کراچی (نیوز ڈیسک) چین اور ایران کے درمیان ہونے والے اربوں ڈالرز کے معاہدے کو اب تک کا سب سے بڑا اور تاریخی معاہدہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ایرانی حکومت نے چین کے ساتھ 25؍ صفحات پر مشتمل شرائط پر مبنی معاہدہ کیا جن کے سیاسی اور معاشی نوعیت کے اثرات سامنے آئیں گے۔ ایران نے اس معاہدے کو ملک کی سفارت کاری کیلئے ایک باعث فخر موقع قرار دیا تھا۔ اگرچہ تہران نے اس معاہدے کی مکمل تفصیلات جاری نہیں کیں لیکن ماہرین معاشیات نے بتایا ہے کہ ایران چین کو بڑی مراعات دینے کیلئے تیار ہوگیا ہے میں تیل اور گیس کی فروخت پر بھاری مراعات شامل ہیں اور ساتھ ہی ادائیگی سافٹ کرنسی میں دو سال کی تاخیر سے ممکن ہوں گی۔ اس کے علاوہ، ایران میں شروع ہونے والے منصوبہ جات میں چین کو ترجیح ملے گی۔ اس بات کی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ ایران نے کیش جزیرے کا کنٹرول چین کو دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اگرچہ ان اطلاعات میں کوئی صداقت نہیں ہے لیکن مستقبل میں ایران چین کو اپنی خلیجی بندرگاہوں میں عسکری سہولتیں دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، ایران میں شروع ہونے والے چائنیز منصوبوں کی حفاظت کیلئے پانچ ہزار چینی فوجی بھی ایران میں تعینات ہوں گے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں نہ صرف مشرق وسطیٰ میں بلکہ وسطیٰ ایشیا اور قفقاز (Caucasus) ریجن میں بھی چین کی پوزیشن مضبوط ہو جائے گی۔ ایران اور قفقاز کے راستے چین کو یورپ کے ساتھ بحیرہ اسود تک زمینی رسائی حاصل ہوگی لیکن یہ جارجیا پر منحصر ہوگا کہ وہ چین کو بحیرہ اسود کی بندرگاہوں تک رسائی دیتا ہے یا نہیں۔ اس معاہدے میں چین کیلئے فائدہ یہ ہے کہ اسے چین کی طرف سے اپنی زوال پذیر معیشت کو سہارا دینے کیلئے بھاری نقد رقم ملے گی، خصوصاً توانائی کے شعبے میں اسے 280؍ ارب ڈالرز ملیں گے جبکہ مینوفیکچرنگ اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں 120؍ ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری ہوگی۔ اتنی بڑی رقم کے ساتھ یقینی طور پر ایران کی معیشت دوبارہ بلند ہونا شروع ہو جائے گی جس سے ملازمتیں پیدا ہوں گی اور ساتھ ہی اسلامی جمہوریہ میں مقامی سطح پر بڑھتی مخالفت کو ختم کیا جا سکے گا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران کا چین اور ایشیا کے دیگر ملکوں کی طرف راغب ہونا دراصل ملک کے مغرب کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے میں ناکامی ہو سکتی ہے۔ ان میں سے سب سے بڑی ناکامی 2015ء کے جوہری معاہدے کی موجودہ حالت دیکھ کر محسوس کی جا سکتی ہے۔ اگر چین اور ایران کے درمیان معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل ہوا تو اس سے ایرانی معیشت بحال ہوگی، سیاست مستحکم ہوگی، ایران کے پڑوسی ممالک کے ساتھ کشیدہ تعلقات بہتر ہونے کے امکانات ہیں۔ عرب ممالک بھی یہ صورتحال دیکھ کر چین کی طرف راغب ہو سکتے ہیں اور امریکی پالیسیوں پر اندھا دھند چلنے کی بجائے ایران سے تعلقات بہتر کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، چین کی ایران میں موجودگی سے خلیجی ممالک میں امریکی اسٹریٹجک بالادستی ختم ہو سکتی ہے۔ اس سے بین الاقوامی سطح پر چین کی پوزیشن بہتر ہوگی۔ امریکا اگر ایران چین معاہدے کو ناکام بنانا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ بحال کرنا ہوگا اور امریکی و یورپی کمپنیوں کو اجازت دینا ہوگی کہ وہ تہران کے ساتھ معاشی سرگرمیاں شروع کریں۔ ایران کے ساتھ انتہائی سخت نوعیت کی پالیسی اختیار کرکے امریکا نے جنوب مغربی ایشیا میں اپنی اسٹریٹجک پوزیشن کو کمزور
کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے اس کے حامی امریکا کو اپنی شرائط منوانے کیلئے مجبور کر سکتے ہیں۔ چین کے بڑھتے قدموں سے امریکا کو ایران کی طرف اپنے رویے کے معاملے میں اب محتاط ہونے کا وقت آ گیا ہے۔