• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدین: لڑکے اور لڑکی کی خودکشی کا معمہ حل نہ ہوسکا


بدین کے مضافاتی علاقے میں 20روز قبل نوجوان لڑکے اور لڑکی کی خودکشی کا معمہ حل نہ ہوسکا جبکہ 32سالہ شخص کی موت کا معاملہ بھی حل طلب ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ خودکشی قرار دیئے جانے والے اس کیس میں ورثاء کے بیانات اور ابتدائی تفتیش کافی ہے، پوسٹ مارٹم یا مزید کسی قانونی کارروائی ضرورت نہیں۔

قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ ایسے کیسوں میں پولیس پوسٹ مارٹم اور دیگر قانونی کارروائی کی پابند ہےاور اس سے اجتناب کرنا سنگین غفلت ہے۔

بدین کے مضافاتی علاقے میں تقریباً 20روز قبل درخت سے پھندا لگا کر مبینہ خودکشی کرنے والے 16سالا رمیش اور 15سالہ پریمی کا معاملہ ہنوز حل طلب ہے۔

دوسری طرف 18 دن قبل گائوں نیتو کولہی میں درخت سے مشکوک حالت میں پھندا لگی لاش کی تفتیش کی سوئی بھی اٹک گئی ہے۔

پولیس کا موقف وہی ہے کہ تمام ورثا کے بیانات اور ابتدائی تفتیش میں خودکشی قرار دیئے جانے والے اس کیس میں ان کے پاس پوسٹ مارٹم یا مزید کسی قانونی کارروائی کا کوئی جواز نہیں مگر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے کیسوں میں پولیس پوسٹ مارٹم اور دیگر قانونی کارروائی کی پابند ہے اور اس سے اجتناب سنگین غفلت ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ خودکشیوں کے واقعات میں پھندے والی رسی پر فنگر پرنٹس،فرانزک، جیو فینسنگ اور پوسٹ مارٹم کی کارروائی ناگزیر ہے، جو پولیس نے روایتی غفلت و نااہلی کے باعث نہیں کی۔

قانونی ماہرین کے مطابق خودکشیوں کے معاملات میں دفعہ 174کے تحت کارروائی مکمل کرکے معاملہ عدالت کو بھجوایا جانا چاہیے جو بھی نہیں کیا گیا۔

قانونی ماہرین نے یہ بھی کہا کہ آخر پولیس کس قانون کے تحت عدالت کی بجائے خود فیصلے کر رہی ہے جبکہ قانونی طور پر ایسے معاملات میں قانونی تقاضے پورے کرنا اسکی ذمہ داری ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پھندے لگی لٹکی لاشوں کے واقعات میں پولیس کا ورثا کے بیانات کو جواز بنا کر قانونی کارروائی اور تفتیش سے گریز متعلقہ افسران کی سنگین غفلت ہے۔

مبینہ خودکشیوں کے واقعات میں تفتیش کا قانون موجود ہے جس پر عمل درآمد کرکے ان واقعات میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

تازہ ترین