• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اس وقت پی آئی اے کی پرواز سے کراچی سے اسلام آباد محوپرواز ہوں،میں نے ہمیشہ قومی ایئرلائن پی آئی اے کو پاکستان کا قومی اثاثہ قرار دیا ہے، میری دل و جاں سے یہ خواہش ہے کہ تابناک تاریخ کی حامل ہماری یہ قومی ایئرلائن پھرسے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلے۔ اس سے پہلے بھی ٹی وی ٹاک شوز میں پی آئی اے کے موضوع پر بہت زیادہ اظہار خیال کرچکا ہوں، اس کے حوالے سے میرے کم و بیش تین کالم روزنامہ جنگ میں شائع ہوچکے ہیں، یہ حالیہ کالم اس سلسلے کی چوتھی کڑی ہے۔آج میں پی آئی اے کے اپنے سفر کے دوران قومی اسمبلی کے سیشن میں وزیر ہوا بازی غلام سرور کی جانب سے پی آئی اے حادثہ انکوائری رپورٹ کے واضح اثرات محسوس کررہا ہوں،اس دوران مجھے کچھ ہم خیال مسافروں سے تبادلہ خیال کرنے کا بھی موقع ملا۔ وزیرہوابازی کے پائلٹوں کی جعلی ڈگریوں کے حوالے سے بیان کو کچھ حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اس حکومتی اقدام سے قومی ادارے کی جگ ہنسائی ہوئی اور عالمی سطح پر پاکستانی ہوابازوں کو شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پی آئی اے بحران گزشتہ ایک عرصے سے مختلف مسائل کا باعث بن رہا تھا،اس نے خطے کی جن ایئر لائنز کوتربیت سازی فراہم کی، آج وہ ہم سے کہیں آگے نکلنے میں کامیاب ہوگئی ہیںجبکہ پی آئی اے کا معیار روزبروز نیچے گر رہا تھا،تاہم بروقت حکومتی فیصلے نے تنزلی کے اس سفر کوایک بریک لگا دی ہے،تازہ اطلاعات کے مطابق اندرونی و عالمی سطح پر انکوائریاں شروع ہو چکی ہیں، جعلی ڈگریاں رکھنے والوں کو برطرف بھی کیا جاسکتا ہے، کچھ لوگوں کی گرفتاریاں بھی سامنے آسکتی ہیں، بہت سوں کو قانونی کاروائی کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے، وقتی طور پر ہو سکتا ہے کہ عالمی سطح پر ہمارے لئے کچھ ممالک کے دروازے بند بھی ہوجائیں ۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ یہ اقدامات کوئی دوسرا ملک نہیں بلکہ پاکستان کی منتخب حکومت کررہی ہے ، اس امر میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور حکومت میں ماضی کے ادوار کے برعکس اپنے سیاسی کارکنوں کو قومی ادارے میں کھپانے کی بجائے بیس کروڑ عوام کے جان و مال اورملکی وقار کی بحالی کی خاطر سخت فیصلے کئے جارہے ہیں، تاہم مثبت پہلو یہ ہے کہ ملک میں چیک اینڈ بیلنس کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے ، ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کالی بھیڑوں کے ٹولے کی نشاندہی کی جارہی ہے ، میں سمجھتا ہوں کہ حکومتی ایکشن سے نہ صرف عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ بحال ہورہی ہے بلکہ لوگوں کا اعتمادبھی ایماندار قیادت پر بڑھا ہے جس نے ملک و قوم کیلئے شرمندگی اور عوام کےلئے خطرے کا باعث بننے والے عناصر کے خلاف کارروائی کی۔ جب پی آئی اے حادثے کی انکوائری کی بات چلی تھی تو اس وقت بھی میں نے ٹی وی چینلز پر انکوائری رپورٹ کو منظرعام پر لانے پر زور دیا تھا، قوم نے دیکھا کہ موجودہ حکومت نے نہ صرف پی آئی اے کے حادثوں کی رپورٹ کو پبلک کیا بلکہ ہم نے اپنی غلطیوں کی نشاندہی بھی کی تاکہ مستقبل میں ایسے المناک اور افسوسناک حادثات سے بچا جاسکے۔ ماضی کی کمزورپی آئی اے انتظامیہ یونین بازی کے باعث بلیک میلنگ اورسیاسی دباؤ کا سامنا کرنے سے قاصر نظر آتی تھی جبکہ موجودہ ایڈمنسٹریشن زیادہ سمجھداری اور پروفیشنل ازم کا مظاہرہ کررہی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ حقائق کامردانہ وار سامنا کیا جائے اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میںقومی اداروں کی اصلاح کیلئے فیصلے کئےجائیں، اگر ہم پی آئی اے کو ایک بار پھرباکمال لوگ لاجواب سروس کی سطح تک لیجانےمیں سنجیدہ ہیں تو ہمیں اپنے اس قومی ادارے کو سیاسی مداخلت سے پاک کر تے ہوئے ازسرنو تجدید کرنا ہو گی ۔ نااہل، ناکارہ، نکمے لوگوں کو پی آئی اے سے ضرور باہر کرناچاہئے ، سیاسی پشت پناہی رکھنے والے یہ ملازم پی آئی اے کی زبوں حالی کے حقیقی ذمہ دار ہیں ، ایسے عناصر سے نبزد آزما ہونااس کی انتظامیہ کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے، تاہم اس دوران ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ پی آئی اے میں بہت زیادہ مخلص اسٹاف بھی موجود ہے اور بہت اچھے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اس قومی ادارے کی بہتری کیلئے اپنا وقت دیا ہے، ایسے مخلص اور تجربہ کار لوگوں کے ساتھ کسی صورت زیادتی نہیں ہونی چاہئے۔ سزا اور جزا کا نظام کسی بھی معاشرے کی بہتری کیلئے نہایت ضروری ہوتا ہے،میں سمجھتا ہوں کہ اچھے لوگ عزت کے مستحق ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کی قدرکی جانی چاہئے، اسی طرح اپنے فرائض سے کوتاہی برتنے والے نااہل عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں،یہی قدرت کا اصول ہے اور ہر اچھا ادارہ انہی اصولوں پر اپنی بنیادیں مستحکم کرتاہے۔ حکومتی اقدامات کے نتیجے میںچند شرپسند عناصر کی جانب سے افواہوں کا بازاربھی گرم ہے کہ مختلف ممالک کی ایئرلائنز پاکستانی پائلٹوں کو گراؤنڈ کررہی ہیں، پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی لگائی جارہی ہے، وغیرہ وغیرہ۔میری نظر میں ایسی منفی خبروں کامقصد قوم کو بدگمان کر کے مورال ڈائون کرنا ہے، ہمیں ان پر کان نہیں دھرنے چاہئے اور حکومت کی پالیسیوں پر اعتماد کرنا چاہئے۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں پاکستان ترقی کی سفر کی جانب گامزن ہو چکا ہے اور بہت جلد حکومت پی آئی اے کو اصلاحات کے عمل سے گزار کر سیاسی عناصرسے آزاد کرا لے گی ،مجھے یقین ہے کہ اگر ایک مرتبہ پی آئی اے میں رائٹ پرسن ایٹ رائٹ پلیس کی بنیاد پر تعنیاتی ہوجائے تو نہ صرف پی آئی اے کا شمار ایک مرتبہ پھر دنیا کی نمبر ون ایئرلائنز میں کیاجائے گا بلکہ حکومتی اقدام کی بنا پر پی آئی اے ملک کے دیگر اداروں میں اصلاحی عمل کی کامیابی کیلئے رول ماڈل کا درجہ حاصل کرلے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین