• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی اور چاروں صوبائی بجٹ برائے مالی سال 21-2020ء ایک ایسے وقت پیش کئے گئے ہیں جب حکومت اور اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 19-2018ء اور کورونا وائرس پھیلنے سے پہلے فروری 2020تک کے بیشتر اہم معاشی اہداف نہ صرف حاصل نہیں کئے جا سکے تھے بلکہ اس مدت میں یہ معاشی اشاریے اس کے مقابلے میں زیادہ خراب ہوگئے تھے جو تحریک انصاف کی حکومت کو ورثے میں ملے تھے مثلاً

(1) 18-2017ء میں معیشت کی شرح نمو 5.5فیصد رہی تھی۔ موجودہ حکومت کے پہلے سال 19-2018ء میں معیشت کی شرح نمو کم ہوکر 1.9 فیصد رہ گئی۔ اب حکومت کا کہنا ہے کہ موجودہ مالی سال میں معیشت کی شرح نمو منفی 0.38فیصد رہے گی مگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ شرح نمو منفی ایک فیصد رہے گی۔

(2) مالی سال 2019اور مالی سال 2020میں کئی سو ارب روپے کا اضافی بوجھ عوام پر ڈالنے کے باوجود ان دو برسوں میں ٹیکسوں کی وصولی ہدف سے تقریباً 2300ارب روپے کم رہی۔ اس میں کورونا وائرس کی وجہ سے ٹیکسوں کی مد میں تقریباً 900ارب روپے کی کم وصولی بھی شامل ہے۔

(3) مالی سال 2018کے 12ماہ میں پاکستان میں مجموعی بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 5ارب ڈالر رہا تھا جبکہ جولائی 2019سے مئی 2020کے 23ماہ میں یہ حجم صرف 1.8ارب ڈالر رہا جو بیرونی سرمایہ کاروں کا موجودہ حکومت پر عدم اطمینان کا مظہر ہے۔

اس پس منظر میں وفاقی اور چاروں صوبائی بجٹ برائے مالی سال21-2020ء کے ضمن میں چند حقائق نذر قارئین ہیں:

(1)وفاقی بجٹ میں کہا گیا ہے کہ چاروں صوبے اپنے بجٹ میں 242ارب روپے کی فاضل رقوم دکھلائیں گے تاکہ بجٹ خسارے کو کنٹرول کیا جا سکے۔ سندھ اور بلوچستان نے خسارے کے بجٹ پیش کئے جبکہ خیبر پختونخوا نے متوازن بجٹ پیش کیا یعنی تینوں صوبوں نے وفاقی کابینہ سے منظور شدہ ہدایت کو نظر انداز کر دیا۔ خدشہ ہے کہ نیا مالی سال شروع ہونے سے پہلے ہی وفاقی بجٹ کو تقریباً 200ارب روپے کا جھٹکا لگ چکا ہے۔

(2)وفاقی بجٹ میں ایف بی آر کے ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف 4963ارب روپے رکھا گیا ہے۔ ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت وفاق کو 2873ارب روپے صوبوں کو منتقل کرنا ہوں گے چنانچہ وفاق کے پاس 2090ارب روپے کی رقم رہ جائے گی جبکہ صرف قرضوں پر سود اور دفاع کی مد میں 4235ارب روپےدرکار ہوں گے۔(3)ایف بی آر کے ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف حاصل نہیں ہو سکے گا چنانچہ صوبوں کو مطلوبہ رقوم مل ہی نہیں سکیں گی۔ معیشت کی شرح نمو کا ہدف حاصل نہیں ہو سکے گا جبکہ ترقیاتی اخراجات میں کٹوتیاں کرنے کے باوجود بجٹ خسارہ ہدف سے کہیں زیادہ رہے گا۔

(4) مندرجہ بالا اور متعدد دوسری وجوہات کی بنا پر ہم سمجھتے ہیں کہ کم از کم وفاقی اور صوبہ پنجاب کے بجٹ عملاً بے معنی ہو چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے 2013ء کے انتخابی منشور میں کہا گیا تھا کہ وفاق اور صوبے ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور پر ٹیکس عائد کریں گے۔ 2018ء کے انتخابات سے چند ہفتے قبل اس پرانے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے تحریک انصاف نے اپنی 10نکاتی حکمت عملی میں کہا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد 100روز کے اندر عدل پر مبنی ٹیکسوں کی یہ پالیسی نافذ کر دی جائے گی مگر آنے والے برسوں میں بھی طاقتور طبقوں کے دبائو اور ان کے ناجائز مفادات کے تحفظ کیلئے یہ پالیسی نافذ کرنے سے اجتناب کیا گیا چنانچہ تعلیم و صحت کے شعبوں میں وعدے کے مطابق رقوم مختص نہیں کی جا سکیں۔ انتخابی منشور میں یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ ٹیکسوں کی شرح بڑھائے بغیر ٹیکسوں کی وصولی بڑھائی جائے گی مگر ٹیکسوں کی شرح بڑھانے کے باوجود ٹیکسوں کی وصولی گرتی رہی۔ منشور میں مزید کہا گیا تھا کہ مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب سے تعلیم و صحت کی مد میں 7.6فیصد رقوم مختص کی جائیں گی۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں 2013اور 2018کے درمیان اس وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کی ہی نہیں گئی۔

وطن عزیز میں 23ملین بچے اسکول نہیں جارہے جو آئین کی شق 25الف کی خلاف ورزی ہے۔ ملک میں علاج معالجے کی سہولتیں قطعی ناکافی ہیں۔ ہماری تجویز ہے کہ بڑے پیمانے پر مکانات کی تعمیر کی منصوبہ بندی کرنےکے بجائے پہلے مرحلے میں ملک بھر میں چند کمروں کے ہزاروں اسکول (جہاں ڈبل شفٹ میں تعلیم دی جا سکے) اور ہزاروں چھوٹی چھوٹی ڈسپنسریاں (دوا خانے) تعمیر کرانے کے منصوبے شروع کئے جائیں۔

عالمی بینک کمیشن کی 2008کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگر پاکستانی معیشت 8.3فیصد کی رفتار سے بھی ترقی کرے تب بھی وہ 2050تک معاشی تعاون و ترقی کی تنظیم کے ممبر ملکوں کی آمدنی کی سطح پر نہیں پہنچ پائے گی۔ اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ پاکستان 2075ء تک بھی ان ملکوں کی آمدنی کی سطح پر نہیں پہنچ سکے گا جبکہ 2075تک بھی پاکستان کا ہر بچہ اسکول نہیں جا رہا ہوگا۔ یہی نہیں، اس صدی کے آخری تک بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سودی نظام پورے آب و تاب سے قائم رہے گا جوکہ آئین کی شق 38ایف کی خلاف ورزی ہے۔

وطن عزیز کی سلامتی اور روبہ زوال معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے ملک میں سیاسی تنائو کو کم کیا جائے، دوست ممالک سے روابط بڑھائے جائیں، مغربی ممالک کے عوام کے ضمیر کو بیدار کرنے کے لئے سفارت خانوں کو متحرک کیا جائے اورمندرجہ بالا گزارشات کی روشنی میں ایک نظر ثانی شدہ وفاقی بجٹ پیش کیا جائے۔

تازہ ترین