومت یہ محسوس کررہی ہو کہ دنیا اس وقت کورونا وائرس کی جانب متوجہ ہے اس لئے یہ کارروائی کیلئے بہترین وقت ہے۔امریکا کی سڑکوں پر ہنگاموں نے مغرب کو مزید تقسیم اور بدحواس کردیا ہے۔لیکن جمہوری ریاستیں مشرقی ایشیاء پر اپنی توجہ کھونے کی متحمل نہیں ہوسکتیں۔ ایک نیا عالمی بحران اس وبائی مرض سے کہیں زیادہ سنگین طویل المدتی نتائج کے ساتھ آسانی سے پھوٹ سکتا ہے۔

چین کی بڑھتی ہوئی خوداعتمادی تفاخر اور دماغی خلل دونوںکی عکاسی کرتی ہے۔

40 سال کی تیز اقتصادی ترقی کے بعد اب کچھ اقدامات کے باعث چین دنیاکی سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے۔ اس کی بحریہ میں امریکا سے زیادہ جنگی جہاز اور آبدوزیں ہیں۔اس کے انٹرنیٹ پر قوم کے بے رحمانہ عروج کے بارے میں قوم پرستی کی باتیں ہوتی ہیں۔

چینی تاریخ کی سب سے بڑی کمائی کرنے والی فلم ولف وارئیر 2 ہے ، 2017 میں ریلیز ہونے والی ریمبو طرز کی ایکشن فلم میں چینی کے بہادر سپاہیوں کو ایک امریکی نسل پرست کی زیرسربراہی مادہ پرستوں کے ساتھ لڑتے دکھایا گیا ہے۔فلم کے ایک تشہیری پوسٹر میں یہ نعرہ لگایا گیا ہے کہ جو بھی چین کی توہین کرتا ہے ،چاہے وہ کتنا دور کیوں نہ ہو ، اسے ختم کیا جانا چاہئے۔جب چینی سفارتکار دھمکیوں اور توہین آمیز جوابات کے ساتھ چین پر تنقید کا جواب دیتے ہیں تو کہاجاتا ہے کہ وہ اکثر وولف واریئر ڈپلومیسی کی مشق کرتے ہیں۔

تاہم فخر کے ساتھ ساتھ چین میں حکومت کے اعلی سطح پر دماغی خلل کی بہت ساری وجوہات ہیں۔گزشتہ 12 ماہ نےصدر شی جنگ پنگ کو دھمکیوں اور چیلنجوں کی ایک بے مثال حد کے ساتھ پیش کیا۔وبائی مرض کی وجہ سے چین پر عالمی آفت کی ذمہ داری کا وسیع پیمانے پر موردالزام ٹھہرایا گیا ہے۔ایک ایسی حکومت جو یقین کرتی تھی کہ اسے معاشرتی استحکام کو برقرار رکھنے کے لئے سال میں 8 فیصد اضافے کی ضرورت ہے اب اسے امریکا کے ساتھ تجارتی جنگ کے ساتھ ساتھ گہرے معاشی سکڑاؤ سے نمٹنا ہے۔

ہانگ کانگ میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری جمہوریت نواز احتجاج کمیونسٹ پارٹی کی اتھارٹی کیلئے سخت چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اور جنوری میں تائیوان کی صدر سائی اینگ وین کی دوبارہ انتخابی کامیابی حاصل کرنا چین کی تذلیل ہے جس نے ان کی ناکامی کیلئے سخت جدوجہد کی تھی۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ سب حکومت میں گھیراؤ کی ذہنیت پیدا کررہی ہیں۔اس کے ردعمل میں چین نے اپنی قوم پرستی کی اپیل میں شدت پیدا کردی ہے۔پروپیگنڈے کا مقصد لوگوں کی توجہ بیرونی خطرات کی جانب مبذول کرانا اور کووڈ ۔19 کے حوالے دنیا کے غصہ کو چین کی جانب سے ہٹانا ہے۔

چین کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں تیزی سے جرأت مندانہ اور جارحانہ ہوتی جارہی ہیں۔ہانگ کانگ پر قومی سلامتی کا نیا قانون کا نفاذ،جس کے تحت آزاد شہر پر چین طرز کے سینسر شپ لگانے کا خطرہ ہے۔تائیوان کو دہشت زدہ کرنے کیلئے فوجی مشقوں اور بیان بازی کو تیز کردیا گیا ہے۔ بحیرہ جنوبی چین میں محاذ آرائی کی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے،جس کا مقصد ملائیشیا اور ویتنام جیسے دعویدار حریفوں کو متوجہ کرنا ہے۔

