• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کا منفی طرزِ عمل، جس میں اُس کے داخلی خلفشار کا اہم کردار ہے، صرف پاکستان ہی نہیں، تمام پڑوسی ممالک کے لیے مستقل پریشانی کا سبب ہے۔ پھر یہ کہ عالمی سطح پر مسلسل ناکامیوں اور شرمندگی نے بھی مودی سرکار کی ساکھ کو شدید زِک پہنچائی ہے، جس کے نتیجے میں وہاں کی اپوزیشن جماعتوں نے مودی حکومت کو نشانے پر لے رکھا ہے۔ ایک تو پڑوسیوں سے روایتی بغض کی آگ ہے، جو بھارت کو کسی کل چین سے نہیں بیٹھنے دیتی، تو دوسری طرف حالیہ ناکامیاں ہیں، جن پر پردہ ڈالنے کے لیے بھی مودی حکومت ایسے اقدامات کررہی ہے، جن سے خطّے کا امن اور سلامتی داؤ پر لگ چُکی ہے۔ بھارت ایک طرف چین کو اشتعال دِلانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں پر اُترا ہوا ہے، تو دوسری طرف ایک اور پڑوسی مُلک، نیپال اس کے سازشی جال کے توڑ میں مصروف ہے۔ وہاں کے منتخب وزیرِ اعظم نے بھارتی مداخلت سے تنگ آکر یہاں تک کہہ دیا کہ’’ بھارت، نیپال میں جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کے درپہ ہے۔‘‘ جہاں تک پاکستان کی بات ہے، وہ تو روزِ اوّل سے بھارت کے نشانے پر ہے، جب کہ مودی حکومت میں پاکستان مخالف سرگرمیوں کو مزید بڑھاوا ملا۔ نریندر مودی نے پاکستان کی جانب سے دوستانہ اور خوش گوار تعلقات کی ہر پیش کش کو نہ صرف یہ کہ ٹھکرا دیا، بلکہ پاکستان کے خلاف نت نئے محاذ بھی کھولے۔ 

اسلام آباد میں مندر کی تعمیر
پاکستان نے جذبۂ خیر سگالی کے تحت کرتار پور راہ داری کھولی، مگر مودی سرکار سِکھوں کو اُن کے مقدّس ترین مقام کی زیارت سے روک رہی ہے

افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف ہونے والی دہشت گردی میں بھارتی کردار اب کسی سے مخفی نہیں رہا۔ بھارتی جاسوس، کلبھوشن یادیو کے اعترافات سے بھی بھارت کا سفّاک چہرہ سامنے آیا۔ اُس نے بھارتی حکومت کی معاونت سے بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دہشت گردی کے منصوبے بنائے، علیٰحدگی پسندوں کو رقوم اور اسلحہ فراہم کیا، اس مذموم مقصد کے لیے پاکستان کے پڑوسی مُلک، ایران کی سرزمین استعمال کی گئی تاکہ دونوں پڑوسی ممالک باہم الجھ جائیں۔ 

کراچی میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی عمارت پر حالیہ دہشت گردانہ حملے کے پسِ پُشت بھی بھارت ہی ہے، جس کے ناقابلِ تردید شواہد سامنے آچُکے ہیں۔ قبل ازیں، سارک سربراہی اجلاس کے لیے، جو اِس بار اسلام آباد میں ہونا تھا، پاکستان نے میزبان کی حیثیت سے بھارت کو باضابطہ طور پر شرکت کا دعوت نامہ بھیجا، لیکن نریندر مودی نے نہ صرف یہ کہ اجلاس میں شرکت سے انکار کیا، بلکہ دیگر رُکن ممالک کو بھی دھونس، دھمکیوں اور سازشوں کے ذریعے سارک اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر مجبور کیا۔ بھارت نے اس موقعے پر اپنی خفیہ ایجینسیز کے ذریعے پاکستان اور بنگلا دیش کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی بھی کوشش کی۔ پاکستان نے کرتا پور راہ داری کھول کر دنیا بھر میں آباد سِکھوں کو بابا گرونانک کی آخری آرام گاہ تک رسائی دی، جو سِکھ کمیونٹی کے نزدیک مقدّس ترین مقام تصوّر کیا جاتا ہے اور ہر سِکھ کے دِل میں وہاں کی حاضری کی خواہش مچلتی رہتی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ دنیا کے کونے کونے سے آنے والے سِکھ زائرین نے بابا گرونانک کے 550ویں جنم دن کی تقریبات میں شرکت کی۔ 

