• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیوروکریسی کے لیے میوزیکل چیئر کی صورتحال سے گورننس متاثر، حکام پریشان

اسلام آباد(انصار عباسی) بیوروکریسی کے لیے میوزیکل چیئر کی صورتحال سے گورننس متاثر، حکام پریشان ہیں۔ صورت حال بد سے بدتر ہونے سے خفیہ ایجنسی نے بھی معاملے کو تحفظات کے ساتھ رپورٹ کردیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق، مرکز اور پنجاب میں بالخصوص بیوروکریسی میں تبدیلیوں کی وجہ سے گورننس کو اس قدر مشکلات سے دوچار کردیا ہے کہ خفیہ ادارے بھی اب اس ضمن میں اپنی رپورٹس میں تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔

کابینہ ذرائع نے دی نیوز کو اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اہم عہدون پر فائز افسران جو سیکرٹریٹ اور فیلڈ میں ہیں انہیں جلد تبدیل کرنے سے گورننس بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس صورت حال سے پی ٹی آئی کے بہت سے ارکان بھی پریشان ہیں۔

ان کا ماننا ہے کہ اس طرح پارٹی کے منشور اور اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ بیوروکریسی کے لیے یہ میوزیکل چیئر جیسی صورت حال ہے کیوں کہ وفاق اور پنجاب حکومت کی جانب سے اس طرح کی جلد تبدیلیوں سے کارکردگی اور احتساب کے عمل کو معطل کردیا ہے۔

ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے چیئرمین ایف بی آر کو چوتھی مرتبہ تبدیل کرتے ہوئے نوشین امجد کی جگہ کسٹمز سروسز کے جاوید غنی کو ان کی جگہ تعینات کیا ہے۔ ایسی صورت حال میں ایف بی آر کس طرح کارکردگی دکھا سکتا ہے۔ گزشتہ دو سال کے دوران ایف بی آر کے ریونیو اہداف کو کوئی مرتبہ کم کیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی حکومت جس نے ریونیو ہدف کو دگنا کرکے 8000 ارب روپے کرنے کا وعدہ کیا تھا، اس نے ن لیگ کے 2018 کے ریونیو سے صرف 2 فیصد زیادہ ہی ریونیو اکٹھا کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چیئرمین ایف بی آر کو صرف تین ماہ کے لیے اضافی چارج دیا گیا ہے۔

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اسے قانونی چیلنج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیوں کہ نئے چیئرمین ایف بی آر کو عارضی چارج دیا گیا ہے جو کہ سپریم کورٹ کے حکم پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں اثاثہ انکوائری کی نگرانی کریں گے۔

صحت کے شعبے پر بھی توجہ نہیں دی جارہی حالاں کہ کورونا وائرس کے بعد اس کی اہمیت بڑھ چکی ہے۔ حکومت نے گزشتہ تین ماہ کے دوران چار سیکرٹری صحت تبدیل کیے ہیں۔ ڈاکٹر ملک اللہ بخش کو مارچ کے آغاز میں اس وقت عہدے سے ہٹایا گیا جب کورونا وائرس کا آغاز ہوا تھا۔ ان کی جگہ ڈاکٹر سید توقیر شاہ کو تعینات کیا گیا جو کہ پی اے ایس افسر تھے اور ن لیگ کے دور حکومت میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے پرنسپل سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے تھے۔

وہ 2011 می ڈینگی کی وبا کے دوران پنجاب کی ٹیم کے اہم رکن بھی تھے۔ تاہم، انہیں ایک ہفتے کے بعد ہی عہدے سے ہٹادیا گیا۔ ذرائع کے مطابق انہیں ہٹانے کی وجہ سیاسی نوعیت کی تھی۔ ان کی جگہ ڈاکٹر تنویر قریشی کو تعینات کیا گیا مگر چند ہفتوں کے اندر ہی انہیں بھی تبدیل کردیا گیا اور ان کی جگہ گزشتہ ماہ عامر اشرف خواجہ کو تعینات کیا گیا ہے۔