ہزاروں چینی فوجیوں نے متنازع سرحد پر بھارتی فوج کے ساتھ جھڑپ کی ہے اگرچہ ہلاکتوں کی تعداد نامعلوم ہے۔بھارت کے کچھ حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ چین نے تقریباََ 40 سے 60 مربع کلومیٹر بھارتی علاقے پر قبضہ کرلیا ہے۔کووڈ19کے حوالے سے چین پر تنقید کرنے والے ممالک کو وولف واریئر ڈپلومیسی کی خوراک دی جارہی ہے،آسٹریلیا کی جانب سے وبائی مرض کی بین الاقوامی تحقیقات کے مطالبے پر چین نے کچھ آسٹریلوی برآمدات پر ٹیرف نافذ کردیا۔

شی جنگ پنگ حکومت واقعتاََ اس پر قائل ہوسکتی ہے کہ حریف بیرونی طاقتیں چین کے خلاف سازشیں کررہی ہیں۔لیکن یہ سمجھنا کہ دنیا چین کے نقطہ نظر سے کیسے نظر آتی ہے،بتدریج منظوری میں نہیں بدل سکتا۔اگرچہ صدر شی جنگ پنگ اور ان کے ساتھیوں کو پختہ یقین ہے کہ چین کے اقدامات فطرت کے لحاظ سے دفاعی ہیں ،وہ جس نظام کا دفاع کررہے ہیں وہ ایک جماعتی ریاست ہے جوغیر متناسب بین الاقوامی مطالبات کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اندرون اور بیرون ملک تنقید کو دبانے کی کوشش کرتی ہے۔

چین اپنے معاملے میں قانونی،سفارتی اور تاریخی بنیادوں پر استدلال دے گا۔لیکن یہ سوائےاس کے کہ چین کی جانب سے ہانگ کانگ اور تائیوان کی آزادی کو خطرہ لاحق ہونے کی وجہ سے سراسیمہ کرنے کے ایشیاء اور مغربی جمہوری ممالک کو کبھی بھی قائل نہیں کرسکے گا ۔

حقیقت یہ ہے کہ چین اکیسویں صدی کی ابھرتی ہوئی طاقت ہے اس کا مطلب ہے کہ چین کے اقدامات کے عالمی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔دنیا بھر کے ممالک وولف واریئر ڈپلومیسی کو دیکھ رہے ہیں اور کوئی تعجب نہیں ہوگا اگر وہ جبر کے اس سلسلے میں آئندہ نشانہ ہوں گے۔

چین کی پالیسی ہمیشہ سے ہی ان ممالک کو مثال بنانا ہے جو اسے ناپسند کرتے ہیں۔ چین کو پریشان کرنے والی غیرملکی قوموں یا قائدین کو اجلاسوں اور کاروباری معاہدوں سے نکال باہر کیا گیا۔یہ تدبیریں اکثر کارآمد ثابت ہوتی ہیں کیونکہ عالمی ردعمل کافی منقسم ہے۔چین پر تنقید کرنے والوں کو سزا دی جاسکتی ہے ، جیسے آسٹریلیا کے ساتھ ہوا ہے۔گزشتہ کئی برس کے دوران چین نے سیکھا ہے کہ ایک جارحانہ ردعمل اکثر کام کرتا ہے ، اور غیر ملکی ناقدین کو پیچھے ہٹنے پرمجبور کرتا ہے۔

شاید چین کے بارے میں پالیسی پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے مستقل رابطہ گروپ کی تشکیل کے ذریعے اس طرز عمل کو تبدیل کرنے کے لئے دنیا کی جمہوری جماعتوں کی طرف سے زیادہ متفقہ اور اصولی ردعمل کی ضرورت ہوگی ۔چین میں دماغی خلل اور قوم پرستی کے پیش نظر ایک خطرہ واضح طور پرموجود ہے کہ ایک سخت،زیادہ ہم آہنگ ردعمل اس سے بھی زیادہ جارحانہ ردعمل کو جنم دے گا۔لیکن سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ بیرونی دنیا مربوط جواب دینے کیلئے بہت زیادہ منقسم،بدحواس اور خوف زدہ ہے۔اس سے چین بہت زیادہ خطرات میں سے ایک خطرہ لینے پر راضی کرسکتا ہے،اور وہ ہے دنیا کو ایک نئے اور خطرناک بحران میں ڈالنے کا۔

تازہ ترین