سائنس داں ہر کام کو آسانی سے سر انجام دینے کے لیے متعدد روبوٹس تیار کر چکے ہیں ۔اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے ،حال ہی میں امریکا میں ایک ایسا روبوٹ تیار کیا گیا ہے جو سبزیوں کی کاشت کر سکے گا ۔اس نئے روبوٹ کے فارم پر مشینیں ’’دی برین ‘‘ (The Brain ) نامی سوفٹ وئیر کی زیر نگرانی ہرے پتے کی سبزیوں کی دیکھ بھال کررہے ہیں ۔اس روبوٹ کو آئرن آکس (Iron Ox ) نامی کمپنی نے تیار کیا ہے ۔اس کمپنی کے شریک بانی برینڈن الیکسینڈر کا کہنا ہے کہ ”ہم ایک فارم ہیں اور ہمیشہ فارم ہی رہیں گے۔“تاہم یہ کوئی عام فارم نہیں ہے۔انہوں نے مزید بتایاکہ اس کمپنی میں صرف 15 انسانی ملازمین ہیں اور باقی روبوٹس ملازمین ہیں جو ہرے پتوں کی سبزیوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
کمپنی بہت جلد سین فرینسسکو کے قریب سین کار لو س میں اپناکارخانہ کھول لے گی ۔ آٹھ ہزار مربع فیٹ رقبے پر پھیلا یہ ہائیڈرو پونک کارخانہ ان سے منسلک ہے اوراُمید کی جارہی ہے کہ ان کی سالانہ پیداوار قریباً 26000 سبزیاں ہوگی ۔یہ پانچ گنا بڑے فارم کی پیدا وار کے برابر ہے ۔آئر ن آکس کمپنی مکمل طور پر ایک آزاد فارم بنانا چاہتی ہے ،جس میں انسانی زراعتی ملازمین کی جگہ سافٹ وئیر اور روبوٹکس کا استعمال کیا جائے گا ۔فی الحال کمپنی نے اپنے تیار کردہ پھل اور سبزیاں فروخت نہیں کی ہے ۔اس حوالے سے ریستوران اور سبزی فروشوں کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے ۔اب صرف سلاد کے پتے ایک مقامی فوڈ بینک کو بھجوائے گئے ہیں۔
اس فارم کا غیرانسانی عملہ روبوٹک پرزوں پر مشتمل ہے۔ یہ پرزے پودوں کو ہائیڈروپونک ٹریز سے نکال کر بڑی ٹریز میں منتقل کرتے رہتے ہیں، جس سے ان کی صحت اور پیداوار دونوں ہی بہتر ہوتی ہے، ایسا کرنا کسی عام فارم کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ آٹھ سو پونڈ وزن رکھنے والی پانی سے بھری ٹریز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے بڑے میکانیکی آلات کا استعمال کیا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق پہلے تو ان مختلف مشینوں سے ایک ساتھ کام کروانا بہت پیچیدہ ثابت ہورہا تھا۔ الیکسینڈر کا کہنا ہے کہ ہم مختلف روبوٹس سے مختلف کام کروارہے ہیں، لیکن انہیں ایک ہی تخلیقی ماحول میں ضم نہیں کیا گيا تھا۔“یہی وجہ ہے کہ آئرن آکس نے اس رابطے کو بہتر بنانے کے لیے دی برین نامی سافٹ ویئر تیار کیا ہے، جو فارم پر کڑی نظر رکھتے ہوئے، نائٹروجن، درجۂ حرارت اور روبوٹ کے لوکیشن کی نگرانی کرتا ہے۔
اس کے علاوہ، وہ حسب ضرورت روبوٹس اور انسانوں دونوں ہی کی توجہ اپنی جانب کرتا ہے۔زیادہ تر عملیات کے آٹومیٹ ہونے کے باوجود بھی انسانی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وقت انسان پودوں کے بیج بونے اور پراسیسنگ میں مدد کرتے ہیں، لیکن الیکسینڈر کو اُمید ہے کہ ان مراحل کو بھی جلد ہی آٹو میٹ کردیا جائے گا۔ماہرین کو لگتا ہے کہ اس سے ایک ہی دفعہ میں دومسئلے تو جلد ہی حل ہوجائیں گے ایک تو زراعت میں کام کرنے کا فقدان اور دوسرا تازہ سبزیوں کے نقل وحمل کا مسئلہ۔
اس کمپنی کو اُمید ہے کہ یہ روبوٹس ملازمتیں ختم کرنے کے بجائے زراعتی صنعت کی افرادی قوت کی کمی کو پوری کرنے کے سلسلے میں معاونت فراہم کریں گے۔ علاوہ ازیں، سبزیوں کو شہری علاقوں کے قریب اُگانے سے دکانوں میں زيادہ تازہ سبزياں بھی دستیاب ہوں گی۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ اس اسٹارٹ اپ کمپنی کی قیمتیں اپنے روایتی حریفوں کے مدمقابل ہوں۔یونیورسٹی آف فلوریڈا میں زراعتی انجینئرنگ کے اسسٹنٹ پروفیسر یانس ایمپیٹزڈس کے مطابق روایتی کھیتی باڑی کا سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس کے لیے بہت زیادہ سر مایہ کاری ضروری ہوتی ہے۔
چھوٹے کسانوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا ہے ۔ اس طرح نئی ٹیکنالوجی تک رسائی کے حوالے سے بڑے اور چھوٹے فارمز کے درمیان بہت فرق پیدا ہوتا ہے۔ایمپیٹزڈس کا کہنا ہے کہ اندرونی اور بیرونی فارمنگ دونوں ہی میں آٹومیشن متعارف کرنے سے زراعتی صنعت میں افرادی قوت کے فقدان کا حل ممکن ہے۔ اگر امریکا میں ہجرت کا کوئی اور طریقہ نہ ڈھونڈا جائے، تو آٹومیشن کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