وفاقی حکومت اب تک پانچ انسپکٹر جنرلز اور چار چیف سیکرٹریز بھی تبدیل کرچکی ہے۔ چیف سیکرٹری اعظم سلیمان جنہیں گزشتہ برس انتظامیہ کو سیاست سے پاک کرنے کے اعلانات کے دوران تعینات کیا گیا تھا، انہیں چاہ ماہ بعد ہی عہدے سے ہٹادیا گیا۔

چیف سیکرٹری اعظم سلیمان نے جن افسران کو ہٹایا تھا، وہ دوبارہ ان کے ہٹتے ہی واپس آگئے۔ سابق کمشنر ڈی جی خان طاہر خورشید، وزیراعلیٰ کے سابق سیکرٹری ڈاکٹر شعیب اور ایس ایس پی عامر تیمور بزدار (وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے انکل) کو چیف سیکرٹری اعظم سلیمان نے اہم عہدوں سے ہٹایا تھا۔ تاہم، انہیں عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے طاہر خورشید کو چیئرمین وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم تعینات کردیا۔

ڈاکٹر شعیب کا تعلق او ایم جی سے تھا انہیں سیکرٹری سروسز لگادیا گیا جو کہ غیر ڈی ایم جی افسر کے لیے حیران کن ہے۔ اسی طرح وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے انکل کو ڈی پی او ساہیوال تعینات کردیا گیا۔ ذرائع کے مطابق، بیوروکریسی میوزیکل چیئرز کی بدترین مثال پنجاب کے سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کے عہدے کی ہے۔ ستمبر، 2018 سے اب تک 9 سیکرٹریز ہائر ایجوکیشن تبدیل کیے جاچکے ہیں۔

محکمہ آبپاشی شاید سب سے زیادہ متاثر ہے کیوں کہ اس میں 11 سیکرٹریز کو عثمان بزدار کی انتظامیہ کے آنے کے بعد تبدیل کیا گیا ہے۔ اگست میں سیکرٹری آبپاشی شیر عالم محسود تھے، ان کی جگہ نومبر، 2018 میں سید علی مرتضیٰ کو تعینات کیا گیا۔

پھر انہیں اپریل 2019 میں تبدیل کرکے ان کی جگہ احمد جاوید قاضی کو لگایا گیا۔ جس کے بعد جولائی 2019 میں ان کی جگہ سیف انجم کی تعیناتی کی گئی، جنہیں ایک ماہ بعد ہی ہٹا کر احمد جاوید قاضی کو تعینات کیا گیا۔

تاہم، بعد میں یہ ٹرانسفر آرڈر منسوخ کردیا گیا۔ دسمبر، 2019 میں محکمہ آبپاشی سید علی مرتضٰی کو دیا گیا۔ فروری، 2020 میں زاہد زمان کو نیا سیکرٹری بنایا گیا لیکن پھر جون 2020 میں سیف انجم کی تعیناتی کردی گئی۔ راولپنڈی ڈویژن جو کہ سب سے زیادہ حساس ہے، وہاں پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے بعد چار کمشنروں کی تعیناتی کی جاچکی ہے۔

کیپٹن سیف انجم کو جودت ایاز سے تبدیل کیا گیا، جس کے بعد کیپٹن ثاقب کی جلد تعیناتی کی گئی۔ جس کے بعد انہیں بھی جلد کپٹن محمود سے تبدیل کردیا گیا۔ یہ بھی بیوروکریسی کا شگوفہ ہے کہ رئیل اسٹیٹ ڈیولپرز کو ان تمام تبادلوں میں استعمال کیا گیا۔ حال ہی میں سیکرٹری خوراک پنجاب کو پانچویں مرتبہ تبدیل کیا گیا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ڈی جی ، ایف آئی اے کی سربراہی میں گندم اسکینڈل کی انکوائری کمیٹی نے بھی سیکرٹری خوراک کی جلد تبدیلیوں پر تنقید کی ہے۔ ان تبدیلیوں کو گندم بحران کی اہم وجہ قرار دیا گیا ہے۔محکمہ خوراک میں شوکت علی کی جگہ نسیم صادق کی تعیناتی کی گئی جنہیں دو ماہ بعد تبدیل کرکے ان کی جگہ ظفر نصراللہ کو لایا گا۔

