عدالت عظمیٰ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا۔ دس ججز پر مشتمل بینچ نے مختصر فیصلہ سنایا۔ سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریفرنس کالعدم قرار دینے کی درخواست منظور کرلی۔
جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دینے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا، سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف کارروائی ختم کردی گئی۔
ایک جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریفرنس کیخلاف قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست ناقابل سماعت قرار دی ہے۔
سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کےخلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دےدیا۔ تین کے مقابلے میں 7جج صاحبان نے ٹیکس معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کا حکم دیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انکم ٹیکس کمشنر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کو نوٹس جاری کرے گا، انکم ٹیکس کمشنر 60 روز میں ٹیکس معاملے سے متعلق کارروائی مکمل کرے گا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت یہ نوٹسز کمشنر ان لینڈ ریونیو خود جاری کریں، نوٹسز کے اجرا کے لیے اختیارات کسی اور افسر کو تفویض نہ کیے جائیں۔
لندن کی جائیدادوں کے بارے میں اب تک ٹیکس حکام کی تمام کارروائی کالعدم قرار دے دی گئی۔ ٹیکس حکام کی کارروائی کا ریکارڈ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا جائے گا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پراپرٹیز کی خریداری کے حوالے سے فنڈز کے ذرائع پر وضاحت کا موقع دیا جائے، ہر پراپرٹی کی وضاحت کے لیے الگ نوٹس جاری کیا جائے، آرڈر سے پہلے اگر اس سے متعلق کوئی نوٹس جاری ہوا تو وہ ختم تصور ہوگا، نوٹسز پٹیشنر کی اسلام آباد میں رہائش کے ایڈریس پر جاری کیے جائیں۔
تحریری فیصلے کے متن میں کہا گیا ہے کہ فریقین نوٹسز کے جواب کے ساتھ متعلقہ ریکارڈ بھی بھجوائیں جو وہ مناسب سمجھیں، بیرون ملک ہونے کی صورت میں بھی بروقت جواب داخل کرانا فریق کی ذمہ داری ہو گی، کمشنر کے پاس کارروائی بیرون ملک ہونے کی بنیاد پر موخر یا ملتوی نہیں ہو گی۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ جواب جمع ہونے پر کمشنر فریقین کو صفائی کا موقع دے کر آرڈر جاری کرے، فریقین ذاتی طور پر یا مجاز نمائندے اور وکیل کے ذریعے اپنی صفائی پیش کریں۔ کمشنر کارروائی60 دنوں میں مکمل کرے اور 75 دنوں میں فیصلہ جاری کیا جائے۔ مقررہ مدت میں کوئی توسیع نہیں نہ دی جائے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کمشنر کے آرڈر جاری کرنے کے7 دن کے اندر چیئرمین ایف بی آر رپورٹ جمع کرائیں، رپورٹ چیئرمین ایف بی آر کے دستخط سے کونسل کے سیکرٹری کے پاس جمع کرائی جائے، سیکرٹری یہ رپورٹ چیئرمین کونسل چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے رکھیں۔
آرڈر کے 100 دن کے اندر چیئرمین ایف بی آر کی طرف سے سیکرٹری کو رپورٹ موصول نہ ہونے پر وہ چیئرمین کونسل کو آگاہ کریں، چیئرمین کونسل کی ہدایت پر سیکریٹری چیئرمین ایف بی آر سے رپورٹ جمع نہ کرانے پر وضاحت طلب کریں۔
ریفرنس کالعدم قرار دینے کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کا دس رکنی فل بینچ جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی محمد امین احمد پر مشتمل ہے۔
اس سے قبل صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی آئینی درخواست کی سپریم کورٹ میں آج سماعت ہوئی، دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالتِ عظمیٰ نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ سر بمہر لفافے میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرایا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے زرعی زمین اور پاسپورٹ کی نقول بھی جمع کرا ئیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے بھی دستاویز عدالتِ عظمیٰ میں پیش کیں اور جوابی دلائل دیئے۔
منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ افتخار چوہدری کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل پر بدنیتی کے الزامات تھے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے بدنیتی پر کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا، توقع ہے کہ مجھے جوڈیشل کونسل کی بدنیتی پر بات نہیں کرنی پڑے گی۔
منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ سمجھ نہیں آ رہی حکومت کا اصل میں کیس ہے کیا؟ فروغ نسیم نے کہا تھا کہ ان کا اصل کیس وہ نہیں جو ریفرنس میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ برطانوی جج جسٹس جبرالٹر کی اہلیہ کے خط اور ان کی برطرفی کا حوالہ دیا گیا، جسٹس جبرالٹر نے خود کو اہلیہ کی مہم کے ساتھ منسلک کیا تھا۔
منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کبھی اہلیہ کی جائیدادیں خود سے منسوب نہیں کیں، الیکشن اور نیب قوانین میں شوہر اہلیہ کے اثاثوں پر جواب دہ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ آنے میں دیر کر دی، بد قسمتی سے فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہو گئے ہیں۔
منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ حکومت ایف بی آر جانے کے بجائے سپریم جوڈیشل کونسل آ گئی، ایف بی آر اپنا کام کرے ہم نے کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی اور عدلیہ کی عزت کی خاطر ریفرنس چیلنج کیا، چاہتے ہیں کہ عدلیہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دے۔
منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات اور شوکاز نوٹس میں فرق ہے۔
انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الزام عائد کیا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جان بوجھ کر جائیدادیں چھپائیں، عدالتی کمیٹی کہتی ہے کہ غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے سے متعلق قانون میں بھی ابہام ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ کا مؤقف تھا کہ ریفرنس سے پہلےجج کی اہلیہ سے دستاویز لی جائیں، کل کی سماعت کے بعد آپ کے مؤقف کو تقویت ملتی ہے۔
منیر اے ملک نے سوال کیا کہ کیا ہم ایسا قانون چاہتے ہیں کہ ایک ادارہ دوسرے کی جاسوسی کرے؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ جج کے بنیادی حقوق زیادہ اہم ہیں یا ان کا لیا گیا حلف؟
منیر اے ملک نے کہا کہ عدالت درخواست کو انفردی شخص کے حقوق کی پٹیشن کے طور پر نہ لے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کے جواب الجواب پر دلائل مکمل ہو گئے جس کے بعد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے دلائل دیئے۔
حامد خان نے دورانِ دلائل سورہ النساء کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام ہر مرد اور عورت کو جائیداد رکھنے کا حق دیتا ہے۔