پاکستان میں کووڈ 19 کی وبا سے بیمار ہونے والے افراد کی شرح اموات دوسرے ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم یعنی صرف 2 فی صد یا ڈھائی فی صد کے درمیان ہے ۔یہ کسی ایک دن کی شر ح نہیں ہے بلکہ جب سے یہ وبا پاکستان میں داخل ہوئی ہے جب اس کی یہی شرح اموات رہی ہے ۔ کووڈ 19 کے لیے بر طانیہ کی تیار کردہ ویکسین کام یاب ہوگئی ہے ،جس کو بر طانیہ ستمبر سے فراہم کرنا چاہتا ہے ۔چین نے بھی اپنی ویکسین کے پہلے مرحلہ کی کامیابی کے بعدجولائی میں دوسرا مرحلہ شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
اب جب کہ ساری دنیا بے تابی سے کووڈ19 کی وبا کے علاج کا انتظار کر رہی تھی ایک اینٹی وائرل دوا ریم ڈیزیور کے ایک بڑے تجرباتی استعمال کے بعد کے نتائج کی فراہمی نے ایک روشن کرن دکھا ئی ہے۔ اس سلسلےمیںیہ بتایا گیا ہے کہ اس دواکے استعمال سے صحت یابی کی مدت میں تیس فی صد تک کمی ہوئی ہے۔اس لحاظ سے گو اس کوپور ی طرح علاج کے زمرہ میں تو شامل نہیں کیا جاسکتا ہے۔
البتہ اس سے یہ اُمید ضرور کی جاسکتی ہے کہ اس کے استعمال سے نظام صحت پر کووڈ19 کے موجودہ پڑنے والے دبائو میں خاطر خواہ کمی ہوجائے گی۔ریم ڈیزیور کی دریافت کے بعد ایک بڑا مسئلہ اس کو اتنی بڑی مقدار میں تیار کرنا اورسب لوگوں کو فراہم کرنا ہے ۔جو اس عالمی وباسے متاثر ہیں، کیوں کہ اس کی تیاری کے مشکل طریقےکار کوبخوبی استعمال کرنے کے لئے انتہائی سائنسی مہارت درکار ہوگی۔
یہ ایسا عالمی چیلنج ہے جو اس سے پہلے کبھی عالمی دواساز اداروں کو پیش نہیں آیاتھا،کیوں کہ چند علاج جو اس کے لیے آزمائے گئے ہیں۔ ان کے اجزا آسانی سے فراہم ہوتے ہیں،کیوں کہ وہ گذشتہ کئی عشروں سے استعمال ہورہے ہیں۔ جب کہ کچھ ایسی دوائیں ہیں جن کے اجزا تیار کرنے کا طریقہ بہت ادق اور مشکل ہے، جن کی مسلسل فراہمی مسئلہ بن سکتی ہے۔اس لیےایسی دواکی تیاری میں بڑی مشکل پیش آئے گی، کیونکہ کروڑوں خوراکوں کو تیار کرنا آسان نہیں ہوگا۔اس خیال کا اظہار عزاخیل عمانویل نے کیا تھا جو یونیورسٹی آف پینسیلوانیہ میں بایو ایتھسٹ (bioethicist)ہیں۔
اب ریسرچ کرنے والے بڑی جانفشانی سے اس کے علاج کی دریافت میں لگے ہوئے ہیں اور کئی قسم کے علاج آزما رہے ہیں۔ جن میں ملیریا کی کامیاب دوا ہائڈرو کلوروکوئن کی گولیوں اور تجرباتی دواریم ڈیز یورکی ذرا سی مقدار بھی شامل ہے جو پہلے ایبولا کے وائرس کے خلاف آزمائی گئی تھی ۔ ان کے علاوہ سائنسداں اینٹی باڈی سے بھی علاج کرنے کے تجربات کر رہے ہیں۔ جو جسم کے مدافعتی نظام کو اپنے جسم کے خلاف کام کرنے کی کوشش کاسدباب کرسکے جو کورونا وائرس کے ان چند مریضوں میں دیکھا گیا ہے جو انتہائی شدید بیمارہوتے ہیں۔ اگر وبائی امراض کی تاریخ سے رہنمائی لی جائے تو معلوم ہوگا کہ کووڈ 19کا علاج کئی دوائوں کا مرکب ہوگا،جس کی ہر ایک دواکا اپناایک مخصوص کردارہوگا۔چاہے ان میں سے کسی کی مقدارانتہائی قلیل ہی کیوں نہ ہو۔
فرانس کے ادارے انسیڈ میں ہیلتھ کئیر میں کام کرنے والے اسٹفین چک کا کہنا ہے کہ ہر دوا کی تیاری کے دوران اس کے اپنے مخصوص چیلنج ہوں گے ۔اگر آپ کے تجربات کامیاب ہوجائیں اور اس کی ٹیکنالوجی کو بھی اپنا لیا جائے تو آپ کو اس کی فراہمی کے لئے بھی تیار ہونا چاہیے اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو پھرآپ مشکل میں پھنس جائیں گے۔ کیلی فورنیا کی ریم ڈیزیور بنانے والی کمپنی جلیٹ سائنسز دواکی بابت ڈیٹا فراہم کرنے سے کئی ماہ پہلے اس کے کمپا ئونڈ کی تیاری کے لئے انتظامات کر رہی ہے۔اس نے امریکن ڈرگ اینڈ فوڈ ایڈمنسٹریشن کو ہنگامی بنیاد پر اپنی دوا کے استعمال کی اجازت دینے کی درخواست کی تھی۔کمپنی نے یہ اعلان کیا تھا کہ اس کی دوا کی دوسری کمپنیوں میں تیاری کے لیے بات چیت جاری ہے۔