پھر انہیں بھی چارماہ بعد تبدیل کردیا گیا اور ان کی جگہ وقاص محمود کی تعیناتی کی گئی، جو کہ سابق چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان کے داماد ہیں۔ اب گزشتہ روز انہیں بھی تبدیل کردیا گیا ہے۔گزشتہ گندم اسکینڈل کے بعد حکومت پنجاب گندم اور آٹے کی بڑھتی قیمتوں کے آگے بےبس ہے، اس کے باوجود سیکرٹری خوراک کی تبدیلیاں جاری ہیں۔ نئے سیکرٹری خوراک اسد الرحمان ہیں۔ وفاقی حکومت نے حال ہی میں چوتھے سیکرٹری داخلہ کی تعیناتی کی ہے۔

کسی بھی سیکرٹری داخلہ کی مدت چار ماہ سے زیادہ نہیں رہی۔ پہلے حکومت نے یوسف نسیم کھوکھر کو سیکرٹری داخلہ تعینات کیا اس کے بعد ان کی جگہ اعظم سلیمان کی تعیناتی کی، پھر ان کی جگہ یوسف کھوکھر کو لگایا گیا۔ لیکن پھر دو ماہ بعد اعظم سلیمان کو دوبارہ یوسف نسیم سے تبدیل کردیا گیا۔ میوزیکل چیئرز وفاقی وزارت کامرس میں بھی جاری رہی۔ دو سال کے اندر چار وفاقی سیکرٹریز تبدیل کیے جاچکے ہیں۔

ان افسران میں یونس داگا، احمد نواز سکھیرا، یوسف نسیم کھوکھر اور صالح فاروقی شامل ہیں۔ پی ٹی آئی دورحکومت میں بورڈ آف انویسٹمنٹ میں بھی چار چیئرمین تعینات کیے جاچکے ہیں۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ حال ہی میں حکومت پنجاب نے عوام اور میڈیا سے ان تبدیلیوں کو چھپانے کا انوکھا طریقہ نکالا ہے۔ ان تقرریوں کو وزیراعلیٰ کی منظوری سے ہرروز دو سے تین حصوں میں نوٹیفائی کیا جاتا ہے۔ تاکہ اس پر دھیان نا جاسکے۔

بیوروکریسی میں ایسے سینئر عہدوں کی مدت تین سال ہے۔ صوبے میں سول انتظامیہ اور پولیس کی تقرریاں بھی مذاق بن چکی ہیں۔ صوبے کے زیادہ تر ڈویژنز اور اضلاع میں کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنر، آر پی اوز، ڈی پی اوز وغیرہ کو جلد تبدیل کیا گیا ہے۔

ڈی جی خان میں چھ کمشنرز اور پانچ ڈپٹی کمشنرز اب تک تبدیل کیے جاچکے ہیں۔ یہ صورت حال ایک طرف گوننس کو نقصان پہنچارہی ہے تو دوسری جانب اس سے سویلین بیوروکریسی بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے کیوں کہ کسی کو بھی اپنی مدت کا یقین نہیں ہے۔

پی ٹی آئی نے اپنے منشور میں سول سروس ریفارمز اور سرکاری ملازمین کی مدت کے احترام کا وعدہ کیا تھا لیکن بیوروکریٹس کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا جارہا ہے جو پہلے کبھی نہیں رکھا گیا۔

تازہ ترین