ڈاکٹر مشتاق حسین
وائس پرنسپل، ڈاؤ کالج آف بایوٹیکنالوجی
موجودہ صدی میں بنی نوع انسان کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، مثال کے طور پر ماحولیاتی آلودگی، دہشت گردی، جوہری ہتھیاروں کا پھیلائو وغیرہ۔ البتہ یہ بات شاید ہی کچھ لوگوں کے وہم و گمان میں ہوگی کہ جاری صدی کے اوائل میں ہی دُنیا ایک عالمی وبا کا شکار ہو جائے گی۔ ہم اس وبا کو Covid-19 کے نام سے جانتے ہیں جو ایک وائرس SARS-Cov-2 کے باعث وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اس وبا کے آغاز کے بارے میں حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہا جا سکتالیکن شواہد اس بات کی نشاندہی کرتےہیں کہ اس کا آغاز گزشتہ سال نومبر کے اواخر یا دسمبر کے اوائل میں ہوا اور پھر کوئی چھ ماہ کے اندر اس وبا کا وائرس (SARS-Cov-2) پوری دُنیا میں پھیل گیا۔ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق دُنیا کی تقریباً ستّر لاکھ آبادی اس وائرس کا شکار ہو چکی ہے اور نتیجتاً ہونے والی اموات کی اعداد چار لاکھ سے زائد ہے۔
ابتدائی طور پر معلومات کے فقدان اور حالیہ دنوں میں ہونے والی تحقیقات کی سائنسی پیچیدگیوں کے باعث سائنسی علوم اور منطق سے نابلد عوامی اکثریت اس وائرس اور اس سے ہونے والی وبا کی نوعیت سے ناواقف رہی، جس کی وجہ سے ایک علمی اور شعوری خلاء پیدا ہوگیا۔ جسے کئی طرح کے سازشی نظریات سے پُر کیا گیا۔ سائنسی اصطلاحات کا غلط استعمال اور الفاظ کی فصاحت اور بلاغت ان میں سے کئی نظریات کو سطحی طور پر قابل قبول بنا دیتی ہے۔ مقابلتاً وائرس اور اس کی وبا کے سائنسی حقائق قدرے پیچیدہ ہیں جنہیں سمجھنے کے لئے حیاتیات کی پیش تر معلومات لازمی ہیں۔ نتیجتاً عوام کی ایک بڑی اکثریت نے انہیںسازشی نظریات کو زیادہ پذیرائی دی۔ غالباً ان نظریات میں ایک بہت بڑا مفروضہ SARS-Cov-2 کی ابتداء کے بارے میں ہے،جس کے مطابق یہ وائرس کسی تجربہ گاہ میں ارادتاً تخلیق کیا گیا ہے، تا کہ کچھ ممالک یا افراد کچھ خاص مذموم مقاصد حاصل کر سکے۔
SARS-Cov-2 پر کی جانے والی حالیہ تحقیقات اس مفروضہ کی سراسر نفی کرتی ہے اور اس بات کے واضح شواہد فراہم کرتی ہے کہ یہ مشابہہ نہیں تھا۔ البتہ اس کی اسپائک( Spike )پروٹین میں پائے جانے والے چھ اہم وائرس قدرتی ارتقاء کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے۔ لیکن ان شواہد کو سمجھنے کے لئے حیاتیات کی کچھ بنیادی معلومات سے آگاہی ضروری ہے۔ لہٰذا SARS-Cov-2 کی ابتداء کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے اس کی ساخت کا جائزہ لینا ہوگا۔
SARS-Cov-2 کا وائرس انتہائی چھوٹا ہوتا ہے جسے عام خوردبین سے بھی نہیں دیکھا جا سکتا اور اُسے دیکھنے کے لئے ایک خاص خوردبین کی ضرورت ہوتی ہے جسے الیکٹران مائیکرو اسکوپ کہا جاتا ہے۔ ساختی اعتبار سے یہ وائرس دائرے کی شکل کا ہوتا ہے اور اس کا خول پروٹین کا بنا ہوتا ہے۔ اس پروٹین کے اندر اس کا جینیاتی مادّہ RNA موجود ہوتا ہے، جب کہ پروٹین کے اُوپر کانٹے نما ساختیں موجود ہوتی ہیں۔ جنہیں اسپائک کہا جاتا ہے،جس طرح ہمارے کمپیوٹر اور موبائل میں چلنے والی ساری معلومات کوڈز کی شکل میں ان کےسافٹ ویئر میں موجود ہوتی ہیں بالکل اُسی طرح اس وائرس کی ساخت اور اس کی بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت کی ساری معلومات اس کے جینیاتی مادّے RNA میں موجود ہوتی ہے۔ یہی RNA اس بات کا تعین کرتا ہے کہ اس وائرس کا خول کیسے ہوں گے اور اس کا اسپائک کیسا ہوگا۔ مجموعی طور پر یہ معلومات وائرس کے RNA میں تقریباً تیس ہزار کوڈز کی شکل میں موجود ہوتی ہے۔
حالیہ سائنسی تحقیقات نے یہ بات ثابت کی ہے کہ انسانی SARS-Cov-2 کا جینیاتی مادّہ ایک خاص طرح کی چمگادڑ (Rhino lophus) میں پائے جانے والے وائرس کے جینیاتی مادّے سے 96% مشابہہ ہے۔ البتہ جب انسان اور چمگادڑ کے جینیاتی مادّے کا موازنہ صرف اس حصے پر مخصوص کر دیا گیا جن سے اسپائک پروٹین بنتی ہے تو یہ معلوم ہوا کہ یہ دونوں وائرس ایک دوسرے سے خاصے مختلف ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وائرس پر موجود اسپائک پروٹین ہی اس بات کا تعین کرتی ہے کہ یہ وائرس کن جانداروں پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔ اسپائک پروٹین بذات خود ایک بڑا مالیکیول ہے جو تقریباً ایک ہزار سے زائد چھوٹے چھوٹے مالیکیول سے مل کر بنتا ہے۔ ان چھوٹے مالیکیول میں سے کوئی چھ مالیکیول ایسے ہیں جو وائرس کے مختلف جانداروں میں حملہ کرنے کی صلاحیت کا تعین کرتے ہیں، چوں کہ چمگادڑ اور انسان میں پائے جانے والے وائرسز میں یہ چھ مالیکیولز مختلف ہے۔ لہٰذا یہ بات قدرے وثوق سے کہی جا سکتی ہے یہ وائرس براہ راست چمگادڑ سے انسانوں میں منتقل نہیں ہوا ہے۔
SARS-Cov-2 سے ملتا جلتا ایک وائرس SARS-Cov-1 ،2003ء میں انسانوں میں ایک محدود پیمانے پر پھیلنے والی وبا کا موجب بنا تھا۔ جب ان دنوں وائرسز کی اسپائک پروٹین کے انہی چھ مالیکیولز کا موازنہ کا گیا تو صرف ایک مالیکیول مشابہہ پایا گیا ،جب کہ پانچ مختلف پائے گئے اسپائک پروٹین میں موجود یہ چھ مالیکیول وائرس کو انسانی خلیات میں پائی جانے والی ایک پروٹین ACE-2 سے جڑنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ مزید تحقیقات سے اس بات کےشواہد ملے ہیں کہ SARS-Cov-2 میں پائی جانے والی اسپائک پروٹین کی پانچ تبدیلیوں کے باعث یہ SARS-Cov-1 کے مقابلے میں انسانی خلیات کے ACE-2 سے زیادہ مضبوطی سے جڑتا ہے، جس سے اُس کی بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگیا ہے۔
البتہ کمپیوٹرز کی مدد سے کی جانے والی تحقیقات سے اس بات کا پتہ چلا کہ وائرس کے اسپائک پروٹین کے ان چھ اہم مالیکیولز میں کچھ ایسی تبدیلیاں بھی ممکن ہیں جو اس وائرس کو انسانی خلیات کے ACE-2 سے SARS-Cov-2 کے مقابلے میں اور زیادہ مضبوطی سے جوڑ سکتی ہے۔ لہٰذا اگر یہ وائرس ارادتاً کسی تجربہ گاہ میں تخلیق کیا جاتا تو اس وائرس کی اسپائک پروٹین میں وہ تبدیلیاں پائی جاتیں جن کی نشاندہی کمپیوٹرز نے کی نہ کہ وہ تبدیلیاں جو کہ درحقیقت اس میں موجود ہیں۔
مزیدبرآں یہ کہ نومبر کے آخر میں چین کے شہر ووہان کی مارکیٹ میں غیرقانونی طور پر ایک جانور Pengolin لیا گیا ، جس میں پائے جانے والے وائرس کا جینیاتی مادّہ تو انسانی SARS-Cov-2 سے زیادہ مشابہہ نہ تھا۔ البتہ اس کی اسپائک پروٹین میں پائے جانے والے چھ اہم مالیکیولز انسانی SARS-Cov-2 سے خاصے مشابہہ ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ چین میں پائے جانے والی چمگادڑ کا وائرس سب سے پہلے ممکنہ طور پر Pengolin میں منتقل ہوا۔ Pengolin کے جسم میں ان دونوں وائرسز کی افزائش نسل بیک وقت ہوئی، جس کے نتیجے میں ایک ایسا وائرس وجود میں آیا ،جس کا جینیاتی مادّہ خاصی حد تک تو چمگادڑ سے مشابہہ تھا لیکن اس کی اسپائک پروٹین Pengolin کے وائرس کے مشابہہ تھی اور پھر Pengolin سے یہ وائرس انسانوں میں منتقل ہوگیا۔