جلیٹ سائنسز اس دوا میں استعمال ہونے والے اجزا کو بڑے پیمانےپر سپلائی کو بڑھانے کی کوشش کررہی ہے ،تا کہ چھ سے آٹھ ماہ میں اس کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں فراہم کیا جاسکے۔اس کے لیے کمپنی متبادل کیمیکل بھی تلاش کررہی ہے ۔علاوہ ازیں کمپنی نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ دوا کی تیاری میں کام آنے والے خام مال کے بارے میں کسی کو نہیں بتا ئے گی ۔ اس نے تخمینہ لگایا ہے کہ وہ اس سال کے آخر تک دس لاکھ آدمیوں کی ضرورت کے مطابق دوا فراہم کرسکے گی۔ اور اگر کمپنی دواکی کم مقدار سے لوگوں کی صحت کی بحالی کاو قت کم کرنے میں کامیاب ہوگئی تو وہی دوا تقریباً بیس لاکھ لوگوںکے علاج کے لئے کافی ہوجائے گی ۔کمپنی نے اس بات کی بھی تنبیہ کی ہے کہ ریم ڈیزیور کی تیاری پیچیدہ کیمیائی ترکیب پرمنحصر ہوتی ہے،جس میں چند ایسے مخصوص اقدام ہیں جو وقفوں سے کئی ہفتوں میں عمل پذیر ہوتے ہیں۔ اور مخصوص اجزا کی کمی سے بیکار ہوسکتے ہیں۔
ریم ڈیزیور ایک سالمہ ہے جونیولیکٹائیڈ(nucleotide)کی طرح کا بلڈنگ بلاک ہے ،جس کویہ وائرس اپنے RNA جینوم کی کاپی کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ریم ڈیزیور ان بلڈنگ بلاک کی نقل کرکے اس اینزائم کو بلاک کرتا ہے ،جس کو کورونا وائرس اپنی تعداد بڑھانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ وبا شروع ہونے کے وقت تک جلیٹ سائنسیز اس دواکی کوئی بڑی مقدار نہیں بنارہی تھی۔ایم آئی ٹی کے ایک آپریشن ریسرچر ڈیوڈ سمچی لیوی کے مطابق اب جب کہ ملیریا کے لئے بڑی مقدار میں استعمال ہونے والی ہائڈروکسی کلورو کوئین اور اس جیسی کئی دوائوں کی بھی قلت ہوگئی ہے۔لہٰذا جلیٹ سائنسیز کے سامنے یہ بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ ضرورت کے مطابق سب لوگوں کوریم ڈیزیور فراہم کرے۔
سمچی لیوی کا مزید کہنا ہے کہ مصنوعات بنانے والی کمپنیاں قریباً دو عشروں سے جس ماڈل پر عمل پیرا ہیں وہ لین ماڈل ہے ،جس کے مطابق استعمال ہونے والے خام مال اور تیار کردہ اشیاء کے اسٹاک میں کمی کرکے سرمایہ کی ضرورت میں کمی کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس سے نقصان کا احتمال بھی ہے ،کیوں کہ دوا ساز کمپنیاں اب چین اور بھارت سے کم قیمت خام مال خرید تی ہیں۔ لیکن وبا کی صورت میں دونوںممالک اپنے ملک کی ضرورت میں اضافہ کی وجہ سے دوائوں میں استعمال ہونے والے خام مال کی برآمد پر پابندی لگاسکتے ہیں۔
سمچی لیوی اور ان کےساتھی آٹو موٹو صنعت میں ہونے والی تحقیق سے بتاتے ہیں کہ کم قیمت مال کی خریداری سپلائی چین میںسب سے بڑا خطرہ ان اشیاء کی فراہمی سے ہے جو انتہائی کم قیمت مثلاً صرف 10امریکی سینٹ کی ہیں۔ چناں چہ دوا ساز کمپنیوں کے لیے ویکسین دریافت ہونے کے بعد اس کو گلاس کی وائل میں بھر کر سپلائی کرنے کے لیے لاکھوں بلکہ کروڑوں گلاس کی وائل کی ضرورت ہوگی اوراگران کی سپلائی میں کوئی رخنہ آجائے تو دواکی تیاری ہی کو روکنا پڑجائے گا۔
کوووڈ19پر کچھ تحقیق کرنے والے بہت پر اُمید ہیں کہ وہ اینٹی باڈی سے اس کاعلاج کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔سان فرانسسکو کی جینیٹک کمپنی ایک ایسی اینٹی باڈی کی دوابناتی ہے، جس کا نام’ ’ایکٹیمرا‘‘ (Actemra)ہے۔جو قوت مدافعت کے ریگولیٹرکے کے عمل کو روکتی ہےاور چند اقسام کے آرتھرائیٹس کے علاج کے لیےمنظور شدہ ہے۔اگر یہ کووڈ19 کے خلاف بھی موئثرثابت ہوتی ہے۔ تو اس کی بہت بڑی مقدار کی تیاری کا انتظام کرنا ہوگا۔جو ایک بہت بڑا مسئلہ اور چیلنج ثابت ہوگا۔