آزادکشمیر میں سی پیک کے تحت بجلی کے دو بڑے منصوے کوہالہ اور آزادپتن کے مقام پر شروع کیے گئے ہیں۔ جن کے حوالے سے باقاعدہ ایک معاہدہ ہوا ہے جس پر وفاقی حکومت اور چین کی حکومت نے دستخط کیے ہیں منصوبے آزاد کشمیر میں بنائے جارہے ہیں۔ مگر حکومت آزادکشمیر کو نہ ہی اعتماد میں لیا گیا اور نہ ہی ان معاہدوں پر حکومت آزادکشمیر کو فریق رکھ کر ان سے رضا مندی لی گئی اس پر آزادکشمیر کی تمام سیاسی قیادت کو خاصے تحفظات ہیں۔ وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر نے اس حوالے سے سخت موقف لیا ہے اور کہا کہ وہ آزادکشمیر کی سر زمین کو پانی کی سہولت سے محروم نہیں ہونے دیں گے اور نہ ہی خطہ آزادکشمیر کو ان اقدامات سے نقصان پہنچانے دیں گے ۔
آزادکشمیر میں 21جولائی 2016ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے اقتدار میں آنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن آزادکشمیر کو اقتدار سنبھالے چار سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔ اب ایک سال بعد انتخابات ہوں گے۔ اس طرح یہ سال آزادکشمیر میں انتخابات کا سال ہے۔ حکومت آزادکشمیر کو اپنی چار سالہ کارگزاری کو سامنے رکھ کر ایک مرتبہ پھر عوام کے سامنے جانا ہو گا۔ جب 21 جولائی 2016ء کو انتخابات ہوئے تھے اس وقت پاکستان میں مسلم لیگ ن برسر اقتدار تھی میاں محمد نواز شریف وزیراعظم پاکستان تھے جس طرح ماضی میں یہ ہوتا رہا ہے کہ آزادکشمیر میں جب بھی عام انتخابات ہوتے ہیں اس وقت مرکز میں جو جماعت برسر اقتدار ہوتی ہے آزادکشمیر میں قائم اسی کی شاخ انتخابات میں کامیاب ہو کر حکومت بناتی ہے۔
شاید ہی کوئی ایسے انتخابات ہوئے ہوں جن میں بوقت انتخابات مرکز میں قائم حکومت کی ہمدردیاں رکھنے والی جماعت آزادکشمیر میں اقتدار میں نہ آئی ہو۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے آزادکشمیر میں ان چار سالوں میں اس منشور پر عمل نہ کیا جو انتخابات کے وقت قوم کو دیا گیا تھا۔ راجہ فاروق حیدر نے ان انتخابات میں واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آتے ہی ایسے اقدامات کریں گے جن کا براہ راست فائدہ عام آدمی کو ہو گا۔
انہوں نے اس وقت یہ اعلان کیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے چھ ماہ کے اندر بہرصورت آزادکشمیر میں بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں گے کیونکہ نومبر 1991ء کے بعد آزادکشمیر میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے تھے ہر آنے والی حکومت اقتدار میں آنے سے پہلے یہ اعلان کرتی رہی کہ اقتدار میں آنے کے چھ ماہ کے اندر بلدیاتی انتخابات کروائے گی۔
مسلم کانفرنس کی جس کے دور میں نومبر 1991ء میں یہ انتخابات ہوئے تھے جن کی مدت نومبر1995ء میں پوری ہو گئی تھی مگر مسلم کانفرنس کی حکومت نومبر1995ء کے بعد انتخابات نہ کروا سکی ۔1996ء 2001ء 2006ء 2011ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والوں نے اس جانب کوئی توجہ نہ دی۔ اسی طرح راجہ فاروق حیدر بھی بلدیاتی انتخابات نہ کروا سکے۔ راجہ فاروق حیدر نے اس وقت یہ اعلان بھی کیا تھا کہ آزادکشمیر میں عبوری آئین ایکٹ74ء کو اصل حالت میں بحال کرکے 1970ء والے ایکٹ کی طرز پر آزادکشمیر میں ایک بااختیار اور باوقار حکومت قائم کی جائے گی۔ البتہ اس اعلان پر کسی حد تک وہ کامیابی حاصل کر سکے 31مئی2018ء اس وقت کے وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کی ذاتی دلچسپی سے جاتے جاتے آزادکشمیر میں تیرہویں آئینی ترمیم کی منظوری دے کر حکومت آزادکشمیر کے اختیارات کسی حد تک بحال کر دیئے گئے تھے۔