اسلام آباد میں مندر کی تعمیر
مودی سرکار بابری مسجد کی شہادت میں پیش پیش تھی

تاہم، مودی سرکار کو سِکھوں کا یوں اپنے مقدّس ترین مقام پر حاضری دینا بھی گوارا نہیں، لہٰذا وہ زائرین کو روکنے کے لیے قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کرتی نظر آرہی ہے۔ پاکستان نے رواں برس 16 مارچ کو کرتا پور راہ داری عارضی طور پر بند کردی تاکہ سِکھ زائرین کو کورونا وائرس سے محفوظ رکھا جاسکے۔ تاہم، ضروری حفاظتی اقدامات کے بعد 29 جون سے راہ داری دوبارہ کھول دی گئی، لیکن بھارت روایت ہٹ دھرمی اور مذہبی تعصّب کا مظاہرہ کرتے ہوئے سِکھوں کو زیارت کے لیے نہیں آنے دے رہا۔ علاوہ ازیں، بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر عالمی قوانین کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے ڈرون کے ذریعے جاسوسی اور شہری آبادیوں پر گولہ باری معمول بن چُکی ہے۔ بھارت اِس ضمن میں پاکستان اور عالمی برادری کے احتجاج کو بھی کسی خاطر میں نہیں لاتا۔ وہ اپنے اقدامات کے ذریعے خطّے کو آگ میں جھونکنا چاہتا ہے، مگر پاکستان اپنے صبر و تحمّل اور پُرامن پالیسی سے خطّے میں بھارت کی جانب سے سلگائی جانے والی آگ پر مسلسل پانی ڈال رہا ہے۔ بھارت صرف عسکری ہی نہیں، سفارتی سطح پر بھی ایک ایسے دشمن کے رُوپ میں سامنے آیا ہے، جسے انسانی جان کے تحفّظ، خطّے کے عوام کی ترقّی اور امن سے کوئی دِل چسپی نہیں۔ مودی حکومت نے ویانا کنونشن کے تحت تسلیم شدہ سفارتی تقاضے بالائے طاق رکھتے ہوئے ایسے حالات پیدا کیے کہ بھارتی ہائی کمشنر، اجے بساریہ کو پاکستان چھوڑنا پڑا۔ اگست 2019ء سے اسلام آباد اور نئی دہلی کے ہائی کمیشنز، ہائی کمشنرز کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ 

اسلام آباد میں مندر کی تعمیر
چند ماہ قبل نئی دہلی میں سرکاری سرپرستی میں نذرِ آتش کی گئی مسجد

