کووڈ۔19ایک نئی وبائی بیماری ہے، جس کا ذریعہ ایک وائرس ہے۔ جس نے موجود ہ وقت میںتودنیا کے ہر بڑے اور چھوٹے ملک کو نشانہ بنایا ہوا ہے، جس کے باعث ابھی تک لاکھو ں انسان ہلاک ہوچکے ہیں۔ پوری دنیا کی معیشت کی تباہی سے لاکھوں اور کروڑوں افراد بے روز گار ہوچکے ہیں چوں کہ اس کاوائرس چکنائی کے غلاف میں ڈھکا ہواہوتا ہے جسے انگریزی میں کورونا کہتے ہیں۔اسی لیے اس کوکورونا وائرس کہا گیا جس میں19 ا س کی در یافت کا سال ہے۔
پاکستان میں اب تک اس سے ہزاروںافراد متاثراور کئی ہزار افراد اپنی جان کھو چکے ہیں ۔اس کے باوجود پاکستا ن میں شر ح اموات دوسرے ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے یعنی صرف 2 فی صد ہے ۔البتہ صحت مند ہونے والے افراد کی تعداد پاکستان میں 36 فی صد ہے ۔
وینٹی لیٹر۔پر کتنے مریض صحت یاب ہوتے ہیں؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے مریض ہسپتال کے بیڈ پر زیادہ عرصہ گزارتے ہیں۔ کورونا وائرس کےشروع میں وینٹی لیٹر کا ذکر بڑے زور ا ور شور سے کیا جاتا تھا۔ذرائع ابلاغ پر روزانہ وینٹی لیٹر پو موجود لوگوں کی تعداد بھی بتائی جاتی تھی ۔ وینٹی لیٹر ایک مہنگی مشین ہے جو تنفس کی دشواری اور آکسیجن کی سپلائی میں جسم کی مددگار ہوتی ہے،جس کی قیمت تقریبا ًدس لاکھ روپیہ بنتی ہے اور یہ باہر سے منگوائے جاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ وینٹی لیٹر پر رکھے جانے والے کتنے لوگ صحت یاب ہوتے ہیں ؟روزانہ یہ بھی بتانا چاہیے کہ کتنےاشخاص وینٹی لیٹر پر صحت یاب ہوئے ہیں ،کیوں کہ اگر وینٹی لیٹر پر رکھنے جانے والے زیادہ لوگ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگاکہ اس کو استعمال کرنے والا عملہ تر بیت یافتہ نہیں ہے ۔
کووڈ19 کاعلاج۔ پہلی موئثر دوا
اب جب کہ تمام دنیا بیتابی سے کووڈ19 کی وبا کے علاج کا انتظار کر رہی ہے،ایسے میں ایک اینٹی وائرل دوا ریم ڈیزیورکے تجرباتی استعمال نے ایک روشن کرن دکھائی ہے۔ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اس دواکے استعمال سے صحت یابی کی مدت میں تیس فی صد تک کمی ہوئی ہے۔ گواس لحاظ سے اس کوپور ی طرح علاج کے زمرہ میں تو شامل نہیں کیا جاسکتا ہے، البتہ اس سے یہ اُمید ضرور ہے کہ اس کے استعمال سے نظام صحت پروبائی کووڈ کے پڑنے والے دبائو میں خاطر خواہ کمی ہوجائے گی۔
ریم ڈیزیور کی دریافت کے بعد ایک بڑا مسئلہ اس کو اتنی بڑی مقدار میں تیار کرنا اوران سب لوگوں کو فراہم کرنا ہے ۔جو اس عالمی وباسے متاثر ہیں۔ کیوں کہ اس کی تیاری کے مشکل طریقے کار کوبہ خو بی استعمال کرنے لیے انتہائی سائنسی مہارت درکار ہوگی۔ یہ ایسا عالمی چیلنج ہے جو اس سے پہلے کبھی عالمی دواساز اداروں کو پیش نہیں آیاتھا۔اس لیےایسی دواکی تیاری میں بڑی مشکل پیش آئے گی، کیوں کہ کروڑوں خوراکوں کو تیار کرنا آسان نہیں ہوگا۔
ریم ڈیزیور کو امریکی فوڈ اینڈڈرگ ایجنسی نے علاج کے لیے منظور کرلیا ہے، اس کے بعدجاپانی ادارے نے بھی اس کو منظور کرلیا ہے۔جیلیٹ سائنسیز نے اس کی عالمی سپلائی کےلیے تین بھارتی ، ایک بنگلادیشی اور ایک پاکستانی کمپنی کو اپنی دواکی جینرک شکل میں تیاری کےلیے معاہدہ کیا ہے۔ جہاں سے127 ممالک کو دوا بر آمد کی جاسکتی ہے۔ اُمید ہے کہ اگلے چند مہینوں میں پاکستان میں بھی یہ دوا دستیاب ہو گی۔تحقیق کرنے والے بڑی جانفشانی سے اس کے علاج کی دریافت میں لگے ہوئے ہیں اور کئی قسم کے علاج آزما رہے ہیں۔ جن میں ملیریا کی دوا بھی شامل ہیں ۔ در اصل ریم ڈیزیورپہلے ایبولا کے وائرس کے خلاف آزمائی گئی تھی ۔ ان کے علاوہ سائنسداں اینٹی باڈی سے بھی علاج کرنے کے تجربات کر رہے ہیں۔ جو جسم کے مدافعتی نظام کو اپنے جسم کے خلاف کام کرنے کی کوشش کاسدباب کرسکے جو کورونا وائرس کے ان چند مریضوں میں دیکھا گیا ہے جو انتہائی شدید بیمارہوتے ہیں۔
جیلیٹ سائنسز یہ کوشش کر رہی ہے کہ اس میں استعمال ہونے والے اجزاکی بڑے پیمانہ پر سپلائی کو کیسے بڑھایا جا سکتا ہے،تاکہ چھ سے آٹھ ماہ میں اس کی زیادہ سے زیادہ خوراکیں فراہم کی جاسکیں۔ اس کے لئے وہ اس کے متبادل کیمیکل بھی تلاش کر رہی ہے۔کمپنی نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ دوا کی تیاری میں کام آنے والے خام مال نہیں بتائیں گی۔اس نے تخمینہ لگایاہے کہ وہ اس سال کے آخر تک دس لاکھ آدمیوں کی ضرورت کے مطابق دوا فراہم کرسکیں گی۔ اور اگر کمپنی دواکی کم مقدار سے لوگوں کی صحت کی بحالی کاو قت کم کرنے میں کامیاب ہوگئی تو وہی دوا بیس لاکھوں لوگوںکے علاج کے لئے کافی ہوگی ۔ ریم ڈیزیور ایک سالمہ ہے جونیولیکٹائڈ(nucleotide)کی طرح کا بلڈنگ بلاک ہے، جس کویہ وائرس اپنے RNA جینوم کی کاپی کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ریم ڈیزیور ان بلڈنگ بلاک کی نقل کرکے اس اینزائم کو بلاک کرتا ہے ،جس کوکورونا وائرس اپنی تعداد بڑھانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔کووڈ19کے علاج کے لیے پنجاب کی کا بینہ نے ٹا ئکلسو میاب 10000 انجیکشن کی خریدنے کی منظوری دی ہے ،جس کی ڈریپ (DRAP) سے بھی منظوری مل گئی ہے ۔اس دوا کا جان بچانے والی دوا کہہ کر منظوری دی ہے اور پنجاب حکومت نے ہر ہسپتال میں اس کے 10 اوائل رکھنے کا حکم جاری کیا ہے۔
تجرباتی مراحل کی چند ویکسین
چین کی بایو ٹیکنالوجی فرم کان سائنو بایولیجیز دنیا کی پہلی کمپنی بن گئی ہے، جس نے اپنی کووڈ۔19 ویکسین کے کلینیکل نتائج شائع کئے تھے۔چند ہفتوں بعد اسی کمپنی نے حاصل کردہ ڈیٹا پر سائنسدانوں کے تبصرے بھی شائع کیے ہیں ۔کان سینو کی ویکسین جینیاتی انجینئرنگ سے تیار کردہ اڈینو وائرس (adenovirus) کی اڈینو وائرل ویکٹر سے وہ جین فراہم کرتی ہے جو سارس کو وڈ 2کی اسپا ئک پروٹین بنا کرانسانی خلیہ میں داخل کردیتی ہے ،جب سارس کووڈ 2 کا وائرس حملہ کرتا ہے تو وہ اس اسپائک پروٹین کو انسانوں کو مجروح کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے ۔سائنس دانوں کو اُمید ہے کہ وہ اسپا ئک پروٹین ہمارے نظام مدافعت کو نشانہ دے کر میمیز کرسکتی ہے ۔چناں چہ اصلی وائرس کے حملے کے بعد اسے ناکارہ کرسکتی ہے۔
کمپنی نے پہلے مرحلے کے حفاظتی جائزہ میں108افراد کو 3 ڈوز دیے تھے، جن میں سے زیادہ افراد کے نظام مدافعت میں تحریک ہوئی تھی ،جس کاپتہ ان میں اینٹی باڈی اور ٹی سیل کی مقدار کی پیمائش سے معلوم ہوا تھا جو اسپائک پروٹین کو نشانہ بنا تے ہیں۔ لیکن مختلف ڈوزوں سے مختلف نتائج آئے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا کہ وائرس کا جسم میں قیام کچھ مناسب نظر نہیں آتا ۔اس کے بعد امریکی بایو ٹیکنالوجی کمپنی ماڈرنا نے دعوٰی کیا ہے کہ ویکسین نے مثبت نتا ئج دئیے ہیں ۔لیکن یہ بالکل مختلف ویکسین ہے ۔ماڈرنا کی RNA کی ٹیکنالوجی ثابت شدہ نہیں ہے ۔جب کہ چینی کمپنی جینیاتی انجینئرنگ سے تیار کردہ وائرس استعمال کررہی ہے ،جس کی ٹیکنالوجی کی خوبیاں اور خامیاں پہلے سے ہی معلوم ہیں۔