اسی طرح آزاد کشمیر میں این ٹی ایس کا عملی نفاذ کرکے راجہ فاروق حیدر خان نے ایک نئی طرح ڈالی اور اس کے ذریعے عام اور غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے نوجوانوں کو آزادکشمیر میں سرکاری ملازمتیں ملی ہیں۔ جو احسن اقدام ہے۔مسلم کانفرنس کے قائد اور سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان نے بجٹ اجلاس کے دوران وزیراعظم آزادکشمیر نے نہ صرف تفصیلی ملاقات کی بلکہ انہوں نے اور ان کے پارٹی سے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی نے حکومت جو کہ مسلم لیگ ن کی ہے کے حق میں نہ صرف اخباری بیانات جاری کئے بلکہ انہوں نے بھی بجٹ کو اتفاق رائے سے پاس کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انتہائی ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات کا غالب امکان ہے کہ آزادکشمیر میں بہت جلد مسلم لیگ ن اور مسلم کانفرنس ایک پلیٹ فارم پر آکر مشترکہ جدوجہد کے علاوہ انتخابات بھی باہمی تعاون سے لڑے گی۔
اس حوالے سے خاصی حد تک اندورن خانہ کام ہو چکا ہے۔ آزادکشمیر میں مئی 2018ء میں اس وقت کی وفاقی حکومت جو اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی قیادت میں قائم تھی نے اپنے آخری ایام میں حکومت آزادکشمیر کی تحریک پر آزادکشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 74ء میں خاصی ترامیم کی منظوری دے کر حکومت آزادکشمیر کو ایک بااختیار اور باوقارحکومت بنانے کے لئے کام کیے جس کے بعد 13ویں ترمیم کو آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی اور کشمیر کونسل کی دوتہائی اکثریت نے منظور کرکے اس کو فوری طور پر نافذ کیا۔
اس طرح ترامیم میں آزادکشمیر کی اعلیٰ عدالتوں نے ججز کی تعیناتی اور ترقی کے معاملے کو براہ راست وزیراعظم پاکستان کے اختیار میں دے دیا گیا تھا تاکہ وہ کشمیر کونسل کے ذریعے اس حوالے سے فیصلے کر سکیں۔ باقی معاملات کے اختیارات حکومت آزادکشمیر کو سونپے گئے تھے۔ تیرہویں ترمیم کے حوالے سے آزادکشمیر کے بعض سیاسی قائدین اور بعد ازاں پاکستان میں برسر اقتدار آنے والی پارٹی تحریک انصاف کی حکومت کو خاصے تحفظات تھے اب پاکستان حکومت کے وفاقی وزیر قانون کی جانب سے آزادکشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 74ء میں 14ویں ترمیم کے حوالے سے ایک مسودہ پاکستان حکومت کی بیورو کریسی نے تیار کرکے بھیجا ہے۔
تاہم یہ مسودہ ابھی تک باضابطہ طور پر حکومت آزادکشمیر یا حکمران پارٹی تک نہیں پہنچایا گیا ہے وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر نے اس متوقع 14ویں ترمیم کے مسودے کے حوالے بڑے واضح اور دو ٹوک کہا ہے کہ اوپر سے آنے والے کسی مسودے یاترمیم کو جو حکومت آزادکشمیر کو اعتماد میں لئے بغیر بھیجا جائے گا کو زیرغور نہیں لائیں گے۔ ادھر آزادکشمیر کے سابق وزیر اور پیپلزپارٹی کے صدر چوہدری لطیف اکبر نے بھی آل پارٹیز کانفرنس بلاکر یہ مشترکہ اعلامیہ جاری کروایا ہے کہ آزادکشمیر کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر یکطرفہ طور پر اگر کوئی فیصلہ کیا گیا تو اسے کشمیری عوام اور قیادت قبول نہیں کرے گی۔