نیز، گزشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں دونوں ممالک نے اپنے اپنے ہائی کمیشنز سے بڑی تعداد میں سفارتی اور دیگر اہل کار واپس بُلا لیے۔ بھارت نے گزشتہ ماہ ایک اور انتہائی قدم اُٹھاتے ہوئے 25 ہزار بھارتی شہریوں کو مقبوضہ کشمیر کے ڈومیسائل جاری کر دیے، جس کے بعد وہ بھارتی وہاں کے شہری بنا دیے گئے اور اب وہ مقبوضہ کشمیر میں جائیدادیں خریدنے کے ساتھ، مقامی خواتین سے شادی بھی کر سکتے ہیں۔ یہ بھارتی اقدام، مقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی تبدیلی اور وہاں بھارتی شہریوں کی آباد کاری کا پہلا قدم ہے، جس سے مودی سرکار کے مستقبل کے عزائم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ایک طرف بھارت کے امن دشمن اقدامات ہیں، تو دوسری طرف پاکستان ہے، جو خطّے میں امن اور مذہبی روا داری کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔ اِس ضمن میں پاکستانی اقدامات کی طویل فہرست ہے، جس میں وفاقی دارالحکومت، اسلام آباد میں ہندو برادری کے لیے مندر کی تعمیر کا حالیہ شان دار فیصلہ بھی نمایاں ہے، جس کی دنیا بھر میں ستائش کی جارہی ہے۔ گو کہ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کا اعلان تحریکِ انصاف کی حکومت میں سامنے آیا، مگر اِس منصوبے پر 2016ء میں میاں نواز شریف کے دورِ اقتدار میں کام شروع ہو چُکا تھا۔ اسلام آباد میں ہندو پنچایت کے سرگرم افراد نے نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس کو ایک درخواست دی تھی کہ اُنہیں وہاں شمشان گھاٹ (قبرستان) کے لیے جگہ دی جائے تاکہ اُنہیں اپنے مُردوں کی آخری رسومات کے لیے دیگر علاقوں کا رُخ نہ کرنا پڑے۔ 

واضح رہے، راول پنڈی میں 35 کے قریب مندر ہیں، مگر وہ بند پڑے ہیں یا پھر انتہائی زبوں حالی کا شکار ہیں۔ نیز، جڑواں شہروں میں ہندوؤں کے لیے کوئی کمیونٹی سینٹر ہے اور نہ ہی شمشان گھاٹ۔ حالاں کہ صرف اسلام آباد میں ساڑھے تین سو ہندو خاندان مقیم ہیں، جن کی مجموعی آبادی کئی ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اِس تناظر میں ہندو پنچایت کا مطالبہ اہمیت کا حامل تھا۔ سو، ہندوؤں کی درخواست نیشنل کمیشن کے بعد انسانی حقوق کی پارلیمانی کمیٹی کے پاس گئی، جس کی چیئرپرسن متحدہ قومی موومنٹ کی نسرین جلیل تھیں۔ یوں 2017ء میں سی ڈی اے نے اسلام آباد میں ہندو کمیونٹی کو ایک پلاٹ الاٹ کر دیا۔قومی اسمبلی میں تحریکِ انصاف کے اقلیتی رُکن اور انسانی حقوق کی پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ”ہندو پنچایت کی درخواست پر سیکٹر ایچ نائن میں چار کنال کا جو پلاٹ الاٹ کیا گیا، اُس پر مندر کی تعمیر کا آغاز کر دیا گیا ہے۔“ بلاشبہ، یہ پاکستان کے مثبت کردار کی ایک واضح علامت ہے کہ ایک ایسے موقعے پر جب ہندوستان میں مساجد ویران کی جارہی ہیں، پاکستان کے ہندو آزادنہ طور پر اور ریاستی تعاون سے مندر تعمیر کر رہے ہیں۔ 

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مندر کے ساتھ کمیونٹی ہال، آڈیٹوریم اور شمشان گھاٹ کے لیے بھی جگہ مختص ہوگی۔ مندر کی تعمیر پر 10 کروڑ لاگت کا تخمینہ ہے، جس کے لیے وزیرِ اعظم، عمران خان نے جلد فنڈز فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ فی الحال، ہندو برادری نے اپنی مدد آپ کے تحت 20 لاکھ روپے اکٹھے کرکے الاٹ شدہ پلاٹ کے گرد چار دیواری تعمیر کر لی ہے تاکہ قبضہ مافیا کی دست بُرد سے محفوظ رہا جاسکے۔ حکومت کی طرف سے جلد ہی فنڈز کی فراہمی متوقع ہے، تاہم ہندو کمیونٹی کا کہنا ہے کہ’’ اگر حکومت پیسے نہیں دے پاتی، تب بھی وہ چندہ کرکے مندر تعمیر کر لیں گے۔‘‘