امریکی فرم ماڈرنا نے گزشتہ مہینے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتا یا تھا کہ جن 45 افراد کو ویکسین دی گئی تھی ان سب افراد میں اس کے ردعمل میں اینٹی باڈی پیدا ہوئی تھیں ۔ابھی تک جن 8 افراد کا ٹیسٹ لیا گیا تھا ۔ان میں وائرس کے خلاف نیو ٹرلائزنگ اینٹی باڈیز پیدا ہوگئی ہیں۔ ماڈرنا کی ویکسین میں وائرس کے ٹکڑے انجیکٹ کرتے ہیں جو جسم کی قوت مدافعت بڑھاتی ہے اور وائرس سے جنگ کرتی ہے۔آج تک ایڈینو وائرل ویکٹر کی کوئی ویکسین انسانوں کے لیےنہیں بنی ہے۔ البتہ کینیڈا کی حکومت نے ایک ایسی ویکسین جنگلی جا نوروں کی ریبز کی بیماری کے لیےمنظور کی تھی۔اب نیشنل ریسرچ کونسل آف کینیڈا نے اعلان کیا ہے کہ وہ کان سائنو کی ویکسین بنائی گی۔ کینیڈا میں اس ویکسین کے ٹرائل جلد شروع ہونے والے ہیں۔
اسٹرا زینا کمپنی وہ ویکسین ڈیولپ کر رہی تھی جسے برطانوی آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ڈیزائن اور ٹیسٹ کیا تھا۔ یہ ایک ایسا ایڈینو وائرس استعمال کرتی ہے جو چیمپینزی میں توپایا جاتا ہے انسانوں میں نہیں ملتا۔ لیکن ماہرین کے مطابق آکسفورڈ کی ویکسین بندروں کے ٹیسٹ میں ناکام ہوگئی ہے۔ایک اور امریکی فرم امیونٹی بایو نے اعلان کیا ہے کہ اس نے ایڈینو وائل ویکٹر ویکسین ad-5 کے ذر یعہ تیار کی ہے، جس کے تجربات جون میں شروع ہوجائیں گے، جس کو امریکی حکومت نے رقم بھی فراہم کی ہے۔ یہ اس سال کے اختتام تک اپنی ویکسین مارکیٹ میں لانے کے لیے پراُمید ہے۔
جانسن اینڈ جانسن کی امریکی کمپنیad-26 کے ذریعےسے ویکسین تیار کر رہی ہے۔ جو کام یاب ایڈینو وائرس ہے۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق امریکی ایجنسی نے ماڈرنا کی ویکسین کی انسانوں پر ٹرائل کی اجازت دے دی ہے۔ اس کے بعدایک اور امریکی فرم’ ’ نووا ویکس‘‘ نے اعلان کیا ہے کہ اس کی ویکسین کے جانوروں پر تجربات کامیاب ہوگئے ہیں اور اب وہ آسٹریلیا کے130 افراد پر انسانی ٹرائل شروع کرے گی۔ نوواو یکس کے ڈاکٹر گریگوری گلین کا کہنا ہے کہ ان کی ویکسین کے سنگل اور ڈبل ڈوز نے ببو ن اور چوہوں پر تجربات میں قوت مدافعت بڑھاکر اینٹی باڈی کو بے اثر کردیا تھا اس کو امریکی حکومت نے384 ملین ڈالر کی رقم فراہم کی ہے۔فرانسیسی فارمسیو ٹیکل گروپ ’’سنوفی‘‘ نے اعلان کیا ہے کہ اس کی ویکسین سب سے پہلے امریکا کو دی جائے گی گو یوںتو یہ تمام ملکوں میں فراہم ہوگی۔لیکن سب سے پہلے امریکا میں فراہم کی جائے گی ،اس سلسلے میں فرانس کے نائب وزیر کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں کسی ملک کو تر جیح دنیا غلط ہوگا ۔
اسرائیل کی تل ابیب یونیورسٹی نے ایک سوئس کمپنی سے کورونا کی ویکسین ڈیولپ کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ اپنی ویکسین کی بابت یونیورسٹی کے مالیکیولر سیل بایو لوجی اینڈ بایو ٹیکنالوجی اسکول کے پروفیسر جوناتھن گریشونی کے مطابق ہمارا مقصد ایک ایسی ویکسین بنانا ہے جو دوسری ویکسینوں کے مقابلے میں زیاد ہ محفوظ اورکارگر ہو، تاکہ وہ وائرس کے مخصوص خلیے پر حملہ کرسکے بجائے اس کے پورے پروٹین اسپائک پر حملہ کرکے اپنی توانائی ضائع کرے۔اس وقت دنیا بھر میں تقریبا100ویکسین تیاری کے مختلف مراحل میں ہیں سب ہی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کامیاب ہوں۔ چین میں دو ویکسین مختلف مرحلوں میں ہیں۔ امریکی حکومت نے پانچ کمپنیوں کو ان کی ویکسین کی تیاری کے لیےکثیر رقم فراہم کی ہے۔ جن کے نتائج رواں سال کے اختتام تک آئیں گے۔ اس وقت تک ہم کو خود پر پابندیاں لگاکرجینا ہوگا۔