مخالفانہ آوازیں اور شوقیہ درخواست گزاری

ابھی وفاقی دارالحکومت میں مندر کی تعمیر کے لیے بنیادیں بھی نہیں کُھودی گئیں کہ ایسے افراد سامنے آنے لگے، جو’’ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں کسی نئے مندر کی تعمیر کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ہیں۔ نیز، کئی شوقیہ درخواست گزاروں نے بھی کریڈٹ کا موقع ہاتھ سے نہ نکلنے کی روایت برقرار رکھتے ہوئے فوراً سے پیش تر مندر کی تعمیر رکوانے کے لیے عدالت کی جانب دوڑ لگا دی۔ اُنہوں نے ایک دلیل یہ بھی تراشی کہ مندر کی تعمیر اسلام آباد کے ماسٹر پلان کا حصّہ نہیں ہے، اِس لیے مندر کی تعمیر اور اس کے لیے حکومتی سطح پر فنڈز کا اجراء غیر قانونی عمل ہے۔ پھر یہ کہ اگر ہندو برادری کے لیے مندر کی تعمیر شروع کی گئی، تو کل کلاں دیگر اقلیتیں بھی اپنی عبادت گاہوں کی تعمیر کے لیے اسی طرح کے مطالبات کریں گی۔ 

تاہم، اسلام آباد ہائی کورٹ نے مندر کی تعمیر روکنے کی استدعا مسترد کر دی اور قانونی طریقۂ کار کے مطابق بعض محکموں اور افراد کو نوٹسز جاری کیے ہیں تاکہ سب کا مؤقف سامنے آسکے۔ اِس ضمن میں سوشل میڈیا پر بعض علمائے کرام کے مخالفانہ بیانات بھی گردش کر رہے ہیں، جب کہ کئی سیاست دانوں نے بھی مندر کی تعمیر کی مخالفت ضروری سمجھی، جن میں سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور اسپیکر صوبائی اسمبلی، چوہدری پرویز الٰہی خاص طور پر نمایاں ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کا کہنا ہے کہ”پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا، اِس لیے دارالحکومت میں نیا مندر بنانا نہ صرف اسلام کی رُوح کے خلاف ہے، بلکہ یہ’’ ریاستِ مدینہ‘‘ کے دعوے کی بھی توہین ہے۔ پرانے مندروں کی مرمّت تو کروائی جاسکتی ہے، لیکن نیا مندر نہیں بنایا جاسکتا۔“ ایسا لگتا ہے کہ دیگر سیاسی رہنما بھی اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لیے جلد میدان میں اُتریں گے۔ 

تاہم، اِس ساری صُورتِ حال میں وفاقی حکومت مندر کی تعمیر کے حوالے سے پُرعزم ہے۔ اِس ضمن میں وفاقی وزیر، فوّاد چوہدری نے حکومتی فیصلے کی ڈٹ کر حمایت کی ہے۔ اُنھوں نے ٹوئٹ میں طنز کرتے ہوئے لکھا’’ خدا کا شُکر ہے کہ امریکی اور یورپی رہنما، مودی اور پرویز الٰہی جیسوں کی طرح نہیں سوچتے اور مسلمانوں کو مسجدوں کی تعمیر اور عبادت کی اجازت دیتے ہیں۔‘‘اُدھر سفارتی حلقوں نے بھی وفاقی دارالحکومت میں مندر کی تعمیر کو ایک مثبت قدم قرار دیا ہے۔ جرمنی کے سفیر کا کہنا تھا ”مندر تعمیر ہوگا، تو مجھے وہاں جا کر بہت خوشی محسوس ہوگی۔“

تازہ ترین